تحریر:ابھے کمار
اتوار کے روز جہاں دہلی کی سڑکیں تھوڑی خاموش رہتی ہیں اور اسکول، کالج اور سرکاری دفاتر بند رہتے ہیں، وہیں ایوان غالب میں لوگوں کی بڑی چَہل پَہل دیکھی گئی۔ ملک کی مختلف ریاستوں سے سیکڑوں مسلم سماجی، ملی، سیاسی کارکنان اور قائدین یہاں تشریف لائے ہوئے تھے۔ آڈیٹوریم سے باہر کتابوں کی دوکانیں سجی ہوئی تھیں، جہاں مسلمان، اسلام، فرقہ پرستی، سیاسیات اور تاریخ سے متعلق لٹریچر فروخت ہو رہا تھا۔ بہت ساری کتابیں اردو کی بھی موجود تھیں۔ احاطہ میں لیڈروں کی بڑی بڑی گاڑیاں بھری پڑی تھیں۔اندر 500سے زیادہ کپسیٹی والا آڈیٹوریم بھرا پڑا تھا۔ میڈیا کے درجنوں کیمرے پورے واقعہ کو ریکارڈ کر رہے تھے۔ اسٹیج سے لیڈران تقریرکررہے تھے۔
جیسے جیسے میں مقررین کی باتیں سنتا گیا، مجھے یہ صاف محسوس ہونے لگا کہ بھارت کے مسلمان آج زبردست مایوسی اور بےچینی میں مبتلا ہیں۔ جس طرح زعفرانی طاقتیں ہر روز ملک کے سیکولر ڈھانچے کو چوٹ پہنچا رہی ہیں، اس سے ان کا دل اور سماجی ہم آہنگی زخمی ہو گیا ہے۔ جس طرح دن رات مسلمانوں کو وِلن بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، اس سے مسلمانوں کی ناراضگی بڑھنے لگی ہے۔مقررین کی باتوں میں مسلمانوں اور ان کے مذہبی مقامات پر ہو رہے حملوں کا عکس صاف دکھ رہا تھا۔ ان کی بے اطمینانی اس لیے بھی بڑھ گئی ہے کہ اب عدالت بھی بعض اوقات انہیں انصاف دینے سے پیچھے ہٹ جا رہی ہے۔آئین کے ساتھ جو ہمارا معاہدہ تھا اسے مکمل ہندو تسلط کی خاطر توڑا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کی جان و مال پر ہو رہے حملے، مسجدوں اور در گاہوں کو ہڑپنے کے لیے رچی جا رہی فرقہ وارانہ سازش اور حکومت اور سرکاری اداروں کی جانب داری مسلمانوں کو یہ احساس دلا رہا ہے کہ جس ملک کی آزادی کے لیےانہوں نے قربانیاں دی تھیں، آج اسی ملک کے حکمراں ان کو غدار وطن کہہ رہے ہیں۔ حالانکہ بہت سارے مسلم لیڈر وں نے مایوسی کی اس تاریکی میں بھی امید کی روشنی بھی جلائی۔
مسلم انٹلکچوئل میٹ کے روح رواں اور سابق راجیہ سبھا ممبر محمد ادیب کے چہرے پر مایوسی اور امید دونوں دیکھی گئیں۔ ان کو مایوسی اس بات سے ہے کہ گاندھی کے ملک میں آج مسلمانوں کو نماز ادا کرنے سے روکا جا رہا ہے اور اُن کی عبادت میں خلل ڈالا جا رہا ہے۔ مگر اُن کو اس بات کی خوشی ہے کہ ان کے کال پر 21ریاستوں سےلوگ جلسہ میں شرکت کرنے ہوئے ہیں۔ وہ اس بات سے بھی پُر امید ہیں کہ سیکولر ذہن کے لوگ ، جو ہندو سماج کے اندر بہت بڑی تعداد میں ہیں ،مسلمانوں کے شانہ بشانہ چلنے کو تیار ہیں۔