اداریہ:قاسم سید
مہاراشٹر میں انتخابی جنگ شروع ہوگئی ہے حال ہی میں ممبئی میں ایک پوسٹر شائع ہوا۔ پوسٹروں پر اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ اور ان کا نعرہ "بٹیں گے تو کٹیں گے” لکھا ہوا ہے۔
پوسٹر لگانے والے بی جے پی رکن وشوبندھو رائے نے کہا، "۔ شمالی بھارت کے لوگ یوگی اور ان کے نعرے ‘بٹیں گے تو کٹیں گے’ پر یقین رکھتے ہیں، اور اسی لیے ہم نے مہاراشٹر میں بھی اپوزیشن کی حکمت عملی کا جواب دینا شروع کر دیا ہے۔
اس سے پہلے مہاراشٹر میں مسلمانوں کی طرف سے پیغمبر اسلام پر مبینہ بابا کے تبصرے کے خلاف مظاہرے ہوئے تھے۔ جسے میڈیا نے وسیع کوریج دی۔ ممبئی کے میرا روڈ علاقے میں ایک مخصوص کمیونٹی کی دکانوں اور گھروں پر بلڈوزر چلا دیا گیا۔ اس کا تذکرہ ہوا تلنگانہ سے بی جے پی کے متنازعہ لیڈر ٹی راجہ سنگھ کو بلایا گیا اور ممبئی کے کئی حصوں میں میٹنگیں کی گئیں، مجموعی طور پر مہاراشٹر میں ہندوتو نے اپنا رنگ بکھیرنے کا داؤ چل دیا ہے
ہریانہ کے بعد مہاراشٹر میں بھی آرایس ایس نے اپنے کارکنوں کی فوج اتاردی ہے ۔ جس کے ذریعے ہندو عوام کے ووٹوں کو اکٹھا کرنے اور انہیں پولنگ سٹیشنوں تک لے جانے کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔ غیر بی جے پی پارٹیاں الزام لگاتی رہی ہیں کہ بی جے پی ہر چھوٹے بڑے انتخابات میں آر ایس ایس کے ذریعے فرقہ وارانہ ایجنڈا چلاتی ہے۔ باقی کام پی ایم مودی اور یوپی کے سی ایم یوگی اپنی جارحانہ تقاریر سے کرتے ہیں۔ خبر گرم ہے کہ مہاراشٹر میں آر ایس ایس نے یوگی کی چھوٹی چھوٹی عوامی میٹنگیں منعقد کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ یہی حکمت عملی ہریانہ میں بھی اپنائی گئی، جہاں مودی سے زیادہ یوگی کی میٹنگیں ہوئیں۔
‘آر ایس ایس کے ذرائع نے پی ٹی آئی کو بتایا – ریاست بھر میں ٹولیاں(ٹیمیں) تشکیل دی گئی ہیں اور انہوں نے اپنے اپنے علاقوں میں لوگوں تک پیغام پہنچانا شروع کر دیا ہے۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ ہر ٹیم 5-10 افراد کے ساتھ چھوٹے گروپ میٹنگز کر رہی ہے اور اپنے اپنے علاقوں کے ‘محلوں’ میں اپنے مقامی نیٹ ورکس کے ذریعے گھروں تک بھی پہنچ رہی ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ یوگی کا پوسٹر اسی کا ایک حصہ ہے۔انہوں نے بی جے پی حکومت کے بارے میں ہندو عوام کی رائے بدلنے کا کام کیا۔’
ذرائع کے مطابق، "ان ملاقاتوں میں، وہ واضح طور پر بی جے پی کی حمایت نہیں کرتے ہیں بلکہ قومی مفاد، ہندوتوا، گڈ گورننس، ترقی، عوامی بہبود اور سماج سے متعلق مختلف مقامی مسائل پر گہرائی سے بات چیت کے ذریعے لوگوں کی رائے کو تشکیل دیتے ہیں۔” ” ٹولیوں کی تشکیل سے قبل آر ایس ایس اور اس کے اتحادیوں نے حکمت عملی تیار کرنے کے لیے ریاست میں تمام سطحوں پر کوآرڈینیشن میٹنگیں کی تھیں۔
قارئین کو معلوم ہوگا کہ آر ایس ایس کی طرف سے ہریانہ بھر میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر منعقد کی گئی "ڈرائنگ روم میٹنگز” ریاست میں بی جے پی کی انتخابی کامیابی کی ایک بڑی وجہ تھی۔ ایک اور ذریعہ نے پی ٹی آئی کو بتایا، "ہریانہ میں تشکیل پانے والے سنگھ کارکنوں کے گروپوں نے ریاست بھر میں 1.25 لاکھ سے زیادہ چھوٹی گروپ میٹنگیں کی ہیں۔”
یہ بڑے پیمانے پر مانا جاتا ہے کہ اس سال لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی مایوس کن کارکردگی کے پیچھے آر ایس ایس کے کارکنوں میں جوش و خروش کی کمی ایک بڑی وجہ تھی بی جے پی کے صدر نڈا کا یہ تبصرہ کہ ان کی پارٹی کو ابتدا میں آر ایس ایس کی حمایت کی ضرورت تھی لیکن کئی سالوں میں خود کو چلانے کے قابل ہو گئی ہے، .
