تحریر:نیاز فاروقی
1980 کی دہائی میں انڈیا کی معیشت تباہ کن حال میں تھی۔ سیاسی سطح پر ملک کی نام نہاد ’نچلی ذاتیں‘ اپنے حقوق مانگ رہی تھیں اور ساتھ ہی ہندوتوا کی فرقہ وارانہ سیاست انتخابی شکل اختیار کر رہی تھی۔ 1990 کی دہائی تک ملک کا ایک بڑا حصہ سڑکوں پر تھا اور وہ ایودھیا میں قائم بابری مسجد کی جگہ مندر بنانے کا مطالبہ کر رہا تھا۔
اس جنونی ہجوم کی قیادت بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی بنیادی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک (آر ایس ایس) کے رہنما کر رہے تھے۔ ستمبر 1990 میں بی جے پی کے سینئیر رہنما لال کرشن اڈوانی نے گجرات کے سوم ناتھ مندر سے ایک رتھ یاترا کی شروعات کی جس کا مقصد بابری مسجد کی جگہ رام مندر کو تعمیر کرنا تھا۔
رتھ یاترا کے چند ہی مہینوں کے اندر بابری مسجد کو منہدم کر دیا گیا۔ ناقدین اور مداح دونوں اس رتھ یاترا کو انڈیا کی برسراقتدار جماعت بی جے پی کی تاریخ میں ایک اہم موڑ سمجھتے ہیں۔
ہندوتوا پر کئی کتابوں کے مصنف دھیریندر جھا کہتے ہیں کہ ’میرے حساب سے اگر رتھ یاترا نہ ہوتی تو بابری مسجد منہدم نہ ہوتی۔ یہ ایک اہم موڑ تھا۔ یہ ایک قسم کی لہر پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئی جو بالآخر بابری مسجد کے انہدام پر ختم ہوئی اور بی جے پی کو ایک نئی شکل دی۔‘
بی جے پی کے علاوہ آر ایس ایس سے وابستہ کئی تنظیموں نے رتھ یاترا اور مسجد کے انہدام میں اپنا کردار ادا کیا۔ جھا کہتے ہیں کہ ’آپ اس وقت فرقہ وارانہ فسادات کا ایک سلسلہ دیکھ سکتے ہیں۔ یہ جہاں سے بھی گزرا وہاں قتل و غارت اور آتش زنی کے نشانات چھوڑتا گیا۔‘ اسکالر کے این پنیکر کے مطابق یکم ستمبر سے 20 نومبر 1990 کے درمیان ملک میں 116 فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جن میں 564 لوگ مارے گئے۔
اس کا اثر انتخابات پر نظر آیا اور جس پارٹی کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا وہ تھی بی جے پی۔ بابری مسجد کے انہدام کے چند ہی برسوں کے اندر پارٹی مرکزی حکومت کی قیادت کرنے لگی اور ابھی بھی یہ معاشرے کی تمام سطحوں پر مسلسل ترقی کر رہی ہے۔
فی الحال پارلیمنٹ میں 543 میں سے اس کے 301 ممبران ہیں، 28 ریاستوں میں سے 17 میں اس کی قیادت ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ پارٹی تقریباً 18 کروڑ ممبران پر مشتمل ہے۔ اب یہ خود کو دنیا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بتاتی ہے۔ جھا کہتے ہیں کہ ’وہ صرف ترقی ہی نہیں کر رہی بلکہ وہ مزید فرقہ پرست ہوتی جا رہی ہے۔ درحقیقت وہ کھلے عام فرقہ پرست ہونے لگی ہے۔‘
’مسلمان اور پاکستان کی خوشامد‘ کی مخالفت
