نئ دہلی (آر کے نیوز)
مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نومنتخب جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے دعویٰ کیا کہ تمام مسلمان بورڈ کے پیچھے کھڑے ہیں اور اسے مسلم عوام کی تائید و حمایت حاصل ہے، انہوں نے یہ ماننے سے انکار کردیا کہ بورڈ کو بابری مسجد اور تین طلاق کیس میں ہار ہوئ ان کا کہنا ہے کو بورڈ نے اپنا موقف مضبوطی اور استدلال کے ساتھ رکھا مگر حکومت کی نیت ہی خراب تھی۔
مولانا رحمانی نے نوجوان سماجی کارکن و فری لانسر شاہنوازبدر قاسمی کے ساتھ گفتگو کے دوران یہ بات کہی۔
اس سوال پر کہ مودی سرکار آنے کے بعد بورڈ کو کئ معاملوں میں شکست کا منھ دیکھنا پڑا انہوں نے پرزور انداز میں تردید کرتے ہوۓ کہا کہ بابری مسجد مسئلہ ہو یا تین طلاق گرچہ فیصلہ ہمارے حق میں نہیں آیا لیکن بورڈ نے پوری طاقت سے مقدمہ لڑا۔بابری مسجد پر بھلے ہی فیصلہ مسلمانوں کے خلاف آیا لیکن سپریم کورٹ نے مانا کہ وہاں مسجد توڑی گئ،مندر توڑ کر مسجد بنانے کا کوئ ثبوت نہیں ملا،اسی لیے تو دوسری جگہ مسجد بنانے کے لیے جگہ دی گئ،مولانا نے تین طلاق پر عدالتی ہار کی بات کو تسلیم نہ کرتے ہوے کہا کہ بورڈ کے موقف کو ملت کی تائید حاصل رہی دراصل سرکار کی نیت ہی خراب تھی،اس نے سیاسی مقاصد کے لیے اس کے خلاف قانون بنایا،اس سے حکومت کے مزاج کا پتہ چلتا ہے ،یہ بات قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے بورڈ کے دلائل کو مسترد کرتے ہوۓ تین طلاق کے خلاف فیصلہ دیا اور مودی سرکار اس کے بعد ہی پارلیمنٹ میں بل لائی اور منظور کرایا۔
ہندوستانی مسلمانوں کے مستقبل اور جماعتوں میں اختلاف پر ان کا کہناتھا بورڈ 1973میں قیام آغاز سے ایک ہی طریقہ کار پر گامزن ہے ہم اسے مزید فعال بناییں گے ،ہمارا مستقبل محفوظ و روشن ہے ،بس ثابت قدم رہنے کی ضرورت ہے۔
بورڈ کی ریاستی شاخوں کے قیام پر جنرل سکریٹری نے کہا یہ ممکن نہیں۔یہ بورڈ کی بنیادی پالیسی کے خلاف ہے ،اس سے بورڈ میں شامل جماعتوں میں ٹکراؤ کا اندیشہ ہے۔بورڈ مختلف مسالک کا پلیٹ فارم ہےیہ بڑا فیض ہے۔عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے، حکومت کیا پالیسی و قانون بناتی ہے یہ ہمارے اختیار میں نہیں لیکن شریعت پر عمل تو ہمارے اختیار میں ہے ہم اپنی زندگی میں اس پر عمل کریں۔
مولانا نے یقین دلایا کہ دہلی میں بورڈ کا دفتر اور فعال و متحرک ہوگا آپ جلد ہی کچھ نمایاں تبدیلیاں دیکھیں گے ،انہوں نے غیر مسلم لڑکوں سے مسلم لڑکیوں کی شادیوں پرسخت تشویش ظاہر کی انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلے صحیح یا غلط ہونے کا معیار نہیں یہ حقیقت نظر میں رکھیں چاہیے.