تحریر:ڈاکٹر حسن رضا
اس وقت سیمانچل کے چار ایم ایل اے جو اے آئی ایم آئی ایم (AIMIM) کے ٹکٹ پر ابھی حالیہ بہار اسمبلی انتخاب میں کامیاب ہوئے تھے ان کے راجد میں چلےجانے کی خبر، پر نقد و تبصرہ احتساب وجایزے کا بازار گرم ہے ۔اور ہونا چاہئے اس سے اس حلقے کی عوام میں ان شاءاللہ سیاسی بیداری آیے گی ۔
گرچہ مہاراشٹر کے شور شرابے اٹھا پٹک اور ہنگامے میں یہ دب جاتا لیکن مسلم ملت اور اقلیت کی سیاست سے تعلق کی وجہ سے ابھی محترم اختر الایمان صاحب ہایے دل ہایے چمن ہایے سیما نچل کرتے رہیں گے ۔ اصل میں آزادی کے بعد مسلم پارٹی کے نام پر اچانک 5 ایم ایل اے وہاں ان کی قیادت میں جیت گئے تھے چنانچہ بڑے جوش وخروش سے اس کو سیلیبریٹ کیا گیا تھا ۔ وہ اس کو بہار میں ایک فتح مبین سمجھ رہے تھے اچانک ملت کے نام پر موقع پرستی کی سیاست نے نئی کروٹ لی ۔جس کے سب عادی ہیں ملت کے دانشور اور مذہبی حلقے کے مقدسین وقت آنے پر اسی طرح پالا پلٹتے رہے ہیں جس جوش سے فتح یاب ہویے تھے اسی جوش کے ساتھ اب ہوش اڑ رہے ہیں ۔
اختر الایمان صاحب ملی جذبے اور درد کے آدمی ہیں لیکن بہت جوشیلے ،جذباتی شعلہ بیان مقرر ہیں اس لئے اس حادثے کو بقرعید سے آگے محرم اور کربلا تک مرثیہ ماتم کرتے رہیں گے۔ ٹھنڈے دل ودماغ سے خود احتسابی نہیں کریں گے اپنے مرکزی قیادت کو تنہائی میں زمینی حقیقت سے گوش گزار نہیں کریں گے۔ اےآئی ایم آیئی ایم سے اس طرف لگاتار غلطیاں ہورہی ہیں وہ تعمیری بیانیہ تشکیل نہیں دے پا رہے ہیں قومی کشمکش کی نئی سیاسی عبارت اور متن جہاں جاتے ہیں لکھ کر نوجوانوں کو پلاتے ہیں ۔جو منفی اثرات پیدا کرتے ہیں ۔سیاست میں موقع محل کے اعتبار سے مناسب اور موزوں بات کی جاتی ہے ۔ان کی سیاسی عبارت موزونیت کے پیمانے پر پوری نہیں اترتی ہیں ۔اسی کو قرآن قول سدید کہتا ہے پکی بات کہو ۔ سچ بات لیکن انداز اور اسلوب دانشمندانہ ہو بہت ساری سچی باتیں بہت کڑوی ہوتی ہیں اور اپنے اثرات کے اعتبار سے بے محل اور بیے موقع ہوتی ہیں بہر حال میرا مطلب یہ ہے کہ سیمانچل کے اس حادثے کے بعد کیڈر میں جوشیلی تقریر کردینا اور پانچ کے بجایے پچیس ایم ایل اے کا جتانے کانعرہ دیناایک فالتو بات ہے اس سے فایدہ نہیں ہوگا لوگوں کو چاہیے کہ ان کے سامنے آئینہ دیکھائیں ۔
میں ان تمام لوگوں کی قدر کرتا ہوں جو ذات سے بلند ہوکر مشترکہ انسانی مفاد یا ملی مسایل کے لئے دوڑ بھاگ کرتے ہیں، لیکناندھی تقلید نہیں کرتا ہوں ۔
