تحریر:عدیل اختر
(نوٹ: غیر مسلموں کے تہواروں میں شرکت،ان کو مبارکباد وغیرہ کے حوالے سے روزنامہ خبریں نے مولانا رضی الاسلام ندوی سے گفتگو کی تھی ۔اس مضمون میں مولانا کے جوابات کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے ،ضروری نہیں کہ اس سے اتفاق کیا جاۓ ،یہ مضمون ایک نقطہ نظر کے طور پر پیش کیا جارہا ہے ،صحت مند بحث کے لیے آپ کا خیر مقدم ہے,اس انٹرویو کا لنک بھی دیا جارہا ہے۔ایڈیٹر)
یہ عنوان ویسے تو ایک تفصیلی بحث کے لئے موزوں ہے جس کی بہت ضرورت بھی ہے لیکن وہ ایک وقت طلب کام ہے ، اس لئے سردست اس عنوان سے مختصراً یہ عرض کرنا ہے کہ مسلمانان ہند کے سقوط کا منظر نامہ بڑی تیزی سے تیار ہو رہا ہے اور بھارت کے "تکثیری سماج” میں علماء حق بھی فکری طور پر ہتھیار ڈال دینے کی کیفیت میں دکھائی دے رہے ہیں۔
اس تمہید کے بعد ہم ایک معتبر عالم دین جناب رضی الاسلام ندوی صاحب کی اس گفتگو پر اظہار خیال کریں گے جو انہوں نے غیر مسلموں کے تیوہاروں کے حوالے سے ایک پورٹل (روزنامہ خبریں) پر کی ہے ۔
ندوی صاحب نے اس گفتگو میں اس طرح کے سوالوں کے جواب دئے ہیں کہ ہولی، دیوالی، دسہرہ جیسے تیوہاروں میں شرکت یا ایسے موقعوں پر مبارکباد دینا صحیح ہے یا غلط؟
ہمارے خیال میں موصوف کی اکثر گفتگو صحیح موقف کی ترجمانی کرتی ہے ، تاہم بعض باتیں عام لوگوں کے الجھاؤ اور بہکنے کا باعث بن سکتی ہیں ۔مثال کے طور پر انہوں نے یہ فرمایا کہ مشرک والدین کے ساتھ دنیا میں معروف طریقے سے رہنے کی اللہ تعالیٰ نے تاکید کی ہے (سورہ لقمان، آیت 15) ، تو یہ بات علی الاطلاق سب کے لئے عائد ہوتی ہے ۔
یہ موصوف کا ذاتی اور اختراعی بیان ہے مشہور تفسیروں میں یہ نکتہ بیان نہیں کیا گیا ہے ۔ اور اس کی بظاہر کوئی گنجائش بھی نظر نہیں آتی۔ آیت میں یہ بات مطلق طور پر والدین کے لئے کہی گئی ہے (ووصینا الانسان بوالدیہ)۔ والدین کے حقوق سے دوسرے انسانوں کے حقوق کے لئے استدلال کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ والدین کا مقام اور حیثیت بالکل الگ ہے، اللہ و رسول کے بعد ان کا ہی مقام و مرتبہ ہے۔
دوسری بات: دنیا میں معروف طریقے سے برتاؤ کی بات بے شک سب کے لئے ہے اور اس کے لئے دوسرے بہت سے دلائل ہیں، لیکن معروف طریقے سے برتاؤ کا مطلب کیا ہے ؟ جس آیت کا رضی الاسلام صاحب نے حوالہ دیا ہے اسی میں فوراً ہی یہ کہا گیا ہے کہ "والتبع سبیل من اناب الی: اور ایسے لوگوں کے راستے پر چلو جو میری (اللہ) کی طرف آتے ہیں” ۔ لیکن اس اہم بات سے موصوف صرف نظر کر گئے ۔اتباع یا پیروی کرنے کا مطلب ہے طور طریقے اختیار کرنا۔ لہذا اسی بات سے اس کی نفی ہوتی ہے کہ اہل ایمان اہل کفر و شرک یا ملحدوں کے طریق اختیار کریں یا ان میں شامل ہوں۔
