تحریر:جاوید اختر
راجہ کا ڈنڈا’ یا سینگول کا تنازع گزشتہ سال ہی کھڑا ہوگیا تھا جب وزیر اعظم مودی نے پارلیمان کی نئی عمارت میں اسے نصب کیا تھا۔ ہندو بادشاہت کی علامت سینگول کا تنازع نئی پارلیمان شروع ہونے کے ساتھ مزید شدت اختیار کرگیا ہے۔
سینگول کے تنازعے نے ایک بار پھر سے سر ابھارا جب گزشتہ دنوں سماج وادی پارٹی کے نو منتخب رکن پارلیمان آر کے چودھری نے رکنیت کا حلف اٹھانے کے بعد کہا کہ آئین بھارتی جمہوریت کی علامت ہے جب کہ سینگول بادشاہت کی نشانی ہے۔ اور”ہماری پارلیمان جمہوریت کا مندر ہے، اس میں بادشاہت کے لیے کوئی جگہ نہیں۔”
آر کے چودھری اترپردیش کے موہن لال گنج حلقے سے منتخب ہوئے ہیں، ان کا تعلق دلت طبقے سے ہے۔ انہوں نے منگل کو رکنیت کا حلف اٹھایا تھا۔ حلف لینے کے بعد انہوں نے کہا، "میں درخواست کرتا ہوں کہ سینگول کو ہٹا دیا جائے اور اس کی جگہ آئین کی ایک بڑی نقل لگا دی جائے۔”
سینگول کیا ہے؟
ہندو قوم پرست جماعت حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے اراکین نے چودھری کے بیان پر شدید نکتہ چینی کی۔ انہوں نے کہا کہ سینگول "صداقت” کی علامت ہے۔ بی جے پی نے سماج وادی پارٹی اور اپوزیشن اتحاد ‘انڈیا’ پر بھارتی ثقافت اور تاریخ کو بے عزت کرنے کا الزام لگایا۔تاہم چودھری اپنے بیان پر قائم ہیں۔ انہوں نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "سینگول ایک تمل لفظ ہے، جس کا ہندی ترجمہ ‘راجہ کا ڈنڈا’ ہوتا ہے اور اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ ملک آئین سے چلے گا یا ڈنڈے سے۔”
انہوں نے مزید کہا، "آئین بھارتی جمہوریت کی علامت ہے اور اس لیے بی جے پی حکومت کی طرف سے اسپیکر کی کرسی کے پاس نصب کردہ سینگول کو ہٹادینا چاہئے تاکہ آئین کو بچایا جاسکے۔”
خیال رہے کہ سونے سے مرصع، ہندو مذہبی علامات والے سینگول یا شاہی عصا کو جنوبی بھارت کے ہندو راجاوں کے اقتدار کی علامت قرار دیا جاتا ہے۔ اسے ہندو راجہ شاہی تخت کے پاس نصب کرایا کرتے تھے۔ گزشتہ سال مئی میں جب بھارت کی نئی پارلیمان کا افتتاح ہوا تو وزیر اعظم نریندر مودی نے سینگول کو پورے ہندو مذہبی رسم رواج کے ساتھ اسپیکر کی کرسی کے پاس نصب کیا تھا۔
اپوزیشن جماعتوں اور سول سوسائٹی کے افراد نے اس وقت بھی اس کی سخت مخالفت کی تھی اور اسے بھارت کو ہندو راشٹر کی طرف لے جانے کی بی جے پی کی ایک اور کوشش قرار دیا تھا۔
سینگول پرسیاسی لڑائی تیز
نئی پارلیمان کے افتتاح کے ساتھ ہی بھارت کی اپوزیشن جماعتوں نے آئین کو مقدّم رکھنے کی مہم تیز کردی ہے۔ راہول گاندھی سمیت اپوزیشن کے تقریباً تمام نومنتخب اراکین پارلیمان نے حلف لیتے وقت ہاتھ میں آئین کی کاپی اٹھا رکھی تھی۔ پارلیمان میں بحث کے دوران بھی وہ آئین کی کاپی اٹھائے نظر آئے۔
اپوزیشن کے اس اقدام نے بی جے پی کو پریشانی میں ڈال دیا ہے، جس پر پہلے ہی "آئین کو تبدیل کرنے” کی کوشش کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ حالانکہ بی جے پی ہمیشہ اس کی تردید کرتی ہے۔
چودھری کے بیان پر اترپردیش میں بی جے پی حکومت کے وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا،”سماج وادی پارٹی کو بھارتی تاریخ یا ثقافت کا کوئی احترام نہیں ہے۔ سینگول پر ان کے اعلیٰ رہنماوں کے بیانات ان کی لاعلمی کی نشاندہی کرتے ہیں اور قابل مذمت ہیں۔”
سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے چودھری کے بیان پر براہ راست تبصرہ کرنے سے گریز کیا، تاہم کہا، "ہمارے رکن پارلیمان نے یہ معاملہ غالباً اس لیے اٹھایا کیونکہ وزیر اعظم مودی نے نئی پارلیمنٹ میں سینگول کی تنصیب کے دوران اپنا سرجھکایا تھا لیکن وہ حلف اٹھاتے وقت ایسا کرنا بھول گئے، ہو سکتا ہے ہمارے رکن پارلیمان انہیں اس کی یاد دلا رہے ہوں۔
جمہوریت بمقابلہ بادشاہت؟
متعدد دیگر اپوزیشن اراکین نے بھی چودھری کے بیان کی حمایت کی ہے۔تمل ناڈو سے کانگریس کے رکن پارلیمان مانیکم ٹیگور کا کہنا تھا،”یہ بالکل واضح ہے کہ سینگول بادشاہت کی علامت ہے اور اب بادشاہت کا دور ختم ہو چکا ہے۔ ہمیں جمہوریت اور آئین کا جشن منانا چاہئے۔”
آر جے ڈی کی رکن پارلیمان اور بہار کے سابق وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو کی بیٹی میسا بھارتی نے کہا،”سینگول کو میوزیم میں بھیج دیا جانا چاہئے۔اور جس نے بھی یہ مطالبہ کیا ہے میں اس کا خیر مقدم کرتی ہوں۔”کانگریس کی رکن پارلیمان رینوکا چودھری کا کہنا تھا کہ بی جے پی نے دوسروں کی رائے لیے بغیر سینگول نصب کردیا تھا جب کہ پارلیمنٹ اتفاق رائے سے چلتی ہے۔عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمان سنجے سنگھ نے کہا،”اگر سینگول کو ہٹایا نہیں بھی جاتا ہے تو ایوان میں آئین کی نقل ضرور رکھی جانی چاہئے۔”(سورس:ڈی ڈبلیو)