تحریر:تولین سنگھ
’نوٹ:تولین سنگھ معروف انگریزی صحافی ہیں ان کا لکھنے کا مخصوص انداز ہے اس مضمون میں اسلاموفوبیا کی مکمل ترجمانی ہے ،اسے ایک نقطہ نظر کے طور پر پیش کیا جارہا ہے ‘
جب نوجوان لڑکیاں حجاب پہننے کا حق مانگتی ہیں تو زمانے کے بارے میں کیا جائے؟ ایسے مذہب کے بارے میں کیا کہا جا ئے، جس نے اپنی بیٹیوں کو سکھایا ہے بچپن سے کہ ان کی غلامی کو غلامی نہیں سمجھ کر آزادی سمجھاجائے؟ خدا کے قریب آنے کا ذریعہ سمجھا جائے۔ میرے ساتھ ہوایہ پچھلے ہفتے کی ایک حجاب میں ملبوس ملیالی طالبہ نےبرکھا دت کےشو میں فخر سے کہاکہ وہ چار سال کی تھی، جب اس نے اپنی امی سے پہلی حجاب پہننے کی اجازت مانگی اور اس کی ماں نے اسے کچھ سال رکنے کو کہا، لیکن وہ بضد رہی اور جب چوتھی کلاس میں داخل ہوئی ، تواس نے حجاب سے اپنا چہرہ ڈھک لیا۔
یہ کہتے ہوئے اس نے یہ بھی اعتراف کیا کہ پہلے اس کا حجاب مختلف قسم کا تھا لیکن اب وہ بالکل وہی حجاب پہنتی ہیں جو عرب ممالک میں خواتین پہنتی ہیں۔ پھر اس نے مسکرا کر کہا، ’یہ حجاب میرے لیے ضروری ہے کیونکہ مجھے یقین ہے کہ جب میں اسے پہنتی ہوں تو اللہ کے قریب ہو جاتی ہوں۔ میرے لیے یہ حجاب اللہ کا قرب حاصل کرنے کا ایک روحانی طریقہ ہے۔‘
اس لڑکی کی باتیں سننے کے بعد میں نے اسے سمجھانا اپنا فرض سمجھا کہ جس چیز کو وہ روحانی سمجھتی ہے وہ افغانستان میں عورتوں کو قید میں رکھنے کا آلہ بن چکی ہے۔ یہ بھی یاد دلایا میں نے کہ جب آئی ایس آئی ایس کی خلافت قائم تھی تو عورتوں کو گولی سے مار دیا جاتا تھا، اگرسڑکوں پر بے نقاب نکلتی تھیں ، تو میں نے یہ بھی کہاکہ میری دادی کے زمانے میں شمالی بھارت کی عورتوں کے لئے پردہ تقریباً لازمی تھا۔ پردہ کو ختم کرکے عورتوں نے آزادی محسوس کی تھی۔
میری باتوں کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا اور نہ ہی ان لڑکیوں پر ان باتوں کا کوئی اثر ہوا جو حجاب کے حق کو قبول کرنے کے لیے کرناٹک میں عدالت گئی ہیں۔ تو کیا ہو رہا ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ اب سعودی عرب میں خواتین کو گاڑی چلانے کا حق دیا جا رہا ہے اور آہستہ آہستہ آزاد کیا جا رہاہے اور اپنے اس بھارت مہان میں برعکس ہو رہاہے ؟
میں ذاتی طور پر کم از کم بیس سال سے جنوبی ہند میں اس تبدیلی کا مشاہدہ کر رہی ہوں۔ ہوا یہ کہ میں اپنے ایک ٹی وی پروگرام کے لیے امتیابھ بچن کا انٹرو کرنے گئی تھی حیدر آباد کی فلم سٹی میں جہاں وہ ’ سوریہ ونشی ‘ نام کی فلم کی شوٹنگ کررہے تھے۔ جس ٹیکسی میں میںان سے ملنے گئی، اس میں ایک میگزن تھا جس کے کور پیچ پر اسامہ بن لادن کی مسکراتی تصویر تھی ۔میں نے جب اس ٹیکسی کے مسلم ڈرائیور سےپوچھا کہ اسامہ کے بارے میںوہ کیا سوچتاہے، تو اس نے بے جھجک کہاکہ اس کے لئےوہ بہت بڑے ہیرو ہیں،کیونکہ اسلام کو بچانے کاکام کررہے ہیں ۔
اس کے بعد میں نے جنوبی ہندوستان میں بڑھتے ہوئے جہادی اسلام کا مشاہدہ کرنا شروع کیا اور معلوم ہوا کہ یہ خواتین جو کبھی ساڑھی پہنتی تھیں، سلوار قمیص میں نظر آتی تھیں اور ان کے سر ہمیشہ ڈھکے رہتے تھے۔ اردو اسکول کھلنے لگے اور نائن الیون کے حملوں کے بعد کیرالہ میں ایسے بہت سے ادارے قائم ہوئے جنہوں نے دہشت پھیلانا شروع کردیا۔
پاپولر فرنٹ آف انڈیا نامی تنظیم نے ایک ٹیچر کا ہاتھ صرف اس لیے کاٹ دیا کہ وہ بچوں کو پیغمبر اسلام کے بارے میں سبق سکھا رہا تھا۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ مٹھی بھر ہندوستانی جو آئی ایس آئی ایس کے عسکریت پسندوں کی فوج میں شامل ہونے کے لیے گئے تھے ان کا تعلق زیادہ تر کیرالہ سے تھا۔
کیا یہ حجاب کا واقعہ اس وہابی اسلامائزیشن کی کڑی ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ مجھے ایسا لگتا ہے، ان چھ لڑکیوں کے پیچھے کون سی طاقتیں ہیں جنہوں نے کرناٹک کے سپریم کورٹ تک پہنچنے میں ان کی مدد کی؟ وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے ان طلباء کو نامور وکلاء کی فیس ادا کرنے میں مدد کی؟
ایسا کیوں ہے کہ اُڈپی کے ایک اسکول سے جو کچھ گھنٹوں میں پورے ملک میں پھیل گیا، اس کے نتیجے میں شمالی ہندوستان کے شہروں میں نقاب پوش خواتین کے مظاہرے ہوئے؟ اگر کرناٹک کے تعلیمی اداروں کے باہر بھگوا پوش نوجوانوں کا ایک گروپ نہ ہوتا تو شاید یہ سارے سوالات اب تک پوچھے جا چکے ہوتے۔
بنیاد پرست اسلام کو پھیلانے کی شاید کوئی بڑی سازش نہ ہو، پھر بھی ہمیں حجاب کی اس لڑائی سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ اس لئے کہ ہمارے ملک کی تہذیب نہیں ہے خواتین کو حجاب پہنانا ۔ ہماری تہذیب پر یہ حملہ ہے اور ہندوستانی اسلام کو تبدیل کرکے ایک نئی خوفناک شکل دینے کی کوشش ہے۔
ہمارے ملک میں اسلام اس قدر لبرل ہوا کرتا تھا کہ کشمیر میں خواتین کبھی سر نہیں ڈھانپتی تھیں اور انہیں مساجد میں نماز پڑھنے کی اجازت تھی۔ آج حالت یہ ہے کہ سری نگر کی گلیوں میں شاید ہی کوئی ایسی عورت نظر آئے گی جو مکمل طور پر برقعے میں لپٹی ہوئی نہ ہو۔ ممبئی میں جہاں برقعے نظر نہیں آتے تھے وہ اب ہر جگہ نظر آنے لگے ہیں اور مسلمان مردوں کی داڑھیاں اب وہی ہیں جو اچھے مسلمانوں کی نشانی سمجھی جاتی ہیں۔
جن دانشوروں نے جہادی اسلام کو سمجھنے کے لیے قریب سے کام کیا ہے ان کا ماننا ہے کہ جہادی سوچ کے پھیلاؤ کی پہلی علامات خواتین کے لباس اور مردوں کی داڑھی میں تبدیلیاں ہیں۔ اس لیے ممکن ہے کہ اس جہادی لڑائی کے پیچھے اور بھی بہت سی باتیں ہوں، بہت سے ایسے نظریات ہوں، جو اس ملک کی بھلائی کے لیے بالکل نہیں۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)