تحریر: روہنی سنگھ، نئی دہلی
یہ تو طے ہی ہوتا کہ دوستوں سے نہ صرف وہاں ملاقات ہو گی بلکہ تازہ ترین صورت حال کے بارے میں بھی مصدقہ جان کاری ملے گی۔ کچھ نہیں تو گھومنے پھرنے کے لیے کچھ ٹپس ہی مل جائیں گے، یعنی مجھ جیسے باہر سے آئے جرنلسٹ کے لیے متعدد مسائل اس کلب کے ریسٹورنٹ میں چائے، پکوڑے یا کباب سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہی حل ہو جاتے۔
تاہم سن 2019میں اس خطے کی خودمختاری کی منسوخی اور اس کے بھارتی یونین میں ضم کیے جانے کے بعد جب میرا وہاں پہلی مرتبہ جانا ہوا، تو کشمیر پہلے جیسا نہیں لگ رہا تھا۔ ہر موڑ پر پولیس یا فوج کے سپاہی تعینات تھے جبکہ پوری آبادی تناؤ کا شکار دکھائی دی۔ ٹیلی فون کام کر رہے تھے، مگر سگنل ایسے کہ انٹرنیٹ یا ڈیٹا کی ترسیل ممکن نہ تھی۔
مگر اس صورتحال میں بھی کشمیر پریس کلب گھر جیسا معلوم ہوا۔ دروازے پر قدم رکھتے ہی جیسے تناؤ ختم ہو گیا ہے۔ دراصل کچھ شناسا چہرے سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے اور چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے وادی کے کشیدہ ماحول میں میری ٹینشن کم کرنے کا ذریعہ بنے۔ مجھے بتایا گیا کہ انتہائی مشکل حالات میں کام کرنے والے صحافیوں کے لیے یہ ٹھکانہ ایک اسٹریس بسٹر کا کام کرتا ہے۔ مجھے خود محسوس ہوا کہ جیسے پریس کلب کے منتظمین نے بیرونی یاسیت کو کلب میں داخل ہونے سے روکا ہوا ہو۔
اب جب معلوم ہوا کہ سری نگر کے اس پریس کلب کو بند کر دیا گیا ہے، تو میں سوچ رہی ہوں کہ صحافت کے اس ادارے کا سوگ منا کر مرثیہ کیونکر کہوں۔ سری نگر کے دورے کے دوران دو کشمیری ساتھیوں، جو دہلی میں میرے ساتھ کام کرتے تھے، نے بتایا کہ ملاقات اور بات چیت کے لیے یہ ایک واحد ٹھکانہ تھا۔ کسی کافی شاپ میں بیٹھ کر بات کرنا اور وہ بھی موجودہ سیاسی صورت حال پر آ بیل مجھے مار کے مترادف ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ سری نگر میں واقع کافی خانوں یا ریسٹورانوں میں سفید لباس میں ملبوس جاسوس بات چیت سنتے اور نوٹ کرتے رہتے ہیں۔
تب مجھے اس بات کا بہ خوبی احساس ہوا کہ دہلی میں میرے کشمیری دوستوں کی اس بات کا کیا مطلب ہے کہ کشمیر میں صحافت کرنا دہلی یا بھارت کے کسی بھی دوسرے شہر میں صحافت کرنے سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ کشمیر میں سڑک کی مرمت کا مطالبہ کرنے والے کسی احتجاج کی رپورٹنگ پر کسی صحافی کو عتاب کا نشانہ جبکہ ایک ٹویٹ پر کسی صحافی کو مہینوں تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی ڈالا جا سکتا ہے۔
کشمیر ٹائمز کی ایگزیکٹیو ایڈیٹر انورادھا بھسین کے بقول، جموں و کشمیر میں صحافت کبھی بھی آسان نہیں تھی اور ہمیشہ حکومت کے کنٹرول میں رہی ہے لیکن سن 2019 کے بعد تو حکومت عدم برداشت کا شکار ہو گئی ہے اور تنقید کا ایک لفظ بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ جس حکومت کو آزاد صحافت کے حقوق کا تحفظ کرنا چاہیے تھا وہ آزادی صحافت کی سب سے بڑی خلاف ورزی کرنے والی بن چکی ہے۔
سری نگر میں زیادہ تر مقامی یا بین الاقوامی اداروں سے وابستہ صحافیوں کے دفاتر نہیں ہیں، یوں یہ پریس کلب انہیں ایک دفتر مہیا کرتا تھا، جہاں انٹر نیٹ کی سہولت بھی تھی اور معلومات کے تبادلے کے مواقع بھی۔ اپنی صحافتی زندگی میں مجھے یہ تجربہ تو بخوبی ہو چکا ہے کہ کسی بھی نئی یا نامعلوم جگہ پر رپورٹنگ کرنے جانا ہوتا ہے تو پہلی منزل اس علاقے کا پریس کلب ہی ہوتا ہے، جہاں کم ازکم آپ کو اپنی اسٹوری شروع کرنے کے کچھ اشارے تو مل ہی جاتے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ پاکستان کے حسن ابدال میں واقع گرودوارہ پنجہ صاحب کے دورے کے دوران بھی مقامی پریس کلب گرودوارے کے گیٹ کے بالکل سامنے تھا۔
اس وقت اگرچہ میں ذاتی دورے پر تھی لیکن پریس کلب کا بورڈ دیکھ کر اندرچلی گئی تو وہاں دو کمروں کے ایک چھوٹے سے دفتر میں میری ملاقات دو صحافیوں سے ہوئی، جن سے تبادلہ خیال کی بدولت مجھے کئی باتوں کا علم ہوا۔ لیکن ایک دوسرے ملک میں پریس کلب میں کسی سے ملنے کی خوشی بے شک ہوئی لیکن اس کا موازنہ اپنے ملک کے کسی پریس کلب میں جانے سے شاید نہیں کیا جا سکتا، وہ بھی سری نگر کے پریس کلب سے۔
بھارت کے تمام بڑے شہروں میں پریس کلب تین سے چار دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے فعال ہیں لیکن سری نگر میں پریس کلب دیر سے قائم کیا گیا تھا۔ حکومت نے اس کے لیے سن 2018 میں پولو ویو روڈ پر ایک عمارت الاٹ کی۔ کلب کے اراکین نے جولائی 2019 میں دو سال کے لیے اپنا پہلا انتخاب کیا۔
لیکن جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد کلب کی رجسٹریشن منسوخ کر دی گئی۔ کلب نے جولائی 2021 میں نئی رجسٹریشن کے لیے درخواست دی اور تقریباً چھ ماہ بعد گزشتہ سال 29 دسمبر کو اسے منظوری مل گئی۔ تاہم دو ہفتے بعد 14 جنوری کو حکومت نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ایک منفی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے اس رجسٹریشن منسوخ کر دیا۔
اس کے باوجود پریس کلب نے پندرہ فروری کو کلب کے نئے الیکشن کرانے کا اعلان کیا تو حکومت کی شہہ پر صحافیوں کے ایک گروہ نے مقامی پولیس کی سرپرستی میں کلب پر قبضہ کر کے ایک عبوری انتظامیہ کمیٹی بنانے کا اعلان کر دیا۔
اس کے ردعمل میں جب پریس کلب آف انڈیا اور متعدد صحافتی تنظیموں نے احتجاج کیا، تو اگلے ہی دن صحافیوں کے درمیان لڑائی جھگڑے کے خدشات کا بہانہ بنا کر حکومت نے اس بلڈنگ کو ضبط کر کے اس کلب کو تحلیل کرنے کا اعلان کر دیا۔
ویسے تو پچھلے کئی برسوں سے نہ صرف کشمیر بلکہ ملک کے دیگر علاقوں میں بھی پریس اور شہری حقوق کے ادارے مسلسل نگرانی میں ہیں تاہم کشمری صحافیوں پر تو کچھ زیادہ ہی مہربانی کی جا رہی ہے۔ان کے گھروں پر چھاپے، پولیس کی طرف سے طلبی اور پوچھ گچھ کے علاوہ ان صحافیوں کے فون اور لیپ ٹاپس کو ضبط کرنا تو ان دنوں معمول بن گیا ہے۔
میڈیا واچ ڈاگ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق 2019 سے اب تک کشمیر میں تقریباً 12 صحافیوں کو حکومت کی جانب سے عارضی حراست اور پوچھ گچھ کا سامنا کرنا پڑا ہے، پولیس نے 6 صحافیوں کے گھر پر چھاپہ مارا ہے اور ایف آئی آر درج کی گئی۔ کشمیر ہی نہیں بلکہ ملک کے متعدد شہروں میں بھی صحافیوں کو حکومت کی طرف سے دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
صحافیوں پر غداری اور مخالفت کے الزامات لگائے جا رہے ہیں، انہیں مہینوں تک بغیر مقدمہ چلائے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا جا رہا ہے۔ نئی دہلی میں صحافیوں کو اب سرکاری دفتروں تک محدود رسائی حاصل ہے، پارلیمنٹ ہاؤس تک ان کی رسائی کو سخت کنٹرول میں رکھا گیا ہے۔ یہاں تک کہ مرکزی حکومت کے تسلیم شدہ صحافیوں کی بھی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔اس صورتحال میں اگر کشمیر کے ماڈل کو ملک کے دیگر علاقوں میں بھی لاگو کرنے کی کوشش کی جائے تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہو گی۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)