اداریہ:قاسم سید
قدرت کا بھی خوب انتظام ہے ـکس سے کیا کام لے لے ،کہاں گھر کا بھیدی پیدا کردے اور جھوٹ،مکروفریب کے لوہے کے پردوں کو سچ کی آگ سے پگھلادے ـ
بہرائچ کے حالیہ فساد میں یہی ہوا بٹوگے تو کٹوگے کے بیانیہ کو خود بی جے پی کے لیڈر نے ہوا میں اڑادی اور پوری سازش سے پردہ اٹھا کر وزیر اعلی یوگی کو کٹہرے میں کھڑا کردیا اب یہ ٹھاکروں کی آپسی لڑائی کا نتیجہ ہو یا یوگی اور مرکز میں جاری کشمکش اور طاقت کی لڑائی کا اور رسہ کشی جوابی وار بنیادی بات یہ ہے یہ ثبوت مل گیا کہ بہرائچ کا فساد ہو انہیں کرایا گیا ہے ـکوئی لیڈر اپنی ہی پارٹی لیڈروں کے خلاف مقدمہ درج کروائے اور رپورٹ نامزد ہو تو یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے اور ایسا لیڈر جس کی جڑیں جن سنگھ اور آرایس ایس میں رہی ہوں ـیہاں نہ زبان خنجر چپ ہے نہ آستیں کے لہو کو پکارنے کی ضرورت ـایف آئی آر کی زبان نے سارے مجرموں کو سامنے لاکر کھڑا کردیا ہے ـسرجار جمچاہے جو لیپا پوتی کرے وہ اپنی ذمہ داری اور جواب دہی سے بچ نہیں سکتی ـفساد کے اسٹوری ،اسکرہٹ رائٹر ،کردار کون ہیں یہ بی جے پی ایم ایل اے سریشور کی نامزد سیف آئی آر نے بتایا ،اس جو غور سے سمجھنے کی ضرورت ہے
بہرائچ ضلع کے مہسی اسمبلی حلقہ سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایم ایل اے سریشور سنگھ نے حالیہ فرقہ وارانہ فسادات کے سلسلے میں فساداتث اور ہنگامہ آرائی کے الزام میں اپنی پارٹی کے یوتھ ونگ کے سٹی صدر اور دیگر نامعلوم افراد سمیت سات افراد کو نامزد کیا ہے۔ ضلع میں تشدد کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی ہے۔ پم۔ پولس کے مطابق مہاراج گنج تشدد معاملے میں اب تک درج کی گئی یہ 12ویں ایف آئی آر ہے۔حکام کے مطابق ایم ایل اے سنگھ کی شکایت پر پولیس نے بہرائچ نگر بھارتیہ جنتا یوا مورچہ کے صدر ارپت سریواستو، انوج سنگھ رائکوار، شبھم مشرا، کشمیندر چودھری، منیش چندر شکلا، پنڈرک پانڈے اور سدھانشو سنگھ رانا اور نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ 18 اکتوبر کو متعلقہ دفعات کے تحت تھانے میں ایف آئی آر درج کرائی گئی ۔
ایف آئی آر کے مطابق، ملزمان کے خلاف دفعہ 191 (دو) (سادہ فساد کا جرم)، 191 (تین) (غیر قانونی اجتماع میں مہلک ہتھیار سے حملہ)، تین (پانچ) (اجتماعی کارروائی کا جرم) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ملزم کے خلاف انڈین کوڈ آف جسٹس (بی این ایس)، 109 (1) (قتل کے ارادے سے حملہ)، 324 (2) (شرارت)، 351 (iii) (شخص یا املاک کو نقصان پہنچانا)، 352 (جان بوجھ کر)۔ کسی کی توہین کرنا) اور 125 (لوگوں کی جان اور حفاظت کو خطرے میں ڈالنا) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔جن لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے ان میں بہرائچ کے مہسی علاقے کا رہنے والا اور شراوستی میں تعینات ایک سرکاری ٹیچر شامل ہے۔سرکاری ٹیچر کے نام کبتاتا ہے کہ نفرت کا زہر کہاں تک سرایت کرگیا ہے
