تحریر: ابومریم
بی جے پی کی طرف سے کیرالہ میں مقرر گورنر عارف محمد خاں کے ذریعہ ایک ٹی وی چینل پر اسلام میں عورتوں کے پردے کے سلسلے میں دیا گیا بیان انتہائی گمراہ کن ہے ۔ انھوں نے ان کے حوالے سے کافی غلط بات لکھی ہے جو عام طور سے فاحشہ خواتین خود کے بارے میں کہتی ہیں ۔ انھوں نے اس سلسلے میں طبری کا جھوٹا حوالہ بھی دیا ہے ، جب کہ یہ واقعہ طبری میں کہیں بھی نہیں ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ آخر یہ واقعہ انھوں نے کہا ں دیکھا اور کس جگہ سے لیا ہے ، اس لیے اس کی تحقیق ضروری ہے ۔ لیکن اس سے پہلے یہ ضروری ہے کہ عائشہ بنت طلحہ کا تعارف پیش کیا جائے ۔
آپ عہد تابعین کی بڑی شریف النسب، زندہ دل ، پارسا اور صاحب جمال خاتون تھیں ، ان کا پہلا شرف یہ تھا کہ وہ حضرت طلحہ بن عبیداللہ کی صاحبزادی تھیں جن کا عشرہ مبشرہ میں شمار ہے ، دوسرا شرف یہ ہے کہ ان کی والدہ محترمہ ام کلثوم حضرت ابو بکر صدیق کی بیٹی تھی جن کے وسیلے سے وہ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کی نواسی تھیں ، تیسرا فخر ان کا یہ ہے کہ وہ حضرات حسنین علیہما السلام کی سالی تھیں ۔اس کے علاوہ وہ عبداللہ بن زبیر کے بھائی حضرت معصب بن زبیر کی بیوی تھی جو کسی زمانے میں کوفہ کے گورنر تھے ۔
دنیا کے سارے عیش پسند انسان اسلام کے پردہ کے نظام کے خلاف ہیں ، ان کے سامنے قرآن کے احکام اور حدیث اہم نہیں ہیں جن میں صاف طریقے سے عورتوں کو پردہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ، یہ الگ بات ہے کہ علمائے کرام کے درمیان پردہ کی حد کو لے کراختلاف ہے ، لیکن پوری امت اس پر متفق ہے کہ چہرہ کے علاوہ عورت کا پورا جسم پردہ میں شامل ہے ۔
لیکن بی جے پی کے گورنر جو خود کو مسلمان سمجھتےہیں اور قرآن بھی پڑھتے ہیں ، مگر ان کو عائشہ بنت طلحہ کے بارے میں جھوٹا واقعہ نظر آیا ، مگر قرآن و سنت میں کچھ نظر نہیں آتا ،بے شرمی کی بات تو یہ ہے کہ آنجناب نے مشہور مورخ تاریخ طبری کا جھوٹا حوالہ دے کر خلیفہ اول کی نواسی اور ایک پارسا خاتون کے سلسلے میں ایسی بات کہہ دی جو آج کل راکھی ساونت بھی خود کے بارے میں نہیں کہہ سکتی۔
کیا ہے یہ فرضی واقعہ اور کیا سچائی ہے ؟
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ممتاز صحابی کے بیٹے نے اپنی اہلیہ عائشہ بنت طلحہ رضی اللہ عنہ سے اپنے چہرے پر پردہ ڈالنے کے لیے کہا تو انہوں نے جواب دیا: ’’چونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر حسن کی مہر لگائی ہے، اس لیے میری خواہش ہے کہ لوگ حسن کو دیکھیں اور اس طرح لوگ اللہ کے فضل کو مجھ میں سمجھیں، اس لیے میں خود پر پردہ نہیں رکھوں گی۔‘‘
پہلا اور سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ اگر یہ بیان صحیح بھی ثابت ہو جائے تو اسے اسلامی قانون میں پردے کی حیثیت پر بطور ثبوت استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اسلامی قانون بنیادی طور پر صرف قرآن و سنت پر منحصر ہے۔
یہ فرضی واقعہ کس کتاب میں ہے ؟
مسئلہ کی طرف واپس آتے ہیں، روایت کا اصل ماخذ ابو الفراج الاسبہانی (متوفی 356 ہجری) کی کتاب الاغانی (گیتوں کی کتاب) ہے۔
وہ روایت کو یوں بیان کرتا ہے:
أخبرني الحسن بن يحيى قال قال حماد قال أبي قال مصعب : كانت عائشة بنت طلحة لا تستر وجهها من أحد. فعاتبها مصعب في ذلك فقالت : إن الله تبارك وتعالى وسمني بميسم جمال أحببت أن يراه الناس ويعرفوا فضلي عليهم، فما كنت لأستره
