پروفیسر اختر الواسع
ہندوستان میں کمزور طبقات کو پسماندگی کے منجدھار سے باہر نکالنے اور ان کی سماجی و اقتصادی حالت بہتر بنانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ذات پات کا نظام ہے۔ گو کہ آئین کے التزامات نے اس سسٹم کے شکار لوگوں کوراحت دینے کی سمت میں پیش رفت کی، لیکن ذات پر مبنی صحیح اعداد وشمار نہ ہونے کی وجہ سے پسماندہ طبقات دستوری قوت کے فائدے سے محروم ہیں اور تفریق کی خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ ترقی کے سبھی شعبے اس سے متاثر نظر آ رہے ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہندوستان میں ذات پر مبنی مردم شماری (Cast Census) کی آواز ہمیشہ بلند ہو تی رہی ہے۔ اب جبکہ مردم شماری 2021کا مرحلہ سامنے ہے، ملک کے کونے کونے سے ’کاسٹ سینسس‘ کی آواز بلند ہو رہی ہے۔ ذات پر مبنی مردم شماری کو مذہبی تناظر میں دیکھیں تو یہ نہ صرف مسلمانوں کے حق میں ہے بلکہ یہ ملک کی ترقی اور خوشحالی سے جڑا مسئلہ ہے۔ اس کے باوجود کہ مٹھی بھر اشرافیہ مسلمانوں کا گروہ، کاسٹ سینسس کے خلاف اپنی توانائی لگانے میں مصروف ہو گیا ہے۔ ان کی وہی پرانی رٹی رٹائی دلیل ہے کہ اسلام میں ذات پات، اونچ نیچ اور اچھوت کا کوئی تصور نہیں، تو پھر ذات پات پر مبنی مردم شماری اور مسلمانوں کی درجہ بندی کرانے کی فکر کیوں؟ یقیناً اسلام میں ذات پات کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اس کو کسی صورت میں فخر و مباہات کا ذریعہ قرار نہیں دیا جا سکتا، پیدائش اور خلقت کے اعتبار سے تمام انسان برابر ہیںکیوں کہ ان کا پیدا کرنے والا ایک رب ہے، سب کا نسب ایک ہی ماں باپ تک پہنچتا ہے، لیکن جس ملک میں ہم رہتے ہیں، اس کے سسٹم اور آئین کے التزامات سے آنکھیں بند کر کے ہم نہیں رہ سکتے۔ پسماندگی ایک معاشرتی مسئلہ ہے، دینی مسئلہ نہیں۔ اس لئے سبھوں کی کوشش ہو نی چاہیے کہ ملت اسلامیہ ہند کا سواد اعظم پسماندگی کے منجھدار سے باہر نکلے۔
حق تو یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے ذات پات ایک تلخ سچائی ہے، اس کے نتیجے میں ’پسماندگی‘ مسلم قوم کا کھلا راز ہے۔ آپ چاہے جتنی بھی تاویلیں کر لیں اور بہانے بنا لیں اس کا اعتراف کرنا ہی پڑے گا۔ اس حقیقت کو مانے بغیر مجموعی اعتبار سے مسلم قوم کا بھلا ہو نے والا نہیں ہے۔ لاکھ انکار کریں لیکن بھارت میں ذات پات ایک ایسا کمبل ہے جسے آپ تو چھوڑ سکتے ہیں لیکن یہ آپ کو نہیں چھوڑے گا۔ ہندوؤں اور سکھوں سمیت ذات سے متعلق تعصبات تمام مذہبی فرقوں میں پائے جاتے ہیں۔ ممکنہ طور پر صرف پارسی برادری ’کاسٹ ازم‘ سے دور ہے۔
اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی موجودگی تعداد کے اعتبار سے نہ کے برابر ہے۔ ذات پات کے اسی نظام کی کرشمہ سازی ہے کہ کچھ چہرے ترقی کی رفتار سے اتنے پیچھے چھوٹ گئے کہ جسٹس راجندر سنگھ سچر کا قلم چیخ پڑا کہ ہندوستان میں تو بہت سارے مسلمانوں کی حالت دلت اور اچھوت سے بدتر ہے۔ ان کو مین اسٹریم میں لانے کی سبیل کی جائے۔ ایک سروے کے مطابق مسلمانوں کی کل آبادی کا تقریبا 15 فیصد اعلیٰ ذات کے مسلمان اور 85 فیصد دلت، پسماندہ اور قبائلی مسلمان ہیں۔ اتنی بڑی آبادی سے نظریں پھیر کر مساوات اور ترقی کے خواب کو ہم شرمندۂ تعبیر نہیں کر سکتے۔ گزشتہ 23 اگست کوجب سے بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار کی سربراہی میں گیارہ پارٹیوں کے وفد نے ذات پر مبنی مردم شماری کے معاملے پر وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی ہے، یہ معاملہ سلگتا جا رہا ہے۔ دوسری ریاستوں سے بھی آوازیں بلند ہو نے لگی ہیں۔ سب کی نگاہیں مرکز کی بی جے پی حکومت پر ٹکی ہوئی ہیں۔ اِس وفد میں بہار اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر تیجسوی یادو، بی جے پی کے رہنما اور ریاستی وزیر جنک رام اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے ریاستی صدر جناب اختر الایمان بھی شامل تھے۔ وفد نے وزیراعظم کو اِس بات سے واقف کرایا کہ ذات پر مبنی مردم شماری کے بارے میں ریاستی اسمبلی میں دو بار قرارداد منظور ہو چکی ہے اور یہ سماج کے سبھی طبقوں کے مفاد میں ہے اور یہ ہمارا پرانا مطالبہ ہے۔