اگرچہ بی جے پی کی موجودہ شکل 1980 میں سامنے آئی لیکن اس کی جڑیں بھارتیہ جن سنگھ (بی جے ایس) میں ہیں، جو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر آر ایس) سے وابستہ تھی۔ بی جے ایس کی شروعات شیام پرساد مکھرجی نے سنہ 1951 میں کانگریس کا مقابلہ کرنے کے لیے کی تھی۔ اس کے ابتدائی نکات میں ہندو شناخت کا تحفظ اور مسلمانوں اور پاکستان کی ’کانگریس کی خوشامد‘ کی مخالفت تھی۔
اس کے اہم مطالبوں میں جموں و کشمیر کو مکمل طور پر انڈیا میں ضم کرنے کے لیے آرٹیکل 370 کا خاتمہ، گائے کے ذبیحہ پر پابندی اور یونیفارم سول کوڈ یعنی ہر مذہب کے لیے خصوصی قانون کے بجائے ایک ہی قانون بھی تھا۔
اس نے سنہ 1952 میں ہونے والے ملک کے پہلے عام انتخابات میں صرف تین نشستیں حاصل کیں۔ برسوں تک پارلیمنٹ میں اس کی موجودگی معمولی رہی۔ سنہ 1975 میں جب اندرا گاندھی نے ایمرجنسی کا اعلان کیا تب بی جے ایس نے ایمرجنسی کے خلاف ملک گیر احتجاج میں حصہ لیا اور دوسری جماعتوں کے ساتھ ضم ہو کر ’جنتا پارٹی‘ بنائی۔
جنتا پارٹی نے سنہ 1977 میں پارلیمانی انتخابات لڑے اور اس میں بی جے ایس کے سابق ارکان نے تقریباً 30 فیصد سیٹیں جیتیں۔ جنتا پارٹی نے حکومت بنائی، جس میں بی جے ایس کے سابق رہنما اٹل بہاری واجپائی وزیر بنے لیکن یہ نظام زیادہ دن نہ چل سکا۔
بی جے ایس کے سابق رہنماؤں نے عوام میں سیاست کے بارے میں اعتدال پسند عالمی نقطہ نظر اختیار کرنے کی کوشش کی لیکن سکالر کرسٹوف جیفریلو کے مطابق یہ ایک ’ناممکن انضمام‘ ثابت ہوا۔
جنتا پارٹی میں عدم اطمینان کی وجوہات میں بی جے ایس کا آر ایس ایس سے تعلق تھا۔ جنتا پارٹی کے کچھ لیڈروں نے مطالبہ کیا کہ بی جے ایس کو آر ایس ایس سے الگ ہو جانا چاہیے۔ بی جے ایس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور بالآخر جنتا پارٹی ٹوٹ گئی اور حکومت گر گئی۔
نئی پارٹی کا نام بھارتیہ جنتا پارٹی رکھا گیا اور اس نے وسیع پیمانے پر قبولیت حاصل کرنے کے لیے اعتدال پسند نظریات کا مؤقف اپنایا لیکن اس اعتدال پسند نقطہ نظر سے سیاسی طور پر انھیں کچھ منافع نہ ہوا۔ سنہ 1984 کے انتخابات میں اس نے محض دو نشستیں حاصل کیں (جبکہ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد کانگریس کو مکمل اکثریت ملی تھی)۔ پارٹی نے فیصلہ کیا کہ یہ اب سخت گیر ہندوتوا کا مؤقف اپنائے گی۔ پارٹی کے نام نہاد اعتدال پسند چہرے اٹل بہاری واجپائی کی جگہ ہندوتوا کے مضبوط حامی سمجھے جانے والے اڈوانی کو اس کا صدر بنا دیا گیا اور نتیجہ جلد ہی نظر آنے لگا۔ سنہ 1989 میں پارٹی نے 85 سیٹیں جیتیں، 1991 میں 120 سیٹیں حاصل کیں اور 1996 میں یہ 161 نشستوں کے ساتھ حکومت میں شامل ہو گئی تاہم یہ حکومت 13 دن میں ہی گر گئی لیکن پارٹی چند ہی مہینوں میں واپس آئی۔ پارٹی اب 182 سیٹوں کے ساتھ مرکزی دھارے کا حصہ تھی۔
بی جے پی کے لیے سب سے اہم موڑ