اب آتے ہیں پوسٹر کی طرف جہاں سے بات شروع ہوئی تھی گرچہ کافی ہنگامہ کے بعد پوسٹر ہٹادیا گیا مگر یہ قابل ذکر بات یہ ہے کہ پوسٹر اس مقامی لیڈر نے لگایا جو برسوں تک کانگریس میں تھا اور حال ہی میں ہندوتو کی ٹولی کا حصہ بنا ہےـیعنی کانگریس میں آج بھی ہندو تو انتہا پسندی کےایسے زہریلے دانت ہیں جو اس کو ڈس رہے ہیں اور راہل کی ایک نئی کانگریس کھڑا کرنے کی کوششوں کو سبوتاز کررہے ہیں اور الیکشن کے موقع پر پیٹھ میں چھرا گھونپنے کا کام کرتے ہیں
دوسری اہم بات یہ ہے جہاں سے اچھی بات ملے لے لینا چاہیے ،ارایس ایس خاموشی مگر بےحد سرگرمی سے اندرون سماج اپنا کام کرتی رہتی ہے نہ شور شرابہ نہ ہنگامہ نہ پبلسٹی نہ کریڈٹ کا ہوکا،نہ اخباروں میں چھپنے کی تمنا نہ اس کے لیے لابنگ ـ بس اوپر سے لے کر نیچے تک سب تن من دھن سے لگے رہتے بلکہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ میڈیا سے دور رہاجایے ـمسلم تنظیمیں بھی بلاشبہ حتی الوسع کام کررہی ہی ہیں اور انتھک کررہی ہیں ، مگر بدقسمتی سے نام و نمود اور کریڈٹ کی لڑائی کیے کرایے پر پانی پھیر رہی ہے یہ مرض الاماشاءاللہ سب میں بدرجہ اتم موجود ہےـاسے کیا کہا جائے کہ انہیں الیکٹورل پالیٹکس کے نام پر میٹنگ کرنا پھر کچھ نام یا پارٹی کے حق میں اپیل جاری کرنے کے علاؤہ اور کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا ہوتا ہے یا کیا جاسکتا ہے.ہم سنگھ کے طرز عمل اور مقصدیت یا ٹارگٹ کے تئیں دیوانگی کی حد تک عشق کو سمجھ سکتے ہیں یہی بی جے پی کا معاملہ ہے وہ ہار سے مایوس دل شکستہ نہیں ہوتی بلکہ زیادہ عزم و حوصلے سے اٹھ کھڑی ہوتی ہےـ یہ وہ خوبیاں ہیں جو کسی زمانہ میں ہماری شناخت تھیں اورفتوحات کا سبب مگر یہ کسی کی بپوتی نہیں جو محنت کرے گا پھل اسی کو ملے گا. اسی لیے انتخابات کا جو نقشہ بظاہر نظرآتا ہے نتیجہ اس کے برعکس نکلتا ہے ـمیاراشٹر میں یہ محنت ہریانہ کی طرح نتائج کو بدل دے گی یا اپوزیشن کے ترکش میں بھی تیر ہیں یہ بیس نومبر کو پتہ چلے گا