تحریر : انصار-عباسی
وہاٹس ایپ کے ذریعے کچھ ایسا مواد پڑھنے کو ملا جس کا پیغام کچھ یوں تھا کہ پاکستان میں اسلام قبول کرنے کو جرم بنانے کے لیے قانون سازی پر کام ہو رہا ہے۔ میں نے سوچا ایسا کیسے ممکن ہے لیکن حکومتی ذرائع سے رابطہ کیا تو پتا چلا کہ یہ سچ ہے۔
مذہبی اقلیتوں کی جبری مذہب کی تبدیلی کے نام پر ایک بل بنایا گیا ہے جو اس وقت اسلامی نظریاتی کونسل اور وزارت مذہبی امور کے زیر غور ہے اور جسے پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اگر اس بل کو قانون بنا دیا گیا تو اسلام قبول کرنے پر پاکستان میں پابندی لگ جائے گی اور اسلام کی تبلیغ کرنے والے مجرم ٹھہریں گے۔
میں نے بل کی کاپی بھی منگوائی جس کے چیدہ چیدہ نکات میں قارئین کے سامنے پیش کروں گا لیکن مختصراً بتاتا چلوں کہ اس مجوزہ قانون کو اگر لاگو کیا جاتا ہے تو ایک تو کوئی بھی اٹھارہ سال سے کم عمر اسلام قبول نہیں کر سکے گا اور دوسرا اٹھارہ سال سے بڑا کوئی شخص بھی آسانی سے اسلام قبول نہیں کر سکے گا کہ اس کے لیے کچھ ایسی سخت شرائط لگا دی گئی ہیں کہ اسلام قبول کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو جائے گا۔ ذیل میں بل کے کچھ نکات پیش کر رہا ہوں:
بل کے مطابق کوئی بھی غیر مسلم، جو بچہ نہیں ہے (18 سال سے زیادہ عمر والا شخص)، اور دوسرے مذہب میں تبدیل ہونے کے قابل اور آمادہ ہے، اس علاقہ کے ایڈیشنل سیشن جج سے تبدیلیٔ مذہب کے سرٹیفکیٹ کے لیے درخواست دے گا جہاں عام طور پر غیر مسلم فرد رہتا ہے یا اپنا کاروبار کرتا ہے۔
ایڈیشنل سیشن جج مذہب کی تبدیلی کے لیے درخواست موصول ہونے کے سات دن کے اندر انٹرویو کی تاریخ مقرر کرے گا۔ فراہم کردہ تاریخ پر، فرد ایڈیشنل سیشن جج کے سامنے پیش ہو گا جو اس بات کو یقینی بنائے گا کہ مذہب کی تبدیلی کسی دباؤ کے تحت نہیں اور نہ ہی کسی دھوکہ دہی یا غلط بیانی کی وجہ سے ہے۔
ایڈیشنل سیشن جج غیر مسلم کی درخواست پر اس شخص کے مذہبی اسکالرز سے ملاقات کا انتظام کرے گا جو مذہب وہ تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرنے اور ایڈیشنل سیشن جج کے دفتر واپس آنے کے لیے غیر مسلم کو نوے دن کا وقت دے سکتا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج، اس بات کو یقینی بنانے کے بعد کہ یہ شرائط پوری ہو جائیں، مذہب کی تبدیلی کا سرٹیفکیٹ جاری کرے گا۔
جبری مذہب کی تبدیلی میں ملوث فرد کو کم از کم پانچ سال اور زیادہ سے زیادہ دس سال تک قید کی سزا اور جرمانہ ہو گا۔ مذہب کی تبدیلی کے لیے مجرمانہ قوت کا استعمال اس شخص کے خاندان، عزیز، برداری یا جائیداد کے خلاف ہو سکتاہے بشمول شادی۔ جو شخص (شادی) انجام دیتا ہے، کرتا ہے، ہدایت دیتا ہے یا کسی بھی طرح سے شادی میں سہولت فراہم کرتا ہے‘ اس بات کا علم رکھتے ہوئے کہ یا تو دونوں فریق جبری تبدیلی کے شکار ہیں وہ کم از کم تین سال قید یا تفصیل کے مجرم ہوں گے۔اس میں کوئی بھی شخص شامل ہوگا جس نے شادی کی تقریب کے لیے لاجسٹک سپورٹ اور کوئی دوسری ضروری خدمات وغیرہ فراہم کی ہوں۔
مذہب کی تبدیلی کی عمر:- کسی شخص کے بارے میں یہ نہیں سمجھا جائے گا کہ اس نے اپنا مذہب تبدیل کیا ہے جب تک کہ وہ شخص بالغ (18 سال یا اس سے بڑا) نہ ہو جائے۔ جو بچہ بلوغت کی عمر کو پہنچنے سے پہلے اپنے مذہب کو تبدیل کرنے کا دعویٰ کرتا ہے اس کا مذہب تبدیل نہیں سمجھا جائے گا اور نہ ہی اس کے خلاف اس قسم کے دعویٰ کرنے پر کوئی کارروائی کی جائے گی۔ اگرچہ کچھ بھی ان حالات پر قابل اطلاق نہ ہو گا جہاں بچے کے والدین یا سرپرست خاندان کا مذہب تبدیل کرنے کا فیصلہ کریں۔
عدالت کے سامنے جبری تبدیلی کا معاملہ نوے دن کی مدت کے اندر نمٹا دیا جائے گا اور عدالت کسی مقدمے کی سماعت کے دوران دو (02) سے زائد التواء نہیں دے گی، جن میں سے ایک (01) التوا،التوا کے خواہاں شخص کے اخراجات کی ادائیگی پر ہو گا۔ اس بل کے تحت کسی جرم کی سزا یا بریت کے خلاف اپیل متعلقہ ہائی کورٹ کے سامنے اس تاریخ سے دس دن کے اندر پیش کی جائے گی جس دن کورٹ آف سیشن کے منظور کردہ حکم کی کاپی اپیل کنندہ کو فراہم کی جائے گی۔
جبری تبدیلی کے حوالے سے تحقیقات: پولیس سپرنٹنڈنٹ کے درجے سے نیچے کا کوئی بھی پولیس افسر نہیں کرے گا۔
(بشکریہ : جیو نیوز)