جلسہ میں موجود بريلوي جماعت کے بڑے مذہبی رہنما حضرت مولانا توقیر رضا خان سے جب یہ پوچھا گیا کہ مسلمانوں کے مسائل کیسے دور ہوں گے، تو انہوں نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ گاندھی جی کے راستہ پر چلتے ہوئے مسلمانوں کو سڑکوں پر اترنا چاہیے اور ضرورت پڑے تو جیل بھرو تحریک کا بھی کال دینا چاہیے۔مگر جب یہ پوچھا گیا کہ مسلمانوں کے کچھ بڑے مذہبی قائدین انہیں سڑکوں پر اترنے سے منع کر رہے ہیں، تو حضرت نے جواب دیا کہ مسلمان تنہا سڑکوں پر نہیں جائیں گے، بلکہ وہ اپنے سیکولر ہندو بھائیوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کے خلاف آواز بلند کریں گے۔ گفتگو کے دوران انہوں نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ہندو سماج کے اندر میں اکثریت ان لوگوں کی ہے، جو سیکولر سوچ رکھنے والے ہیں، مگر افسوس کی بات کہ ان کی آوازوں کو میڈیا دبا دیتا ہے اور نفرت انگیز ایجنڈوں کوسامنے پروس دیتا ہے۔بہت لوگوں کا ماننا ہے کہ جیل بھرو تحریک کے ساتھ پریشانی یہ ہے کہ ملت کے پاس غریب لوگوں کو قانونی مدد دینے کے لیے نظام موجود نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مسلمان آج اپنی آبادی کے تناسب سے کہیں زیادہ جیلوں میں بند ہیں۔ جب ان کو انصاف نہیں دلایا جا سکتا تو نئے لوگوں کو سلاخوں سے باہر کون نکال پائے گا؟
کانگریس کے سابق مرکزی وزیر اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل سلمان خورشید بھی مسلمانوں کے در پیش مسائل کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا کہا ہمیں اس افواہ میں بھی نہیں پڑنا چاہیےکہ ملک کے اندر سیکولر خیال کے لوگ اکثریت میں نہیں ہیں۔ مگر سچائی یہ ہے کہ فرقہ پرست لوگ اقلیت میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آج جو بھی لوگ بھگوا سیاسی پارٹی کا پرچم لے کر گھوم رہے ہیں، وہ یہ سب پیٹ کی وجہ سے کر رہے ہیں ۔کچھ دیگر خوف کی وجہ سے بھگوا جماعت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلٰی فاروق عبداللہ نے کہا کہ ہم مسلمان بھی ہیں اور ہندوستانی بھی۔ انہوں نے ملک کے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ ڈریں نہیں ، نہ ہی وہ تلوار اٹھانےکے بارے میں کبھی سوچیں، بلکہ انہوں اپنے حقوق کے لیے لڑنا چاہیے ۔ کانگریس حکومت میں اقلیتی وزیر رہے کے رحمان خان نے کہا کہ مسلم تنظیموں میں نوجوانوں اور خواتین کو مزید جوڑنا چاہیے، جو کہ ملی تنظیموں نے ابھی تک نہیں کیا ہے۔ انہیں نے تنظیم اور اتحاد کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں انا کو نکال کر باہر رکھ دینا ہے۔ اتر پردیش کانگریس کے لیڈر شاہنواز عالم نے کہا کہ ہمیں ملت کے اندر میں سیاسی شعور پیدا کرنا ہوگا ۔ علاوہ ازیں ،مسلمانوں کے اندر سے سیاسی لیڈرشپ کو اُبھارنا ہوگا ۔ ہمیں بیک فٹ کی سیاست کو چھوڑ کر مثبت سیاست کرنے کی ضرورت ہے، جہاں مسلمان اپنے لوٹے ہوئے حقوق اور مقامات کو واپس لینے کے لیے اپنا وقت صرف نہ کرے، بلکہ وہ اپنی توانائی کو مثبت مطالبات کو پیش کرنے اور اسے حاصل کرنے میں لگائے۔
