تحریر:سندھیا دویدی
کرناٹک میں بین پالیٹکسختم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ بیفپر پابندی سے شروع ہونے والی اس سیاست میں مندروں کے آس پاس مسلم تاجروں کی دکانیں ہی نہیں بلکہ ان کا اہم کاروبار حلال گوشت بھی شامل ہو گیا ہے۔
پچھلے چار مہینوں میں اگر آپ فہرست کو دیکھیں تو ہندوتوا تنظیموں نے 6 چیزوں پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ منصوبہ بندی صرف انتخابی سال 2023-24 کے لیے نہیں بلکہ اس سے آگے کی ہے۔
کرناٹک میں 2018 کے انتخابات سے پہلے ہی، فائر برانڈ لیڈر، جو شمال میں ہندوتوا کا ایک سخت چہرہ بن گیا تھا، کو ایک اسٹار کمپینر کا کردار سونپا گیا تھا۔ مئی 2018 میں، کرناٹک میں اپنے چار روزہ قیام کے دوران، انہوں نے چھترپتی شیواجی کے بجائے ٹیپو سلطان کی یوم پیدائش منانے کو کانگریس کے ایجنڈے کو قرار دیا تھا۔ کھلے عام کانگریس کو جہادیوں کی حامی جماعت کہا۔ یہ کوئی اور نہیں بلکہ اتر پردیش کے سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ تھے۔
یوپی میں کئی انتخابات سے مدعا بنا ایودھیا کا ذکر کرنے سے یوگی یہاں بھی نہیں چوکے۔ انہوں نے کہاکہ اگر ایودھیا کا رام اور کرناٹک کا ہنومان نہ ملتا تو رام راج کا تصور بھی ممکن نہیں تھا۔ جنوب میں یوگی کے شور سے یہ واضح تھا کہ پارٹی جنوب میں بھی شمال کے انتخابی ’راگ‘ اور ’رنگ‘ دونوں کو بھرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
کرناٹک میں ’ بین پالیٹکس ‘ کے پیچھے ذمہ دار 3 وجوہات
پہلی وجہ: کرناٹک کے ایک سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ ’’اس سے زیادہ یہ سوال صحیح ہوگا کہ آخر بین کی مانگ کیوں اٹھ رہی ہے؟تو سیدھا جواب ہوگا – یہ تیاری 2023 اور 2024 کے لیے کی جا رہی ہے۔ اس لئے تب تک اس طرح کے تنازعے ہر دوسرے چوتھے دن اٹھتے ہی رہیں گے ۔ آپ بی جے پی کی مجبوری بھی سمجھ لیں کہ اب پارٹی پاس یدی یورپا جیسا عوامی مقبولیت والا لیڈر نہیں ہے۔
سی ایم بسواراج بومئی لنگایت برادری کے ہو سکتے ہیں، لیکن وہ بی جے پی کے لیے یدی یورپا ثابت نہیں ہو سکتے۔ دوسری بات یہ کہ 2018 کے انتخابات میں مینڈیٹ ٹوٹ گیا، بھلے ہی بی جے پی نے حکومت بنائی لیکن مستقبل کے بارے میں ذہن میں شک ہے۔
دوسری وجہ: وہ آگے کہتے ہیں، ’’کرناٹک صرف بی جے پی کے لیے ایک ریاست نہیں ہے، بلکہ یہ جنوب کا گیٹ وے بھی ہے۔ کیرالہ میں ان کی بہت سی کوششوں کے باوجود بی جے پی کے لیے زرخیز زمین تیار نہیں ہو سکی، لیکن کرناٹک میں بی جے پی طرز کی سیاست کی گنجائش موجود ہے۔ یعنی ہندوتوا کی سیاست کے لیے یہاں زرخیز زمین ہے۔ لہٰذا ریاست جیتنے کے ساتھ، یہ نہ صرف 2024 میں بلکہ جنوب میں بی جے پی کے لیے میدان تیار کرنے کے لیے تجربہ گاہ کا کام کرے گی۔
یہ بھی سچ ہے کہ 1990 میں ایل کے اڈوانی کی رتھ یاترا نے کرناٹک میں بی جے پی کے لیے میدان تیار کیا تھا، یہ مٹھ اور مندروں کی سرزمین ہے۔ 1989 میں صرف 4 اسمبلی سیٹیں جیتنے والی بی جے پی نے 1994 میں 40 سیٹوں پر کمل کھلایا تھا۔ تب سے بی جے پی کی مضبوط موجودگی جوں کی توں ہے۔
تیسری وجہ: 5 ماہ پہلے کرناٹک کی دو اسمبلی سیٹوں – سندھگی اور ہاناگن کے لیےضمنی انتخابات ہوئے تھے۔ بی جے پی امیدوار نے سندھگی سے سیٹ نکال لی، لیکن پارٹی کے امیدوار کو بسواراج بومائی کے آبائی شہر حویلی کی ہاناگن سیٹ سے شکست ہوئی تھی۔
