تحریر: سمیع احمد
بہار کے اکلوتے مسلم اکثریت ضلع کشن گنج کا موازانہ وشو ہندو پریشد کے ایک لیڈر نے حال ہی میں ’ دفعہ 370 بوالے کشمیر‘ سے کیا تو سیاسی وسماجی حلقوں میں یہ سوال اٹھنے لگا کہ کیا یہ بات وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے لیے نئی مصیبت بنے گی ؟
وشوا ہندو پریشد کے بہار- جھارکھنڈ ریجن کے رابطہ عامہ کے انچارج اشوک کمار نے حال ہی میں کشن گنج میں ایک پریس کانفرنس کرکے اور الزام لگایا کہ کشن گنج میں حالات آرٹیکل 370 والے کشمیر جیسے ہوتے جارہے ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ کشن گنج میں روہنگیا مسلمانوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے اور بنگلہ دیشی دراندازی بڑھ رہی ہے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وی ایچ پی کے علاوہ بی جے پی لیڈر اور وزراء بھی ایسی ہی باتیں کرتے رہے ہیں۔ ریاستی وزیر اور بی جے پی لیڈر رامسرت رائے نے کچھ ہی دن پہلے بیان دیا تھا کہ دراندازوں کی ایک بڑی تعداد سیمانچل میں آرہی ہے جو مقامی دلالوںکے ذریعہ زمین خرید رہے ہیں۔
اسی طرح سیمانچل کے فاربس گنج اسمبلی حلقہ سے بی جے پی ایم ایل اے ودیا ساگر کیسری نے اسمبلی میں کہا تھا کہ سیمانچل میں بڑھتے ہوئے بنگلہ دیشی دراندازوں کی وجہ سے نہریں ، سڑکیں ، تالاب اور غیرمجراؤ زمین پر غیر قانونی تعمیرات کرکے قبضہ کیا جا رہاہے۔انہوں نے ایوان سے مطالبہ کیا تھا کہ غیر قانونی قبضہ کی گئی زمین کو آزاد کرایا جائے کیونکہ اس سے مستقبل قریب میں زبردست تنازع ہو سکتا ہے ۔
بی جے پی ماضی میں سیمانچل میں یہ مسئلہ اٹھاتی رہی ہے اور اس کے حامیوں نے مرحوم ایم پی اور سابق مرکزی وزیر تسلیم الدین جیسے رہنماؤں پر بھی بنگلہ دیشی ہونے کا الزام بھی لگاچکے ہیں ۔
بی جے پی لیڈر اور وزیر نیتانند رائے نے 2018 میں سیمانچل کے ارریہ لوک سبھا حلقہ کے لیے ہوئے ضمنی انتخاب کے دوران یہ بیان دیا تھا کہ اگر وہاں سے آر جے ڈی کا امیدوار جیت جاتا ہے تو ارریہ آئی ایس آئی کا اڈہ بن جائے گا۔ یہ ضمنی انتخاب تسلیم الدین کے انتقال سے خالی ہوئی سیٹ کے لیے ہوا تھا اور اس سیٹ پر ان کے بیٹے سرفراز عالم الیکشن لڑ رہے تھے ، جنہیں بعد میں جیت بھی ملی ۔
بی جے پی لیڈروں کے بیان کے ساتھ ساتھ پٹنہ ہائی کورٹ کےایک حکم سے یہ معاملہ الجھتا جا رہاہے ۔ پٹنہ ہائی کورٹ نے 18 اگست کو اپنے ایک حکم میں کہا تھا کہ غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ یہ عمل لوگوں کو باخبر کرنے کے لیے کیا جائے ، خاص طور پر سرحدی علاقوں میں۔ اس کے لیے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ پرجوش افراد اور این جی اوز کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ یہ معاملہ دراصل دو بنگلہ دیشی خواتین کا تھا جنہیں پٹنہ کے ناری نکیتن میں رکھا گیا تھا۔ اس کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا کہ وہ انسانی اسمگلنگ کا شکار تھی اور اسے ممبئی لے جایا جا رہا تھا۔ اس معاملے کو نمٹاتے ہوئے پٹنہ ہائی کورٹ نے اسے ملک بدر کرنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد اسے واپس بنگلہ دیش بھیج دیا گیا۔ انہوں نے ریاست میں علیحدہ حراستی مرکز قائم کرنے کی بھی بات کی۔ ہائی کورٹ کے اس حکم کے بعد کشن گنج ڈی ایم آدتیہ پرکاش کا ایک خط وائرل ہوا ، جس میں انہوں نے ضلع انفارمیشن اینڈ پبلک ریلیشن آفیسر سے کہا تھا کہ وہ مشکوک اور غیر قانونی تارکین وطن کی نشاندہی کریں جو مبینہ طور پر ضلع کے اندر رہتے ہیں، خاص طور پر سرحدی علاقوں میں۔ میڈیا کے ذریعے عوامی بیداری لانے کے لیے تمام کارروائی کی جائے اور اسے بہت ضروری سمجھاجانا چاہئے ۔