الحسن بن یحییٰ – حماد – ان کے والد – مصعب سے نقل کرتے ہیں کہ عائشہ بنت طلحہ نے اپنے چہرے پر کسی سے پردہ نہیں کیا۔ اس پر مصعب نے اس کی سرزنش کی۔ تو اس نے کہا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے حسن سے نوازا ہے۔ مجھے یہ پسند ہے کہ لوگ اسے دیکھیں اور انہیں معلوم ہو کہ اللہ نے ان پر کس طرح احسان کیا ہے۔ تو میں اسے کیوں ڈھانپوں؟‘‘(کتاب الآغانی نمبر 186، دار صدر، بیروت 2008)
ابو الفراج الاصبہانی اور ان کی تصنیف کتاب الاغانی:
ابو الفراج الاصبہانی (اصفہانی) کو بعض علماء نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور بعض نے اسے قابل قبول قرار دیا ہے۔جہاں تک ان کی کتاب کا تعلق ہے تو اس میں عجیب قسم کی روایات ہیں جنہیں دلچسپ معلومات یا پرلطف حقائق کے طور پر لیا جا سکتا ہے لیکن کسی بھی چیز کی شرعی حیثیت معلوم کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ظاہر سی بات ہے کہ شریعت کے معاملات میں کبھی گانوں کی کتاب استعمال کرنے کا خیال نہیں کیا جاسکتا۔
راویوں کا سلسلہ:
اصبہانی کے بعد پہلا راوی حسن بن یحییٰ ہے اور آخری راوی مصعب بن زبیر ہیں جو سیدہ عائشہ بنت طلحہ کے شوہر تھے۔
مذکورہ دونوں کے درمیان راوی حماد بن اسحاق بن ابراہیم الموصلی اور ان کے والد اسحاق بن ابراہیم الموصلی ہیں۔بیٹا اور باپ دونوں گلوکار اور موسیقار تھے، نہ کہ حدیث کے متعلم اور راوی۔
ان دونوں راویوں کی امام ابوحنیفہ کے بارے میں ایک روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے، پچھلی صدی کے ممتاز مصری عالم شیخ زاہد بن الحسن الکوثری کا تبصرہ:
حماد بن إسحاق الموصليٍٍ … وهو وأبوه من المغنيين المشاهير من رجال الأغاني، فيكون هو وأبوه من رجال الأسمار، لا ممن يحتج بهم تراجم الأئمة الكبار
’’حماد بن اسحاق الموصلی … وہ اور ان کے والد الاغانی کے راویوں میں سے ہیں جو مشہور گلوکار ہیں۔ وہ اور ان کے والد ان لوگوں میں سے تھے جو رات کو تفریح کے لیے کہانیاں سناتے تھے- ان لوگوں میں سے نہیں جنہیں عظیم ائمہ کی سوانح عمری میں ثبوت کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔‘‘
(Ta’nib al-Khatib ‘ala Ma Saqahu fi Tarjimati Abi Hanifah Min al-Akadhib, Dar al-Bsha’ir al-Islamiyyah, Beirut, 1990 p.343)
اگر علماء کی سیرت کی روایات میں بھی ان کو ثبوت کے طور پر نہیں لیا جا سکتا تو ان کو حلال و حرام، واجب اور دوسری صورتوں میں کیسے ثبوت کے طور پر لیا جا سکتا ہے؟
اسحاق بن ابراہیم الموصلی کے بارے میں امام خطابی نے فرمایا:
والآخر معروف بالسخف والخلاعة وهو إسحاق بن إبراهيم الموصلي’’دوسرا لغو اور فحاشی کے لیے جانا جاتا ہے اور وہ اسحاق بن ابراہیم الموصلی ہے۔‘‘(شرح النبوی، شرح الاحیا التراث العربی، بیروت 1392 ہجری والیم 11 ص91)
کوئی بھی سمجھدار آدمی جانتا ہو گا کہ بے ہودہ اور فحاشی کے لیے جانے جانے والے کو صرف رد اور مذمت ہی کی جا سکتی ہے اور اسے کبھی بھی ثبوت کے طور پر نہیں لیا جا سکتا۔لیکن اس کے باوجود یہ اس واقعہ کو ہندستانی میڈیا میں پیش کرنے والا شخص کس معیار کا ہوگا، ا س کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ،اور کس طرح ایک گورنری کے لیے شیطانی کررہا ہے ، یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)