رتھ یاترا ستمبر 1990 میں اس وقت شروع ہوئی تھی جب اڈوانی نے گجرات کے سومناتھ سے ٹویوٹا ٹرک پر سوار رتھ نکالا۔ وہ جہاں بھی گئے ایک ہجوم ان کے ساتھ تھا۔ انھوں نے اشتعال انگیز تقاریر کیں اور ٹیلیگراف اخبار کے مطابق ہر علاقے میں ’رتھ یاترا ہندو عسکریت پسندی اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کی فضا پیدا کر رہی تھی۔‘
دھیریندر جھا رتھ یاترا کو بی جے پی کے لیے سب سے اہم موڑ سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ابتدا میں یاترا سے پولرائزیشن اس طرح نہیں ہوا جیسا کہ اس کے ناظم چاہتے تھے ’لیکن سیاسی تحریک کے لیے جب انھوں نے سادھوؤں کو شامل کیا تو یہ حقیقت میں کام کر گیا۔‘ جھا کا کہنا ہے کہ یہ یاترا صرف بی جے پی کے لیے اہم نہیں تھی بلکہ پورے سنگھ پریوار کے لیے اہم تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جب یہ سبھی جماعتیں اکٹھی ہوتی ہیں اور ایک سیاسی ایجنڈے کا حصہ بنتی ہیں، تب ہی وہ بڑا اثر پیدا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ یہ پہلا موقع تھا جب پورا سنگھ پریوار اکٹھا کھڑا تھا۔‘
اڈوانی نے بھی پارٹی کے عروج کا سہرا رتھ یاترا کو دیا۔ انھوں نے سنہ 2008 میں صحافی شیلا ریڈی کو بتایا کہ رتھ یاترا سے حالات کچھ حد تک بدل گئے اور اسے اپنے ’سیاسی سفر کا سب سے فیصلہ کن واقعہ‘ قرار دیا تاہم انھوں نے اپنی یاترا کے بعد ہونے والے تشدد کے لیے انگریزی میڈیا کو مورد الزام ٹھہرایا۔
بالآخر انھیں ایودھیا پہنچنے سے سات دن پہلے بہار کے وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو نے حراست میں لے لیا۔ بی جے پی جنتا پارٹی کی مرکزی حکومت کی حمایت کر رہی تھی جس کے لالو ممبر تھے لیکن مرکزی حکومت گر گئی۔ دوسری وجوہات سے بھی یہ انڈیا کے لیے ایک نتیجہ خیز وقت تھا۔ راجیو گاندھی کو سنہ 1991 میں قتل کر دیا گیا تھا۔ کانگریس ان کے قتل کے بعد مرکزی حکومت میں واپس آ گئی لیکن بابری مسجد کے انہدام یا بی جے پی کے عروج کو نہ روک سکی۔
بی جے پی کی پہلی حکومت
اگرچہ بی جے پی ایک جونیئر پارٹنر کے طور پر پہلے بھی حکومتوں کا حصہ رہی تھی لیکن اس نے سنہ 1996 میں سب سے زیادہ سیٹوں کے ساتھ پہلی بار اپنی حکومت بنائی لیکن یہ محض 13 دن تک ہی چلی۔ یہ 1998 میں دوبارہ واپس آئی اور پھر واجپائی نے مرکزی حکومت کے سربراہ کے طور پر مسلسل چھ سال تک حکومت کی۔
واجپئی بی جے پی کے اعتدال پسند چہرے کے طور پر دیکھے جاتے تھے۔ انھیں اکثر ’غلط پارٹی میں صحیح شخص‘ کہا جاتا تھا لیکن جیتنے کی توقع کے باوجود وہ کانگریس سے سنہ 2004 کے انتخابات ہار گئے۔ اس کے بعد پارٹی 10 سال تک اقتدار سے باہر رہی۔ پھر نریندر مودی آئے اور سکالروں کے مطابق انھوں نے بی جے پی اور انڈین سیاست کی شکل ہمیشہ کے لیے تبدیل کر دی۔
مودی کی آمد