ایک بار اس طرح کی مردم شماری ہو جائے گی تو پتہ چل جائے گا کہ کس ذات کے لوگوں کی ملک میں کیا حالت ہے؟ اسے سیاسی نہیں سماجی نظریے سے دیکھا جانا چاہیے۔ اس سلسلے میں آخری فیصلہ مرکزی حکومت کو لینا ہے۔ بہار قانون سازیہ نے 18 فروری 2019 اور پھر بہار اسمبلی نے 27 فروری 2020 کو ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کی تجویز اتفاق رائے سے پاس کی تھی اور اسے مرکزی حکومت کو بھیجا گیا تھا۔ مرکز نے ابھی تک اس پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔ خیال رہے کہ گزشتہ برس ہی مردم شماری کا شیڈول مرکزی وزراءسمیت متعدد متعلقین کے ساتھ صلاح و مشورہ کے بعد تیار کیا گیا۔
مردم شماری 2021 کرانے کے لیے حکومت کے ارادے کی اطلاع 28 مارچ، 2019 کو گزٹ آف انڈیا میں دی گئی ہے۔ کووڈ-19 وبائی مرض شروع ہونے کی وجہ سے مردم شماری کی سرگرمیاں ملتوی کر دی گئی تھیں۔ ملک میں آخری مرتبہ انگریزوں کے زمانے میں 1931 میں ذات پر مبنی مردم شماری ہوئی تھی۔ ابھی تک اسی مردم شماری کو بنیاد مان کر چلا جارہا ہے، یہ مناسب نہیں ہے۔ ایک مرتبہ ضرور ذات پر مبنی مردم شماری ہو نی چاہئے۔ اس سے تمام لوگوں کو فائدہ ہو گا اور حکومت کو بھی پوری جانکاری ملے گی کہ کس ذات برادری کی کتنی آبادی ہے اور انہیں آگے بڑھانے کے لیے کیا کیا جانا چاہئے۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جب ملک میں سانپ، چھچھوندر اور بلیوں کی گنتی ہو سکتی ہے تو پھرذات پر مبنی مردم شماری سے لوگ کیوں بھاگ رہے ہیں۔
کئی مورخین کا دعویٰ ہے کہ بھارت میں پسماندہ مسلم آبادی، زیادہ تر ان مقامی لوگوں کی اولادوں پر مشتمل ہے جنہوں نے ماضی میں کسی وقت اسلام قبول کر لیا تھا۔ ان میں سے زیادہ لوگوں کو ہندوؤں کی اونچی ذاتوں کے جبر سے بچنے کے لیے مذہب تبدیل کرنا پڑا تھا۔ مسلمان ان ہی کے لیے ’ارزل‘ (کمتر) کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ نچلی ذاتوں نے اسلام اس لئے قبول کیا تھا کہ ان کی سماجی حیثیت میں فرق آئے۔ مذہب بدلنے کے ساتھ وہ اپنے پیشے سے وابستہ رہے، ان میں زیادہ تر افراد محنت و مزدوری کرنے والے ہیں، سماج ان کو عزت دینے کے لئے راضی نہیں۔ سماج کے یہی مٹھی بھر لوگ ’اشراف -ارزال‘ کیٹگری بنا تے ہیں اور ذات پر مبنی مردم شماری پر اعتراض کر تے ہیں۔ کاسٹ سینسس پر نام نہاد اشراف کا طبقہ ذاتی مفادات کے لئے نئے نئے فتنے پیدا کرناچاہ رہا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ کچھ معصوم ان پُرفتن لوگوں کی چالوں کا شکار بھی ہو رہے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب ملت تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہی ہے اس سے بچنا چاہیے۔
آئین کے التزامات کے مطابق تحفظات کا خاطر خواہ اثر ہو تا ہے، قانون سازیہ، تقرری، تعلیمی اداروں میں داخلے وغیرہ سے متعلق اس کا فائدہ ہو تا ہے۔ ذات پر مبنی مردم شماری ہوگی تو غریب مسلم طبقات کو قومی دھارے میں لانے کا موقع ملے گا۔ مردم شماری ابھی شروع نہیں ہوئی ہے، بی جے پی سرکار نے اس پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے، در اصل کانگریس کے علاوہ چھوٹی اور ریاستی سطح کی پارٹیاں مرکزی حکومت کے موقف کا انتظار کر رہی ہیں۔ ترنمول کانگریس نے کہا کہ اگر تمام پارٹیاں اس پر متفق ہیں تو وہ بھی اس کی حمایت کرے گی۔ تاہم خدشہ یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بہت سی ریاستوں میں، مختلف ذاتوں کی تعداد سے متعلق تخمینے میں خلل پڑ سکتا ہے۔ گیند نریندر مودی حکومت کے پالے میں ہے، نفع اور نقصان کو سامنے رکھ کران کو دیر سویر فیصلہ کرنا ہی ہوگا۔
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر ایمریٹس اسلامک اسڈیز ہیں)