ایم ایل اے کی یہ ایف آئی آر 13 اکتوبر کو بہرائچ کے مہاراج گنج قصبے میں فرقہ وارانہ تشدد میں مارے گئے رام گوپال مشرا (22) کی لاش پر ہنگامہ آرائی کے سلسلے میں درج کی گئی ہے۔
13 اکتوبر کو مہاراج گنج میں رام گوپال مشرا (22) نامی نوجوان ایک مسلمان کے گھر میں گھس کر وہاں لگے جھنڈے کو گران اس پر بھگوان لگانے اور مکان کی ریلنگ توڑنے کے پرتشدد ہنگامہ کے دوران ماراگیا تھا ۔ اس واقعہ کے بعد فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا ، آتش زنی اور توڑ پھوڑ کے واقعات پیش آئے۔
ایم ایل اے نے ایف آئی آر میں الزام لگایا ہے کہ 13 اکتوبر کو جب بھیڑ رام گوپال مشرا کی لاش کو بہرائچ میڈیکل کالج کے سامنے گیٹ پر رکھ کر احتجاج کر رہی تھی تو وہ اپنے سیکورٹی گارڈ اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ وہاں پہنچا اور پھر بات کرنے چلا گیا۔ جب لاش کو مردہ خانے لے جایا جا رہا تھا تو کچھ شرپسندوں نے مردہ باد کے نعرے لگائے اور گالی گلوچ شروع کر دی۔انہوں نے بتایا کہ ان میں ارپت سریواستو، انوج سنگھ رائکوار، شبھم مشرا، کشمیندر چودھری، منیش چندر شکلا، پنڈرک پانڈے (استاد شراوستی)، سدھانشو سنگھ رانا اور دیگر شامل ہیں۔
ایم ایل اے نے شکایت میں الزام لگایا کہ ’’ہم نے کسی طرح لاش کو مردہ خانے میں رکھا‘‘۔ پھر لوگوں نے پریشانی پیدا کرنا شروع کردی۔” انہوں نے کہا کہ یہ پورا واقعہ 13 اکتوبر کی رات 8 سے 10 بجے کے درمیان پیش آیا۔
سنگھ کی شکایت پر درج ایف آئی آر کے مطابق، جب وہ اور ضلع مجسٹریٹ مردہ خانے سے باہر نکلے اور گیٹ کے باہر پہنچے اور ان کی گاڑی مڑنے لگی، تو مذکورہ لوگوں نے گاڑی کو روکنے کی کوشش کی اور دوسروں نے پتھراؤ کیا۔
سنگھ نے الزام لگایا، "اسی وقت بھیڑ کی طرف سے ایک گولی چلائی گئی جس کی وجہ سے کار کا شیشہ ٹوٹ گیا اور میرا بیٹا اکھنڈ پرتاپ سنگھ بال بال بچ گیا۔”
ایم ایل اے نے بتایا کہ یہ واقعہ رات 8 سے 10 بجے کے درمیان ہوا، سی سی ٹی وی۔ فوٹیج میں پورا واقعہ واضح ہو جائے گا۔بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک سرکاری ذریعے نے بتایا کہ مرکزی ملزم ارپت سریواستو بھارتیہ جنتا یووا مورچہ، بہرائچ شہر کا صدر ہے.کیا صاحبان اقتدار کو اور ٹبوت چاہیے ؟ کیا فساد کے منصوبہ سازوں گھناؤنے چہرے بے نقاب نہیں ہوئے؟اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ ریاستی حکومت سچائی اور غیر جانبداری کے ساتھ پولیس،انتظامیہ کو تحقیقات کرنے دے گی ہمارے لیئے تو سریشور کی ایف آئی آر ہی کلین چٹ اور سرکار کے خلاف وائٹ پیپر ہے اس لئے مسلمانوں کو دفاعی اور معذرت خواہانہ لہجہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں انصاف ملے نہ ملے یہ ایف آئی آر ہی ان کے حق میں گواہی ہے ـ