مودی پر سنہ 2002 میں مسلمانوں کے خلاف گجرات فسادات کا الزام تھا۔ واجپائی نے انھیں ان کے عہدے سے دستبردار تو نہیں کیا لیکن نصیحت کی کہ وہ ’راج دھرم‘ کی پیروی کریں۔
مودی نے جلد ہی ایک ترقی پسند سیاستدان کے طور پر اپنی مارکیٹنگ شروع کر دی۔ سنہ 2009 سے شروع ہونے والی مرکزی حکومت کی اپنی دوسری میعاد میں کانگریس ایک بکھری ہوئی پارٹی کی مانند ہو چکی تھی۔ اسے ایک بدعنوان اور کمزور پارٹی کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔
مودی نے خود کو کانگریس کے بالکل برعکس پیش کیا۔ گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر وہ ایک ایسی ریاست کی قیادت کر رہے تھے جہاں دیگر ریاستوں کے مقابلے میں صنعت بہتر تھی اور وہ ملک کی امیر ریاستوں میں شامل تھی۔ انھوں نے ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘، بدعنوانی سے پاک اور مضبوط قیادت کا وعدہ کیا جو کہ وسیع پیمانے پر لوگوں کو متاثر کن محسوس ہوا۔
فسادات میں مودی کا مبینہ کردار اب تک غیر اہم ہو چکا تھا۔ وہ سنہ 2014 میں بھاری اکثریت سے جیت گئے اور سکالرز کے مطابق یہ ایک نئی بی جے پی کی شروعات تھی۔
اگرچہ پارٹی کے لیے ہندوتوا ہمیشہ سے اہم رہا لیکن مودی کی قیادت میں اس نے پہلی بار وسیع طور پر سماج کے مختلف طبقوں تک رسائی کی کامیاب کوشش کی۔
سنہ 2014 میں مودی کے وزیر اعظم بننے تک بی جے پی چند بار اقتدار میں آ چکی تھی لیکن اس کے باوجود بھی اس کی سیاسی سپورٹ چند ذاتوں پر مشتمل تھی۔ مودی نے کافی ہوشیاری سے ذاتوں اور برادریوں کے ایک وسیع طبقے کو اپنا اور پارٹی کا حامی بنایا اور اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو روایتی طور پر کانگریس یا دوسری پارٹیوں کو ووٹ دیتے تھے۔
بی جے پی کے سابق کارکن اور مصنف شیوم سنگھ کا کہنا ہے کہ ’ہندوتوا ووٹر پارٹی کا بنیادی ووٹ بیس ہے لیکن یہ اتنا بڑا نہیں کہ وہ الیکشن جیت سکیں۔‘
وہ اتر پردیش میں حالیہ ریاستی انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے وہاں بی جے پی کو اس کے ہندوتوا کے نظریے کی وجہ سے ووٹ دیا لیکن ایک بڑا حصہ ایسا بھی تھا جس نے مفت راشن اور امن و امان کے لیے ووٹ دیا۔ وہ کہتے ہیں ’بی جے پی ان مختلف بیانیوں کو ایک ساتھ لائی اور اکثریت تک پہنچنے کے لیے مختلف طبقات کو راضی کیا۔‘
سنہ 2009 کے مقابلے میں پارٹی کے لیے ان ذاتوں کے ووٹوں میں اضافہ ہوا جو کانگریس یا علاقائی جماعتوں کو ملتے تھے۔
سنہ 2009 کے انتخابات میں پارٹی نے 166 نسشتیں جیتی تھیں جو کہ سنہ 2004 کے انتخابات سے بھی کم تھیں۔ حالانکہ اس کے نئے ووٹروں کی وجہ سے سنہ 2014 میں یہ تعداد بڑھی اور بی جے پی نے 282 سیٹیں جیتیں (جس میں سنہ 2019 میں مزید 31 سیٹوں کا اضافہ ہوا)۔