اسی طرح سیون کے ایس پی کی طرف سے جاری عام نوٹس کاایک خط بھی وائرل ہو ا تھا ، جس میں عام لوگوں سے غیر قانونی طور سے رہ رہے غیرملکی باشندوں خصوصاً بنگلہ دیشی شہریوں کی اطلاع دینے میں تعاون کی بات کہی گئی تھی ۔
کشن گنج ڈی ایم کے خط میں بہار حکومت کے محکمہ داخلہ کے انڈر سکریٹری کے خط کو ایک سیاق و سباق کے طور پر بتایا گیا ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ یہ خط تمام ڈی ایم کو بھیجا گیا ہوگا، لیکن سرکاری طور پر حکومت کی طرف سے کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
کشن گنج کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 70 فیصد ہے۔ یہاں کی مقامی زبان بنگالی مخلوط اردو بھی ہے۔ اسے سیمانچل کی راجدھانی بھی جاتا ہے ، لیکن یہاں غریبی اور بے روزگاری کی شرح کافی زیادہ ہے۔
اسد الدین اویسی کی پارٹی اے آئی ایم آئی ایم کے پانچ ارکان نے 2020 کے اسمبلی انتخابات میں سیمانچل سے جیت کر آئے تھے ۔ اس علاقے میں پہلے کانگریس کا غلبہ ہوا کرتا تھا ۔ بعد میں ارریہ میں مرحوم تسلیم الدین کی وجہ سے آر جے ڈی نے بھی پکڑ بنائی ہے ۔
اویسی نے بھی اس مسئلے پر ٹویٹ کرکے اسے چور دروازے سے این آر سی لاگو کرنے کی کوشش قرار دے تھا۔ دوسری جانب بہار اسمبلی میں این آر سی لاگو نہیں کرنے کی قرار داد منظور کی جاچکی ہے۔
اے آئی آئی ایم کے بہار صدراورامور پرنیہ سے ایم ایل اے اخترالامام کہتے ہیں کہ کچھ لوگ بنگلہ بولتے ہیں توانہیں بنگلہ دیشی بتانے کی ناپاک کوشش کی جارہی ہے ۔ وہ پوچھتے ہیں کہ ایس ایس بی اور بی ایس ایف کے رہتے کیسے دراندازی ہوسکتی ہے ؟ کیا یہ لوگ بے کار ہیں؟ انہیں کون لوگ لا رہے ہیں؟وہ کہتے ہیں کہ کشن گنج میں کوئی بنگلہ دیشی نہیں ہے اور یہ بات جان بوجھ کرپھیلائی جارہی ہے ،یہ افواہ ہے، اس لئے کشن گنج کے ایس پی اور ڈی ایم کو ایسے افواہ پھیلانے والوں پر کارروائی کرنی چاہئے ۔
جے ڈی یو لیڈر اور سابق ایم ایل اے مجاہد عالم نے بیان دیا ہے کہ اگر انتظامیہ کسی جائز شہری کو ہراساں کرتی ہے تو ہم اس کی مخالفت کریں گے۔ جنہیں اس حکم پر اعتراض ہے انہیں سپریم کورٹ جانا چاہئے۔
ان کا کہنا ہے کہ ویسے بھی بہار اسمبلی سے متفقہ طور پر قرار داد منظور ہوچکی ہے یہاں این آر سی لاگو نہیں ہوگا۔ مقامی صحافی تنزیل آصف کہتے ہیں کہ سیمانچل میں بی جے پی طویل عرصے سے پولرائزیشن کی سیاست کی کوشش کرتی آرہی ہے ۔ ان کی معاون تنظیم بھی اس میں مصروف رہتی ہیں ۔ ان کا ماننا ہے کہ اس سے ماحول میں تناؤ پیدا ہو گا کیونکہ وشو ہندو پریشد نے اس علاقے میں ہندوپنچایت منعقد کرنے کابھی اعلان کررکھاہے ۔ سیاسی مبصرین مانتے ہیں کہ ایک ہی سرکار میں رہتے ہوئے بھی بی جے پی اورجے ڈی یو میں ذات پر مبنی شماری، آبادی کنٹرول اور کئی دوسرے معاملوں پر تناؤ بنا رہتا ہے ۔ بی جے پی کے کئی لیڈر جےڈی یوکو اسے تیسرے نمبر کی پارٹی ہونے کی یاد بھی دلاتے رہے ہیں ۔ ایسے میں سیمانچل پر مبینہ دراندازی کامعاملہ نتیش کمار کے لیے نیا مسئلہ بن سکتا ہے ۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں۔ بشکریہ : ستیہ ہندی )