ڈھاکہ:بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنے والی نوجوانوں کی تحریک نے سابق وزیراعظم کو ملک میں واپس لا کر اُن کے خلاف بدترین ریاستی تشدد کے الزامات پر ٹرائل کا مطالبہ کیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے نفاذ کے خلاف ابتدائی طور پر پُرامن طلبہ کے مظاہروں کا آغاز رواں برس جولائی کے شروع میں ہوا تھا۔
ڈھاکہ یونیورسٹی میں 26 سال کی عمر کے ناہید اسلام سوشیالوجی کے طالب علم اور امتیازی سلوک کے خلاف طلبہ کے کوارڈینیٹر اور احتجاج کرنے والے مرکزی گروپ کے رہنما ہیں۔
پیر کو ڈھاکہ میں اپنی سرکاری رہائش گاہ پر عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے ناہید اسلام کا کہنا تھا کہ ’حکومت اور بنگلہ دیش کے عوام یقینی طور پر حسینہ واجد کو ملک اور عدالت میں دیکھنا چاہتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’عوام چاہتے ہیں کہ سابق وزیراعظم کو ملک میں واپس لا کر اُن کے خلاف عدالتی کارروائی کا آغاز کیا جائے۔‘
ناہید اسلام بنگلہ دیش کی عبوری حکومت میں وزیرِاطلاعات ونشریات ہیں جبکہ وزارتِ مواصلات اور ٹیکنالوجی کا محکمہ بھی اُن کے پاس ہے۔
نوبل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات محمد یونس کی سربراہی میں 8 اگست کو قائم ہونے والی بنگلہ دیش کی عبوری حکومت میں دو طلبہ رہنما شامل ہیں۔ناہید اسلام کے علاوہ کابینہ میں شامل دوسرے طالب علم رہنما آصف محمود کے پاس وزارت کھیل اور امورِ نوجوانان کا محکمہ ہے۔
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے اس بات کا عہد کیا ہے کہ وہ ایک ماہ تک جاری رہنے والے پرتشدد واقعات کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے ساتھ تعاون کرے گی۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے ابتدائی اندازے کے مطابق بنگلہ دیش میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے دوران کم سے کم 600 افراد مارے گئے جبکہ بتائی گئی ہلاکتوں کی تعداد ممکنہ طوپر پر اس سے کم تھی۔
’ان الزامات میں ماورائے عدالت ہلاکتیں، خلافِ قانون گرفتاریاں اور نظربندی، تشدد اور بدسلوکی کے علاوہ آزادی اظہارِ رائے اور پرامن اجتماعات پر پابندیاں بھی شامل ہیں۔‘اقوام متحدہ کی ایک ٹیم بنگلہ دیش کی عبوری حکومت اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملاقات کے لیے جمعرات کو دارالحکومت ڈھاکہ پہنچی تھی۔
بنگلہ دیش میں اقوام متحدہ کے دفتر نے اپنے بیان میں کہا کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشن کی ٹیم کا یہ دورہ آٹھ روزہ (22 سے 29 اگست تک) ہو گا۔ناہید اسلام کا کہنا تھا کہ ’ایک بار تحقیقاتی عمل کا آغاز ہو جائے تو پھر اس کے بعد ہم شیخ حسینہ واجد کو ملک واپس لانے اور ان کے خلاف مقدمہ شروع کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔‘