اشتیاق حیدؔر قاسمی سمستی پوری
قائد و میرِشریعت ہم سے رخصت ہو گئے
مرشد و پیرِطریقت ہم سے رخصت ہو گئے
دردِ ملت ، فکرِ دیں میں جو سدا جیتے رہے
آہ وہ ہمدردِ ملت ہم سےرخصت ہو گئے
اس قحط کےدورمیں امت کو جن سے آس تھی
آج وہ شخصِ غنیمت ہم سے رخصت ہو گئے
حق بیانی میں ملامت گر سے نہ خائف ہوئے
پیکرِ جرأت، شجاعت ہم سے رخصت ہو گئے
نسبتیں جن کو ملی حضرت علی کی ذات سے
وہ چراغ و چشمِ منتؒ ہم سے رخصت ہو گئے
دیکھ کران کو خداکی یادآتی تھی ہمیں
صاحبِ پرنورصورت ہم سے رخصت ہو گئے
ہرعمل میں پیروی سنت کی وہ کرتے رہے
حاملِ قرآن و سنت ہم سے رخصت ہو گئے
کفر وباطل کے لیے وہ آہنی شمشیر تھے
ماحیِ بدعات و ظلمت ہم سے رخصت ہو گئے
ذات با برکت تھی ان کی ہم سبھوں کے درمیاں
وہ سراپا پاک طینت ہم سے رخصت ہو گئے
ہم کہاںپائیں گے اب ان کا بدل حیدؔر بتا
گوہرِ نایاب حضرت ہم سے رخصت ہو گئے