ریپبلک آف ہندوتوا کے مصنف پروفیسر بدری نارائن کہتے ہیں کہ موجودہ بی جے پی کی دیگر جماعتوں کے برعکس بہتر کارکردگی کی چار اہم وجوہات ہیں:
سب سے پہلی یہ کہ بی جے پی کا بیانیہ لوگوں کو قریب لاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’بی جے پی ایک ایسی پارٹی ہے جس سے عام لوگ جڑتے ہیں۔ وہ اپنے ووٹرز کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’چونکہ آپ فعال ہیں تو آپ کی تنظیم مضبوط ہے۔ پھر آپ لوگوں کا ردعمل بھی سن سکتے ہیں۔ اگر آپ کی تنظیم کی گراس روٹ پر موجودگی نہیں تو آپ لوگوں کے تاثرات حاصل نہیں کر سکتے۔‘
بی جے کی بہتر کارکردگی کی دوسری وجہ ہے ترقی اور ہندوتوا کے وقار کو ایک ساتھ پیش کرنا۔ بدری ناتھ کہتے ہیں کہ ’ہندوتوا تمام ذاتوں اور برادریوں میں مقبول ہے اور جب اسے ترقی سے جوڑ دیا جاتا ہے تو سونے پر سہاگا ہو جاتا ہے۔ اگر ترقی کی بات نہ ہو تو کچھ دن بعد یہ کمزور ہو جائے گا لیکن ترقی کے مؤقف کے ساتھ یہ کام کر جائے گا۔‘تیسری وجہ ہے مودی کی شبیہ جو آٹھ سال تک مرکزی حکومت میں ہونے کے باوجود بھی کافی مضبوط ہے اور ہر اپوزیشن لیڈر سے بہتر ہے۔ چوتھی وجہ غریبوں میں نقد رقم کی منتقلی، کھانا پکانے کے لیے مفت گیس، بیت الخلا کی تعمیر وغیرہ جیسے اقدامات کی شکل میں پسماندہ برادریوں کے لیے فلاحی سکیمیں ہیں۔
مودی اور بی جے پی کا کمیونی کیشن ماڈل
ایک اور عنصر جس پر موجودہ بی جے پی واضح طور پر دوسری پارٹیوں سے کافی بہتر ہے وہ پارٹی کا کمیونیکیشن ماڈل ہے۔ شیوم کا کہنا ہے کہ کانگریس کا کمیونیکیشن ماڈل اتنا ناقص ہے کہ وہ ان سکیموں کو بھی عوام میں فروخت نہیں کر پائی جو خود انھوں نے شروع کی تھیں۔ لیکن جب کمیونیکیشن ماڈل کی بات آتی ہے تو بی جے پی کی دوسری پارٹیوں پر سبقت کی ایک اہم وجہ آر ایس ایس جیسی بنیادی سطح پر کام کرنے والی تنظیم کی حمایت ہے جو بی جے پی کے پیغام کو عوام تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
بدری نارائن کہتے ہیں کہ ’آر ایس ایس مختلف سماجی منصوبوں پر کام کرتی ہے۔ اس کا گراس روٹ سے بہت گہرا تعلق بھی ہے۔ وہ پسماندہ، کمزور، قبائلیوں کے درمیان کام کرتے ہیں۔ وہ طویل عرصے سے خاموشی سے کام کر رہے ہیں۔ وہ رائے دیتے ہیں کہ کہاں کیا ہونا چاہیے، کہاں کیا نہیں ہو رہا، جس سے بی جے پی کو بھی مدد ملتی ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ اس کے برعکس اپوزیشن جماعتیں غلط جگہ حملہ کر رہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہاتھی آگے بڑھ گیا ہے اور آپ اس کے سائے پر حملہ کر رہے ہیں۔ آر ایس ایس ایک نئی طاقت بن گئی ہے اور آپ یہ سمجھ نہیں پا رہے۔‘
تاہم اپوزیشن پر الزام ہے کہ وہ اپنے مؤقف اور پیغام میں بہتری لانے میں ناکام رہی ہے، حالانکہ بی جے پی کی کامیابی کا راز ہے کہ وہ مسلسل اپنا پیغام بدلتی رہتی اور اس میں بہتری لاتی رہتی ہے۔