صبح سے شام تک چلے اس جلسہ میں درجنوں مقررین نے شرکت کی۔ جب شام ڈھلی تو حاضر ایکشن پلان کے منتظر تھے۔مگر پروگرام کے اختتام اور فوٹو سیشن سے پہلے یہ تجویز پیش کی گئی کہ محمد ادیب کو اس فورم کا کنوینر بنایا جائے، حالانکہ حاضرین نے ہاتھ اُٹھا کر اُن کی تائید ۔ پھر ادیب صاحب نے وعدیٰ کیا کہ چار ہفتوں کے اندر وہ سب لوگو ں سے رابطہ کریں گے۔ مگر باہر نکلتے وقت حاضرین کے دلوں میں بہت سارے سوالات یوں ہی پریسان کرتے رہے۔ ناقدین کا ماننا ہے کہ اس جلسہ پر ایک خاص سیاسی پارٹی کا اثر زیادہ دیکھا گیا، جس کے بڑے بڑے مسلم چہرے سفِ اول پر وِراجمان تھے۔ اپنی تاریخ کی بدترین دور سے گزر رہی اس سیاسی جماعت کو اب یہ ڈر ستانے لگا ہے کہ اگر مسلمانوں نے بھی ان کا پاتھ چھوڑ دیا تو ان کی حالت اور بھی خستہ ہو جائے گی۔ حالانکہ کچھ لوگ ایسے بھی تھے ، جن کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ پروگرام دہلی میں منعقد ہوا تھا، جہاں علاقائی پارٹیوں کا وجود نہیں ہے، اس لیے اس جلسہ میں شرکت کرنے والوں میں ایک خاص قومی پارٹی کے لیڈر زیادہ نظر آ ئے۔
سچ پوچھیے تو مسلم اتحاد کی راہ میں سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ مسلم تنظیمیں بڑی آسانی سے سیاسی پارٹیوں کے زیر اثر آ جاتی ہے۔یہ بھی بڑا مسئلہ ہے کہ مسلم قائدین آپس میں ملتے کم اور لڑتے زیادہ ہیں ۔ ہر ملی تنظیم خود کو مسلمانوں کی واحد ترجمان کہتی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کے پاس عوامی حمایت کا بڑا فقدان ہے۔ یہ بات دانشور طبقہ جتنا جلدی سمجھ لے اتنا اچھا ہے کہ تبدیلی عوام لاتے ہیں۔ صرف اچھی باتیں کر دینے سے ہی سماج نہیں بدل جاتا۔ مسلم اتحاد کے راستے میں سب سے بڑا پتھر شایہ یہ ہے کہ ملی تنظیموں کے اندر میں تنوع نہیں پایا جاتا ہے۔ دلت اور پسماندہ مسلمان، جن کی تعداد ملت میں اکثریت ہے، ملی اداروں کی قیادت میں اکثر جگہ نہیں بنا پاتے ہیں۔ موجود ہ مسلم لیڈرشپ یہ بات تسلیم نہیں کرتے کہ مذہب ایک ہو جانے سے مسلمانوں کے درمیان موجود طبقاتی، ذات برادری اور جنس پر مبنی تعصّب مِٹ نہیں جاتا۔ اس فورم میں خواتین کی عدم موجودگی بھی قابل تشویشناک ہے۔ لوگوں کے رد عمل کو جان کر مجھے یہ بات مزید سمجھ میں آنے لگی کہ جلسہ کے اسٹیج اور سٹیج کے باہر کی بباتیں اہم ہوتی ہیں۔ امید کی جانی چاہیےکہ مسلم انٹیلیکچوئل میٹ ان فیڈ بیک کو مثبت طریقے سے لے گا اور مسلم اتحاد کے در پیش چیلنج کو دور کرنے کے لیے کام کرے گا۔
(مضمون نگار جے این یو سے تاریخ میں پی ایچ ڈی ہیں)