تحریر:جاوید اختر، نئی دہلی
اقوام متحدہ میں مشاورتی حیثیت کی حامل امریکہ کی غیر منافع بخش تنظیم ’’جسٹس فار آل‘‘ کی جانب سے رواں ہفتے منعقدہ ایک ورچوئل عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر گریگوری اسٹینٹن نے کہا کہ بھارت نسل کُشی کے آٹھویں مرحلے میں داخل ہوچکا ہے اور مسلم کمیونٹی کا مکمل صفایا صرف ایک قدم دور رہ گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ’’ایسا ہوتا ہوا دیکھ کر بہت خوش ہوں گے۔‘‘
پروفیسر گریگوری اسٹینٹن امریکی ادارے ’’جینوسائڈواچ‘‘ کے بانی ہیں۔ یہ ادارہ نسل کُشی اور بڑے پیمانے پر قتل کی دیگر شکلوں کی پیشن گوئی اور تدارک کے لیے کام کرتا ہے۔
’’یہ بیانات لغو ہیں‘‘
ہندو قوم پرست حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) تاہم اس طرح کے خیالات کو لغو اور بے بنیاد قرار دیتی ہے۔ بی جے پی کے سینئر رہنما اور رکن پارلیمان پروفیسر راکیش سنہا کا کہنا ہے کہ بھارت میں رواداری کی ہزاروں سالہ طویل تاریخ ہے اور نسل کُشی کا لفظ ہندو تہذیب و ثقافت اور قوم پرست حکومت کے لغت میں موجود ہی نہیں ہے۔ پروفیسر سنہا نے ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا، ’’بھارت کی روایات اور ثقافت میں ایسا کوئی لفظ موجود ہی نہیں ہے۔ نسل کُشی تو ہم نے باہر کے ملکوں میں دیکھی ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی شخص پبلسٹی اسٹنٹ کے لیے مسلمانوں کے خلاف کوئی بیان دیتا ہے تو اسے اہمیت نہیں دی جانی چاہئے۔’’ایسے قابل اعتراض بیانات کو جان بوجھ کر اہمیت دینے کی صرف ایک وجہ ہے کہ ہندو تہذیب و ثقافت کو بدنام کیا جائے۔‘‘
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ ماہ بھارتی شہر ہردوار میں ایک ’’ہندو دھرم سنسد‘‘ کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں مقررین نے ہندوؤں سے مسلمانوں کا نسلی صفایا کرنے کی اپیل کی تھی۔ اسی طر ح کا ’’دھرم سنسد‘‘ آئندہ ہفتے علی گڑھ میں منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
بی جے پی رہنما پروفیسر سنہا کا کہنا تھا،’’ایسے بیانات دے کر کچھ لوگ بھارت کو بدنام کرنا چاہتے ہے۔ ایسی باتیں کرکے کچھ لوگ ایک خیالی خوف کا ماحول بنانا چاہتے ہیں۔‘‘ انہو ں نے بتایا کہ دھرم سنسد کے مقررین میں سے ایک کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ’’اس سے بڑی کارروائی اور کیا ہوسکتی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا،’’بھارت مذہبی آزادی کے شعبے میں دنیا میں قائدانہ رول ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ مسلم اور مسیحی ممالک بھارت سے سیکھیں کہ مذہبی آزادی کیا ہوتی ہے اور کیسے اس کو برقرار رکھا جاتا ہے۔‘‘
آرایس ایس کا دفاع
پروفیسر اسٹینٹن نے وزیراعظم نریندر مودی کے ہندو قوم پرست تنظیم آر ایس ایس کے ساتھ قریبی روابط پربھی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا،’’آر ایس ایس جب سے قائم ہوئی ہے اس وقت سے نفرت پھیلارہی ہے۔ یہ بنیادی طورپر ایک نازی تنظیم ہے اور درحقیقت ہٹلر کی تعریف و توصیف کرتی ہے۔‘‘
آرایس ایس پر نفرت پھیلانے کے الزام کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں بی جے پی کے رکن پارلیمان پروفیسر سنہا کا کہنا تھا کہ یہ ایک تہذیبی تحریک ہے۔ انہوں نے کہا، ’’زمین سے وابستہ مسلمان بھی یہ جانتے ہیں کہ آر ایس ایس کس طرح لوگوں کو مضبوط بنا رہی ہے۔ اس کی فلاحی اسکیموں میں کسی طرح کی تفریق نہیں برتی جاتی۔‘‘
بیس لاکھ مسلمانوں کو قتل کرنے کی اپیل
بھارت میں اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے اشتعال انگیز تقاریر کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ملک میں ہزاروں فرقہ وارانہ فسادات ہوچکے ہیں اورمسلمانوں کو بعض اوقات ’’قتل عام‘‘ جیسی صورت حال تک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تاہم پہلی مرتبہ کسی ’’دھرم سنسد‘‘ سے مسلمانوں کی نسلی صفائے کی بات کہی گئی اور کہا گیا کہ اگر 20لاکھ مسلمانوں کا قتل عام کردیا جائے تو بقیہ مسلمان بے چوں و چرا ’’ہندو راشٹر‘‘ تسلیم کرلیں گے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ اعلان اس لحاظ سے انتہائی سنگین ہے کہ یہ اپیل عام سادھو سنت یا لیڈر نے نہیں کی بلکہ ملک کے مختلف حصوں کے’’اکھاڑوں‘‘ کے ’’مہامنڈ لیشوروں‘‘ نے کی۔
اکھاڑہ ہندو دھرم کے مختلف مکاتب فکر کے ماننے والوں کا گروپ ہے۔ جسے آٹھویں صدی میں آدی شنکر آچاریہ نے ہندودھرم کے احیاء کے لیے قائم کیا تھا۔ اس وقت 13معروف اکھاڑے ہیں جن کے سربراہ ’’مہامنڈ لیشور‘‘ کہلاتے ہیں اور ہندو ان سے غیر معمولی عقیدت رکھتے ہیں۔
دھرم سنسد کے اپیل کی مذمت
بھارت اور دنیا بھر کے باشعور طبقے نے دھرم سنسد کی اپیلوں کی مذمت کی ہے۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے بھارتی نژاد شہریوں کے 28 مختلف گروپوں نے گزشتہ دنوں ایک ہیش ٹیگ مہم چلائی جس میں مسلمانوں کے قتل عام کی دھمکی دینے والوں کے خلاف نریندر مودی حکومت سے فوری اور سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
اس دوران بھارتی بحریہ کے سابق سربراہ ایڈمرل ایل رام داس نے چیف الیکشن کمشنر سے دھرم سنسد میں تشدد کی اپیل کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
ایڈمرل رام داس نے اپنے خط میں افسوس کا اظہار کیا کہ منافرت انگیز تقاریر کے خلاف متعدد سابق فوجی سربراہوں، سپریم کورٹ کے وکلاء، دانشوروں اور دیگر اہم شخصیات کی طرف سے بھارتی صدر رام ناتھ کووند اور وزیراعظم نریندر مودی سے کارروائی کرنے کی اپیل کا اب تک کوئی جواب نہیں ملا ہے۔
(بشکریہ: ڈی ڈبلیو: یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)