تحریر: محمد شعیب ندوی
(اسٹوڈنٹ، اے ایم یو)
15 اگست ہندوستان کی آزادی کا دن ہے، اس دن ہندوستانی عوام نے انگریزوں کے جبر و استبداد، ظلم و ستم قتل و غارت گری، غاصبانہ اقتدار و حکومت سے آزادی حاصل کی، فرنگیوں کے خلاف نفرت و عداوت، ملک کی سالمیت و بقا اور جنگ آزادی میں شہید ہونے والے مجاہدین کا تذکرہ کیا جاتا ہے، نم آنکھوں سے ان کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے پورے ملک میں تزک و احتشام سے یوم آزادی منایا جاتا ہے، ہر طرف زرق و برق ترنگے لہرائے جاتے ہیں، تقاریب و محافل منعقد کی جاتی ہیں، برطانوی سامراج کی غلامی کا طوق پھینکنے کی خوشی میں ہند کی فضا میں پھولوں کی برسات کی جاتی ہے، حب الوطنی کے گیتوں، نغموں اور ترانوں سے فضا گونج اٹھتی ہے۔
اس آزادی کو باہمی اتحاد و تعاون کے ذریعہ حاصل کیا گیا تھا، اس وقت تمام مذاہب کے لوگ شانہ بشانہ کھڑے ہو کر برطانوی ظالم و جابر سامراج کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے کمر بستہ ہوگئے تھے، اس وقت آپسی محبت و شفقت، ایثار و قربانی، نفرت و عداوت سے بیزاری، تعصب و تنگ نظری سے دوری، آپسی جنگ و جدال سے بعد اختیار کر کے تنازعات کو رفع کر کے تمام لوگوں نے متحد ہو کر ملک کو آزاد کرایا، اپنے خون سے اس کو سیراب کر کے انگریزی حکومت، ان کے ظلم و جبر، استحصال و احتلال کا خاتمہ کیا اور فرنگی اقتصادی، سیاسی، اخلاقی افکار و نظریات سے اس ملک کو یرغمال بننے سے بچا لیا۔
ان مجاہدین وطن نے اس آزادی کا تحفہ ہندوستانی عوام کو دیا، ہم اسی تحفہ کا جشن منا رہے ہیں حالانکہ ہم کو اس تحفہ کا صحیح اندازہ نہیں ہوسکتا کیونکہ ہم نے اس وقت کا دور غلامی نہیں دیکھا، اسی وجہ سے ہم اس کی کوئی وقعت نہیں سمجھتے اور ہر کس و ناکس انسان روایتی انداز میں مجاہدین کو خراج تحسین پیش کرتا ہے بہرحال انگریزوں سے تو آزادی مل گئ، آزادی کے بعد ملک اپنے پر خطر اور نشیب و فراز سے گزر کر زرخیزی و شادابی کے دور میں آگیا تھا، تمام لوگ سکون و اطمینان کی زندگی بسر کرنے لگے تھے، ہر شخص کو افکار و نظریات، عقائد، مذہبی تشخصات کی مکمل آزادی تھی.
