ایڈووکیٹ ابوبکرسباق سبحانی
ہمارا ملک ہندوستان ایک طویل جدوجہد کے بعد 1947 میں انگریز تسلط سے آزاد ہوا، آزادی کے بعد ہمارے قائدین کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ایک ایسے جامع دستور کی تدوین تھا جو ہمارے ملک کے تمام شہریوں کو تحفظ و ترقی کو یقینی بنا سکے، چنانچہ ایک ایسے جامع دستور کی تدوین کی گئی جس میں نظام جمہوریت کے بنیادی ڈھانچے، حکومتی اداروں کے طریقہ کار کے ساتھ ہی دائرہ کار، اختیارات نیز ذمہ داریوں کا تعین، شہریوں کے لئے بنیادی شہری حقوق کے ساتھ ساتھ رہنما اصول کا باب نیز طرز حکومت کو لے کر دنیا کا سب سے زخیم دستور تیار کیا گیا جس دستور کو آج سے ۷۲ سال پہلے 26 نومبر 1949ء کو منظوری حاصل ہوئی، جس کے بعد سے ہر سال ہمارا ملک 26 نومبر کو “یوم دستور” کی شکل میں منایا جاتا ہے۔ دستور ساز اسمبلی نے دستور ہند کو 26 نومبر 1949ء کو اخذ کیا اور 26 جنوری 1950ء کو تنفیذ کی اجازت دے دی۔ دستورِ ہند کے نفاذ کے بعد سے بھارت میں جمہوری طرز حکومت کا آغاز ہوا۔آبادی کے لحاظ سے ہندوستان، دنیاکی سب سے بڑی پارلیمانی، غیرمذہبی جمہوریت کے طور پر جانی جاتی ہے۔
آزادی حاصل ہونے سے قبل ہی دستور کیبنٹ مشن پلان کی تجاویز کے مطابق نومبر1946ء میں قانون ساز اسمبلی وجود میں آئی۔اسمبلی کے ارکان کو منتخب کرنے لئے باقاعدہ انتخاب کرائے گئے۔برٹش انڈیا کی 296نشستوں میں سے 211؍نشستوں پر کانگریس اور 73؍نشستوں پر مسلم لیگ کی جیت ہوئی۔اس طرح اسمبلی نے ایک خود مختار ادارے کی شکل اختیار کرلی جو اپنی مرضی کے مطابق اپنا پسندیدہ آئین وضع اختیار کرسکتی تھی۔دستور سازاسمبلی کا پہلا اجلاس 9؍دسمبر 1946ء کو ہوا جس کے بعد 11؍دسمبر1946ء کو ڈاکٹر راجندر پرشاد اس کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ آئین کو وضع کرنے کے لیے بہت سی کمیٹیاں بھی قائم کی گئی تھیں اور ان کمیٹیوں کی رپورٹ کی بنیاد پر ڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر کی چیئرمین شپ میں 19؍اگست 1947ء کو ایک ڈرافٹنگ کمیٹی وجود میں آئی۔ فروری 1948ء میں اس قانون کا مسودہ (ڈرافٹ )شائع کیا گیا، دستور ساز اسمبلی میں 284 اراکین اسمبلی کی دستخط کے ساتھ دستور ہند کا مسودہ تیار کیا گیا تھا ۔26؍نومبر 1949ء کو آئین کو منظوری دے دی گئی اور اس کا اطلاق 26؍جنوری 1950ء کو ہوا۔ 1950ء سے اب تک اس آئین میں تقریباً 103؍ترمیم ہو چکی ہیں۔
ہمارا ملک زمانہ قدیم سے ہی مختلف قوموں اور مذاہب کا مرکز رہا ہے، یعنی ہمارے ملک میں ایک ایسے دستور کی ضرورت تھی جو نا صرف ہمارے ملک کا طرز حکومت طے کرے بلکہ حکومت اور شہریوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت نیز شہریوں کو حاصل حقوق و مراعات کے ساتھ ساتھ ذمہ داریوں کو بھی باقاعدہ تحریر کیا جائے۔ ہمارے دستور میں تمام شہریوں کے لئے 6 ؍ بنیادی حقوق عطا کیے جواس طرح ہیں، (1) حق مساوات، یعنی کسی بھی شہری کے ساتھ اس کے مذہب و عقیدہ، ذات پات، رنگ و نسل، یا کسی بھی دیگر بنیاد پر تفریق نہیں کی جائے گی۔ (2) حق برائے آزادی یعنی کسی بھی شہری کو یہ حق حاصل نہیں ہوگا کہ وہ کسی بھی شہری پر کسی طرح کی پابندی عائد کرے یا اس کو حاصل شدہ آزادی میں رخنہ ڈالے، انسانی اقدار کے ساتھ ایک باعزت طریقے سے زندگی گزارنے کا حق بھی اسی حق میں شامل ہے۔(3) ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ اس کو ہر طرح کے استحصال سے تحفظ فراہم کیا جائے، (4) ہمارے ملک کا دستور تمام شہریوں کو مذہبی آزادی کا حق فراہم کرتا ہے یعنی کوئی بھی شہری اپنی خواہش اور سمجھ کی بنیاد پر کسی بھی مذہب پر عمل کرسکتا ہے، مذہبی آزادی کے تحت کوئی بھی شہری کسی بھی مذہبی رسم و رواج پر عمل کرسکتا ہے نیز وہ کسی بھی مذہبی تعلیم یا عمل سے انکار بھی کرسکتا ہے۔ (5) ہمارا ملک زمانہ قدیم سے متعدد و متفرق تہذیب و ثقافت کا گہوارہ رہا ہے جو یہاں پر اپنی مختص تہذیب کے ساتھ ہماری تاریخ کا حصہ رہے ہیں، چنانچہ ہمارے ملک کے دستور نے ان تمام ہی شہریوں کو یہ حق فراہم کیا ہے کہ وہ اپنی تہذیب و تمدن کے تحفظ کے لئے اپنے تعلیمی و ثقافتی ادارے نیز رسم و رواج کی پابندی کرنے کا حق رکھتے ہیں نیز حکومت ان کو خاص مراعات فراہم کرنے کی مکلف بنائی گئی ہیں اور (6) اپنے دستوری حقوق کے تحفظ کے لئے ہمارا دستور تمام شہریوں کو قانونی چارہ جوئی کا حق بھی فراہم کرتا ہے، یعنی اگر کسی شہری کے دستوری حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو وہ قانونی چارہ جوئی کرسکتا ہے۔ یہاں یہ ذکر کرنا بھی اہم ہے کہ ہمارا دستور اظہار رائے کی آزادی فراہم کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی دوسرے شہریوں کے مذہبی جذبات و عقائد کو مجروح کرنے کی قطعا ًاجازت نہیں دیتا ہے۔
دستور ہند کے تحت شہریوں پر بھی چند بنیادی فرائض و ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں، ان احکامات و اصول کی پابندی کرنا تمام ہی شہریوں کی دستوری ذمہ داری ہیں، ان شقات کے تحت ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ دستور کا احترام کرے، دستور کے مطابق عمل کرے، اس کے احکام، اداروں، قومی پرچم اور قومی ترانہ کا احترام کرے، ہندوستان کے اقتدار اعلیٰ، اتحاد اور اس کی سا لمیت کا تحفظ و احترام کرے۔ ملک کے تمام شہریوں و تمام قوموں و طبقوں میں اتحاد و اخوت کے جذبات کو فروغ دے، مخلوط ثقافت کی وراثت کی قدر کرے اور اس کا تحفظ کرے، قومی وسرکاری املاک کا تحفظ کرے، ملک و سماج میں کسی بھی قسم کے تشدد سے اجتناب کرے۔
ہمارا دستور ہمارے ملک میں نظام حکومت کے لئے نظام جمہوریت کا انتخاب کرتا ہے، ہمارے نظام جمہوریت میں مذہب کی اہمیت کابھی اعتراف کیا گیا ہے اور دستور میں یہ اصول بنایا گیا ہے کہ ہمارے ملک کی حکومتیں مذہب کی بنیاد پر حکومت نہیں کریں گی، دستور کی روشنی میں ہمارے ملک کو سیکولر اسٹیٹ کہا گیا ہے، جہاں حکومت کی دستوری ذمہ داری ہے کہ ہر مذہب کے تحفظ و احترام کو یقینی بنائے اور مذہب کی بنیاد پر کسی بھی شہری کے ساتھ کسی بھی قسم کا کوئی امتیازی سلوک نہیں کیاجائے گا۔ مذہب یا ذات پات کی بنیاد پر کسی شہری کو اس کے بنیادی حقوق سے محروم نہیں کیا جا ئے گا،دستور کی رو سے ہر شہری قانون کی نگاہ میں برابر ہے، ہر شہری کو آزادیِ رائے، آزادیِ خیال اور آزادیِ مذہب حاصل ہے۔ دستور نے مذہبی و لسانی اقلیتوں کو دستوری تحفظ فراہم کرتے ہوئے دستور میں ان کوحقوق دیے گئے ہیں تا کہ وہ اپنے تعلیمی ادارے قائم کریں، اپنی تہذیب و تمدن، مذہب و زبان کو قائم و محفوظ رکھیں نیز اپنے مذہب کی تبلیغ و اشاعت پوری آزادی کے ساتھ کرسکیں۔
آج ہم سب کے لئے غور کرنے کی بات یہ ہے کہ آخر وہ کیا وجوہات یا اسباب ہیں کہ آزادی حاصل کرنے و آزاد ملک کے دستور کے نفاذ کے ستر دہائیوں سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی ہمارا تحریری شکل میں موجود دنیا کا سب سےضخیم و تفصیلی دستور ہونے کے باوجود ہمارے ملک میں ان دستوری حقوق کی کوئی اہمیت و قدر نہیں ہے؟ آخر کیوں ہمارے ملک میں شہری و دستوری حقوق کی پامالی و خلاف ورزی ایک عام سے بات ہوگئی ہے؟ یقینا ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ دستور میں تحریر کردہ حقوق و مراعات صرف لکھ دینے سے حاصل نہیں ہوسکتے ہیں بلکہ ہمارا دستور ہم سے یہ امید کرتا ہے کہ ہم اپنے ملک و سماج کو ایسا بیدار و ذمہ دارسماج بنائیں جو دستور میں بتائے گئے شہریوں کے حقوق و مراعات کے احترام و تحفظ کو اپنی دستوری و سماجی ذمہ داری سمجھیں، ان حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی و عملی اقدامات کے لئے کوشاں رہیں۔