شیوم کہتے ہیں کہ ’یہ وہ بی جے پی نہیں جو سنہ 2014 میں تھی۔ بنیادی طور پر بی جے پی ایک ہی مسئلے پر دو الیکشن لڑنے پر یقین نہیں رکھتی۔ وہ عدم اطمینان پر اقتدار میں آئے تھے اور اب مودی کی مضبوط امیج فروخت کر رہے ہیں۔‘ لیکن مودی کا مضبوط امیج ایک طرح سے پارٹی پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف چند ہاتھوں میں ہی پارٹی کی قیادت اسے کمزور کر سکتی ہے۔
وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امِت شاہ کے پارٹی پر مضبوط کنٹرول کا حوالہ دیتے ہوئے شیوم کہتے ہیں کہ ’یہ پہلی بار ہوا ہے کہ جب صرف ایک یا دو لوگ انچارج ہیں جنھوں نے پارٹی کی تمام فنڈنگ، پارٹی کے تمام فیصلوں کو سینٹرلائز کر دیا، کوئی بھی نہیں بچا جو پارٹی کے اندر ان کے جتنی حیثیت رکھتا ہو۔‘
ماضی میں آر ایس ایس ہمیشہ پارٹی کی رہنمائی کرتی رہی ہے اور اس کے لیڈر پارٹی کی براہ راست یا بالواسطہ طور پر مدد کرتے رہے ہیں لیکن کیا چند لوگوں کا اقتدار کا مرکز ہونے کا مطلب یہ ہے کہ پارٹی اب آر ایس ایس پر برتری حاصل کر چکی ہے؟
شیوم کا کہنا ہے کہ ’اگر آر ایس ایس لیڈر سے کہا جائے کہ وہ آر ایس ایس اور مودی میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں، تو ان میں سے زیادہ تر مودی کی حمایت کریں گے۔ ان کا برانڈ اتنا ہی مضبوط ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ آر ایس ایس (نظریاتی طور پر بی جے پی سے) جو کچھ بھی چاہتی تھی، اسے مل گیا۔ صرف فرق یہ ہے کہ ان (آر ایس ایس) کے پاس اب بی جے پی سے باہر کوئی خصوصی لیڈر نہیں۔ جھا کہتے ہیں کہ ’بی جے پی اب پارٹی نہیں رہی۔ بی جے پی ایک سِنڈیکیٹ ہے، جسے چند لوگ کنٹرول کرتے ہیں۔ آر ایس ایس اس سِنڈیکیٹ کا فوٹ سولجر (سپاہی) ہے۔‘
بی جے پی جسے کبھی آر ایس ایس کے ایک یونٹ کے طور پر دیکھا جاتا تھا، اب آر ایس ایس سے زیادہ طاقتور نظر آ رہی ہے اور پارٹی کے عروج کی نشاندہی کرتی ہے۔
اگرچہ بی جے پی قیادت کو آزادی، سیکولرازم اور آئینی اخلاقیات پر حملے کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے پھر بھی دھیرندر جھا پرامید ہیں کہ حالات آخر کار بدلیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میرا ذاتی طور پر ماننا ہے کہ انڈیا ایک بڑا ملک ہے اور اکثریت اور جمہوریت اس کے دل میں ہے۔ آپ ان اقدار کو تباہ نہیں کر سکتے اور اگر آپ ایسا کرنے کی کوشش کریں گے تو آپ ملک کو تباہ کر دیں گے۔‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں ایسا نہیں ہو سکتا۔ انڈیا آخر کار فتح یاب ہو گا۔ بلاشبہ یہ ایک تاریک سرنگ ہے اور بہت ہی خوفناک سرنگ ہے جس سے پورا ملک گزر رہا ہے لیکن سرنگ کے آخر میں مجھے یقین ہے کہ روشنی ہو گی۔‘
(بشکریہ: بی بی سی اردو)