چنانچہ ادھر محترم بیرسٹر اویسی صاحب جس طرح آل انڈیا سطح پر توسیعی عزائم کے ساتھ اپنی پارٹی کو الیکشن میں آدھی پونی جیسی تیسی تیاری اور قومی کشمکش کے بیانیے کے ساتھ ملکی سیاست میں حصہ لیتے ہوئیے ملی سیاست کر رہے ہیں ۔ اس میں فائدہ کم نقصان زیادہ ہوگا۔ملک کے دیگر مقامات پر تو میں نہیں جانتا لیکن جھارکھنڈ میں جس طرح انہوں نے الیکشن کے ٹھیک پہلے کچے پکے لوگوں کے ساتھ مل کر اور جیسے تیسے لوگوں کو ٹکٹ دے کر ملت میں سیاسی لیڈرشپ پیدا کرنے کا نیا سستا کھیل شروع کیا ہے وہ کئی پہلو سے قابل اصلاح ہے ۔سیمانچل میں جو کچھ ہوا اس میں ان کے لئے بہت بڑی نصیحت ہے ۔
وہاں جو کچھ ہوا وہ موقع پرستی کی سیاست کا عام چلن ہے ۔اور پہلے بھی بہت ہوچکا ہے بنگال ویوپی کی ملی سیاست کو پلٹ کر دیکھ لیجیے جناب ڈاکٹر جلیل فریدی صاحب مرحوم کی پارٹی مسلم مجلس میں ہو بہو اسی طرح کا واقعہ ہوچکا ہے بلکہ اس سے بھی سنگین تھا۔ بہرحال بات دوسری طرف چلی جائے گی ہندوستان پاکستان بنگلہ دیش تینوں ملک کی عام مسلم آبادی ایک ہی تھان کے تین ٹکڑے ہیں تینوں ملک میں اپنے ملک کےبدلے ہوئے حالات میں عوام،خواص ، علماء کرام ، اور سیکولر دانشوران سب کا رویہ اور سیاسی سفر دیکھ لیجیے۔ نگاہ کھل جائے گی کہ مذہبی حلقے علماءکرام کی جماعتیں مسلکی وگروہی عصبتیں اسی کے ساتھ میر جعفر ومیر صادق کے قبیلے کے لوگ کس طرح کھیل کھیلتے رہے ہیں اور کھیل رہے ہیں ۔آپ اقلیت میں ہیں اور ہندتو کا ابھار ہے لہٰذا مسلم ملت کے نوجوانوں کو بغیر ان کی سیاسی تعلیم وتربیت کے جوش اور نعرہ تکبیر کے ساتھ الیکشن سیاست میں اتار دے رہے ہیں اور ٹکٹ بانٹنے کا وہی معیار انداز اور طریقہ کار اختیار کرتے ہیں جو تمام ملکی سیاسی پارٹیاں کر رہی ہیں ۔آپ بھی مسلمانوں کی جہاں قابل لحاظ تعداد ہے وہاں الیکشن سے پہلے ہندو مسلم نفرت کی سیاست کے موجودہ تناظر میں مسلمانوں کی قومی سیاست کے اسلوب لہجے انداز کو اختیار کرتے ہیں تاکہ جوشیلے نوجوانوں کا ایک گروہ آپ کا شیدائی ہوکر جے جے کار کرے اور آپ ان کے درمیان اسی بھیڑبھاڑ میں ایک صاحب کو جس کے کردار سیاسی سوجھ بوجھ اور وہاں پر اس کے رویے پر کوئی صحت مند معلومات کا طریقہ اختیار نہیں کیا ہے پھر بھی اس کو غلط بنیاد پر ٹکٹ وترن کرتے ہیں ابھی رانچی میں مانڈر حلقہ انتخاب میں آپ کا رویہ انتہائی افسوسناک ہے ۔مسئلہ صرف ایک دو جگہ کا نہیں ہے۔ اس سے آگے بھی ہے۔ کاش سیمانچل کا یہ حادثہ آپ کو اپنی آل انڈیا الیکشن حکمت عملی کے سلسلے میں نظر ثانی کا موقع عنایت کردے اس کا یہ مطلب نہیں کہ سیمانچل میں جو کچھ ہوا اس کی میں تائید کر رہا ہوں ۔ان کے صحیح اور غلط کا فیصلہ کچھ اور معلومات چاہتا ہے ۔جی تو یہی کہتا ہے کہ یہ نہ ہوتا تو اچھا تھا ۔
وفاداری بشرط استواری عین ایمان ہے لیکن پاور پالیٹکس میں آئندہ سیاسی حا لات کی نئی کروٹوں کا انتظار بھی کرنا چاہیے ۔ ان سب پہلوں کے باوجود مجھے یہ خبر سن کر افسوس ہوا کہ اگر جانا تھا تو باوقار سیاسی طریقہ بھی ہوسکتا تھا ۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)