دراصل معروف طریقے سے برتاؤ کرنے یا حسن سلوک کرنے کا تعلق انسانی افعال اور معاملات سے بے ؛ نظریاتی, مذہبی یا عقیدے کے معاملات سے نہیں ہے ۔ مثال کے طور پر پیدائش، موت یا شادی کا معاملہ ، کسی دنیاوی معاملے میں کامیاب ہونے یا ناکام ہونے کا معاملہ ، دکھ ، بیماری یا حادثہ؛ یا دنیاوی خوشی جیسے نوکری لگنا، پروموشن ہونا، دوکان یا فیکٹری کھولنا ، کوئی انعام جیتنا ، بچوں کا امتحان یا مقابلے میں پاس ہونا وغیرہ ایسے معاملے ہیں جن میں خوشی کا اظہار کرنا یا غم گساری کرنا حسن سلوک ہے ، ضرورت کے وقت مدد کرنا بھی حسن سلوک ہے، مسکرا کر ملنا بھی حسن سلوک ہے ۔ یہ وہ باتیں جن سے مسلمانوں کو اللہ یا رسول نے نہیں روکا ہے اور یہ اتنی عام فہم ہیں کہ اس کے لئے باقاعدہ تعلیم دینے کی بھی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ ایک دین دار اور بااخلاق مسلمان کو یہ باتیں اپنی سرشت سے ہی معلوم ہوتی ہیں۔
جہاں تک مذہبی تیوہاروں کا تعلق ہے وہ قوموں کے مخصوص شعار ہوتے ہیں اور ان کی مناسبت سے منعقد ہونے والی تقریبات چاہے وہ کسی بھی انداز میں منعقد ہوں اس مخصوص شعار کی تعظیم اور تائید کا حصہ ہوتی ہیں۔ اس لئے دین میں اس کا جواز نکالنے کی کوشش ایک زیادتی ہے۔
عام مسلمان دین سے بے خبر اور دینی پابندیوں سے بے نیاز ہیں ۔ جو چاہتے ہیں کرتے ہیں ۔ دین داروں کا ایک بڑا طبقہ ان لوگوں کے پیچھے آنکھیں بند کرکے چل رہا ہے جن کا کردار مشتبہ اور معاملات منافقانہ ہیں ، رہے وہ تھوڑے سے لوگ جو دین داری کی روایت کو بنائے ہوئے ہیں یا اپنی طبیعت سے دین دار ہیں اور دین کے مطابق رہنمائی چاہتے ہیں ان کے اندر سے بھی وہ جھجک آپ جیسے لوگوں کی باتوں سے نکلی جارہی ہے جس کے اثر سے وہ برادران وطن کے مشرکانہ طور طریقوں سے دور رہنا چاہتے ہیں ۔
دوسری طرف "برادران وطن” کے قائدین اسلام اور مسلمانوں سے چودہ سو سال پرانی دشمنی کا بدلہ لینے کے لئے چو طرفہ حکمت عملی پر کام کرر رہے ہیں اور ملت اسلامیہ ہند کو اپنی مشرکانہ تہذیب میں ضم کرنے کے لئے زور لگائے ہوئے ہیں۔ ایسے میں جن لوگوں پر مزاحمت اور تحفظ کے اقدامات فرض ہیں وہ موافقت اور تحلیل کی گنجائش ڈھونڈ رہے ہیں۔ یہ بہت نقصان دہ ہے۔
ہماری مخلصانہ گزارش یہ ہے کہ اپنے دعوتی موقف پر ڈٹیے۔ دعوت کا مطلب ہے حق کی تبلیغ اور باطل کی تردید۔ اسی کا امتحان درپیش ہے اور اسی میں فلاح و بہبود مضمر ہے۔