بی جے پی امیدوار سی ایم اُداسی پچھلی 5 بار ہاناگن سیٹ سے مسلسل جیت رہے تھے، لیکن اس سیٹ سے بی جے پی کی ہار نے بی جے پی کی مرکزی قیادت کو پریشان کرنے کے علاوہ وزیر اعلیٰ بومئی کی قیادت پر سوال کھڑے کر دیے ہیں۔
بی جے پی کی انتخابی حکمت عملی میں سنگھ کا کردار
کرناٹک کے ایک اور سینئر صحافی ہیمنت کہتے ہیں، ’مندروں کے آس پاس مسلمانوں کی دکانوں یا حلال گوشت پر پابندی لگانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کمیونٹی کا معاشی طور پر بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔ دراصل یہ ایک طرح کا ردعمل ہے جس طرح مسلم کمیونٹی حجاب کے معاملے میں جارحانہ ہو گئی ہے۔
یہ پابندی ایس ڈی پی آئی کے کہنے پر جس طرح سے پی ایف آئی نے تعلیم کو فرقہ وارانہ بنا دیا ہے اس کا ردعمل ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں، ’’سچ یہ ہے کہ یہ سنگھ کے انداز کا احتجاج ہے، بی جے پی کا نہیں۔ تشدد کے بجائے کاروبار ختم کرو، ایجنڈا خود بخود ختم ہو جائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ سنگھ ایک سیاسی تنظیم نہیں بلکہ ایک نظریاتی تنظیم ہے، لیکن اس کے ثقافتی قوم پرستی کے مسائل ہمیشہ بی جے پی کے لیے انتخابی میدان تیار کرتے رہے ہیں۔
ہیمنت کی بات میں دم نظر آتا ہے کیونکہ حال ہی میں کرناٹک میں 3 مارچ کو ایک پد یاترا کے دوران سنگھ کے سربراہ نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر ہندو سماج اکٹھا ہو جائے تو بھگوا پرچم ملک کا جھنڈا بن سکتا ہے۔ اس پر بھی تنازعہ کھڑا ہوگیا۔
دیگر جنوبی ریاستوں میں اپوزیشن مضبوط
گزشتہ کیرالہ انتخابات کے بعد سے بی جے پی اور سنگھ نے وہاں مسلسل کوششیں کی ہیں، لیکن بائیں بازو کے مضبوط گڑھ کی وجہ سے وہاں گھسنا مشکل ہے۔ تلنگانہ میں کے چندر شیکھر راؤ اور آندھراپردیش میں جگن ریڈی مضبوطی کے ساتھ جمے ہوئے ہیں ۔ تمل ناڈو میں ڈی ایم کے ایم کے اسٹالن کا قد مسلسل بڑھتا جارہاہے ۔
2018 میں کرناٹک میں بی جے پی کی جیت کے بعد امید پیدا ہوئی ہے، اس لیے فی الحال کرناٹک بی جے پی کے لیے جنوب کا گیٹ وے ثابت ہو سکتا ہے۔ اس ریاست کو ہندوتوا کی تجربہ گاہ بنا کر بی جے پی اپنے لیے جنوب میں داخل ہونے کا راستہ تلاش کر رہی ہے۔
کرناٹک کا حال
کرناٹک میں گائے کے ذبیحہ مخالف بل کے پاس ہونے کے بعد صرف گائے ہی نہیں بیل کے گوشت پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔
ہائی کورٹ نے مسلم لڑکیوں کے اسکولوں میں حجاب پہننے پر پابندی لگا دی ہے۔
گیتا کو نصابمیں شامل کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
مدارس پر پابندی لگانے کا مطالبہ ہے۔
مندر کے آس پاس مسلم تاجروں کی دکانوں پر پابندی لگانے کے علاوہ ہندوتوا تنظیموں نے اپیل کی ہے کہ وہ یہاں کے مسلم دکانداروں سے خریداری نہ کریں۔
اب ہندوؤں کے نئے سال کہلائے جانے والے اوگاڑی تہوار سے پہلے حلال گوشت پر روک لگانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
سینئر صحافی ہیمنت کا کہنا ہے کہ ’ہندو جاگرتی سمیتی، شری رام سینا، بجرنگ دل اور مندر سمیتی اس سب کے پیچھے نظر آ سکتے ہیں، لیکن سارا کنٹرول راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ہاتھ میں ہے۔‘