آزادی نام ہی اسی چیز کا ہے کہ انسان دستور ملک کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے اپنے افکار و نظریات رجحانات و میلانات، مذہبی تشخصات و شعائر میں مکمل طور سے آزاد ہو، مذہبی مقامات محفوظ ہوں، ان پر کسی بھی طرح کی شر انگیزی کا خدشہ تک نہ ہو غرض ملک اپنی ترقیات و اختراعات کے منازل طے کرتا رہا اور آپسی بھائی چارگی سے ہندوستانی عوام لطف اندوز ہوتی رہی کچھ عرصے بعد حکمراں طبقہ نے اس ملک کا پھر اغوا کر لیا اور ایک خاص فکر و تہذیب ہندوستانی عوام پر تھوپنے کی کوشش کرنے لگا، وہی ماحول و اسباب، ظلم و جبر شر انگیزی اور اشتعال انگیزی پیدا کرنی شروع کردی جو دور فرنگی میں تھی بلکہ اس سے بھی خطرناک، چنانچہ یہ طبقہ اپنی اس پالیسی میں کافی حد تک کامیاب ہوگیا اور ملک میں نفرت و عداوت، تعصب و تنگ نظری، جنگ و جدال، تشدد و انتہا پسندی کا ماحول پیدا کردیا، پورے زور شور سے یہ چیزیں بام عروج پر ہے، ملک کا ایک طبقہ اقلیتوں خصوصاً مسلم امت کو دشمن کی نظر سے دیکھ رہا ہے، ہندوستانی عوام کی حالت ان پرندوں کی طرح ہوگئ ہے جو پنجرے میں قید ہوں کہ جب اور جیسا ان کا مالک و آقا چاہے ان کے ساتھ برتاؤ اور سلوک کرے، جس طرح چاہے ان کے ساتھ رویہ اپنائے یہی حالت آج ہماری ہے کہ چند افراد کے ہاتھوں میں یہ ملک کٹھ پتلی بنا ہوا ہے خاص بات تو یہ ہے کہ جس قوم نے اس ملک کی آزادی میں سب سے زیادہ قربانیاں دیں، مصائب و آلام کا سامنا کیا اسی کو آج مشق ستم بنایا جا رہا ہے، اسی کا عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے، اس کے مجاہدین کی قربانیوں کو تاریخ کے اوراق سے مٹایا جا رہا ہے، تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے، اسی کی حب الوطنی کو شکوک و شبہات کے دائرہ میں لاکر اپنی سیاسی روٹی سینکی جا رہی ہے، ملک میں عدم میں عدم تحفظ کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے، شرپسند عناصر علی الاعلان شر پھیلا رہے ہیں، قانون کو بالائے طاق رکھا جا رہا ہے، خاکی وردی کا قہر عروج پر ہے، پورے ملک میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے، وبایئں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن اس کے نام پر تعلیمی نظام کو تہس نہس کیا جا رہا ہے، مسلم قوم کے متعلق منصوبہ بندی کے تحت نفرت و عداوت، شقاوت و سنگ دلی، ظلم و جبر کا رویہ اپنایا جا رہا ہے، موب لنچنگ کے ذریعہ بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے، اس کے مدارس و مکاتب پر نت نئے طریقے سے حملہ کیا جا جا رہا ہے غرض کہ ہم آزاد ہوتے ہوئے بھی غلامی کا درد شدت سے محسوس کر رہے ہیں ۔
اس تشویشناک صورت حال میں ہندوستانی عوام کو حقائق سے واقفیت پیدا کرنے اور صحیح صورت حال کا جائزہ لینے کی سخت ضرورت ہے، آپسی اتحاد و اتفاق سے ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے مثبت اقدام کرنے ملک جو چند لوگوں کے ہاتھ میں یرغمال بنا ہوا ہے اس کو پھر سے آزاد کرانے، ان کے پنجہ استبداد سے ملک کو نجات دلانے، آپسی اختلافات و تنازعات کو ختم کرنے، انتشار و افتراق کی کیفیت کا خاتمہ کرنے، ملک کو تخریب کاری کے بجائے تعمیر کی طرف گامزن کرنے، باہمی محبت و الفت کا نمونہ پیش کرنے اور اوباش لوگوں کی سازشوں کو سمجھنے کی سخت ضرورت ہے جو اس کو تباہی کے دہانے پر لے جا رہے ہیں، ضرورت ہے گنگا جمنی تہذیب کو برقرار رکھنے کی، ضرورت ہے باہمی اتحاد و اتفاق کی تاکہ یہ ملک پھر سونے کی چڑیا بن جائے، اس کی زرخیزی و شادابی واپس آجائے اور پھر سے ہندوستانی عوام کو مکمل آزادی حاصل ہو۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)