ایڈووکیٹ ابوبکرسباق سبحانی
آخر کار سیپریم کورٹ آف انڈیا نے تمام صوبوں، مرکز اور پولیس افسران سے ان شہریوں کے خلاف کسی بھی طرح کی قانونی کاروائی کرنے سے منع کیا ہے جو آکسیجن، اسپتالوں میں بیڈ یا ڈاکٹروں کی کمی کی گہار سوشل میڈیا یا انٹرنیٹ پر لگائیں، ایسے کسی بھی شہری کو افواہ پھیلانے کے جرم کا مرتکب نہیں ٹھہرایا جائے، شہری اس وقت سخت بے چینی کا شکار ہیں، اگر آپ ان کو گرفتار کریں گے تو ہم پولیس کے خلاف عدالت کی توہین کا مجرم قرار دیں گے۔ کیا ایک آزاد جمہوری ملک میں ہیلتھ ایمرجنسی کے حالات میں سوشل میڈیا کے ذریعے شہری آپس میں ایک دوسرے سے مدد بھی نہیں مانگ سکتے جب کہ اندازوں کے مطابق گاوں دیہات میں بھی کرونا کا قہر پھیل چکا ہے اور اسپتالوں نے ہاتھ کھڑے کرلئے ہیں۔
اس عالمی وبا نے ہندوستان کے طبی سہولیات و صحت کی دیکھ بھال کے پورے نظام کی کھوکھلی صورت حال کے اوپر سے پردہ اٹھا دیا ہے، ہماری حکومتیں طبی سہولیات کو لے کر کتنی سنجیدہ ہیں اس کا اندازہ لگانے کے لئے 2019-20 کا سالانہ بجٹ ہمیں آئینہ دکھانے کے لئے کافی محسوس ہوتا ہے کیونکہ ہماری پارلیمنٹ نے جی ڈی پی کا صرف 1.29% ہی عوامی صحت کے لئے مختص کیا تھا جو کہ اکثر و بیشتر ممالک کے ہیلتھ کیئربجٹ سے کم تھا۔ صحتعامہ سے متعلق طبی سہولیات کی خستہ حالی کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک یا دستور میں صحت عامہ کو لے کر نہ تو کوئی قانونی پیش رفت ہوئی اور نہ ہی صحت عامہ و طبی سہولیات کو بنیادی حقوق کا درجہ دینے کی کوئی عوامی کوشش یا سماجی جدودجہد ہوئی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے دستور میں ہیلتھ کو صاف الفاظ میں ایک بنیادی حق کا درجہ حاصل نہیں ہے لیکن پبلک ہیلتھ اور شہریوں کے صحت عامہ کو لے کر حکومت کے رول اور فرائض سے متعلق اہم تجاویز موجود ہیں۔ دستور ہند کی باب چہارم میں ریاست کی پالیسی کے ہدایت نامے (ڈائرکٹیو پرنسپلس آف اسٹیٹ پالیسی) میں صحت کے حق کی دستوری بنیاد فراہم کی گئی ہے۔ آرٹیکل(E)39 ریاست کو ہدایت دیتی ہے کہ وہ ورکرس کی صحت کو یقینی بنائے، جب کہ آرٹیکل 42 ریاست کو ہدایت دیتا ہے کہ کام کرنے اور میٹرنیٹی ریلیف کی صورت حال کو انسانی اقدار پر مبنی اور منصفانہ طور پر قائم کریں۔ آرٹیکل 47 کے مطابق ریاست کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ صحت عامہ کے معیار کو بلند کرنے کے لئے شہریوں کے معیار زندگی اور غذا و خوراک کے معیار کو بلند کریں۔ اس کے علاوہ دستور ہند نہ صرف صحت عامہکے نظام کو مضبوط کرنے کی ہدایت دیتا ہے بلکہ پنچایتی نظام اور میونسپلٹیز کو بھی آرٹیکل G 243 کے تحت پبلک ہیلتھ کو مضبوط کرنے کی تاکید کرتا ہے۔
دستور ہند نے ہمارے ملک کے تمام شہریوں کو بنیادی حقوق فراہم کئے ہیں ان حقوق میں سب سے اہم حق آرٹیکل 21 میں فراہم کیا گیا ہے جو کہ حق برائے زندگی اور ذاتی آزادی کےتحفظ سے متعلق ہے۔ سیپریم کورٹ آف انڈیا نے حق برائے زندگی کی تشریح اپنے بہت سے تاریخی فیصلوں میں کی ہے۔ 1983 میں “بندھوا مکتی مورچہ بنام یونین آف انڈیا” کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے صحت کے حق کو آرٹیکل 21 کا حصہ تسلیم کیا ہے جس کے مطابق صحت بھی زندگی کے حق میں شمار ہوتی ہے۔17 دسمبر 1996 میں سپریم کورٹ آف انڈیا نے“اسٹیٹ آف پنجاب بنام موہندر سنگھ چاولا” کے فیصلے میں ایک بار پھر صاف الفاظ میں کہا کہ” صحت کا حق آرٹیکل ۲۱ کے حق برائے زندگی کے بنیادی حق کا ایک اہم حصہ ہے اور حکومت کی یہ دستوری ذمہ داری ہے کی وہ صحت کی ضروری سہولیات فراہم کرے”۔ 26 فروری 1998 میں ایک بار پھر سپریم کورٹ آف انڈیا نے “اسٹیٹ آف پنجاب بنام رام لوبھایا بگا و دیگر” کے فیصلے میں مزید تاکید کے ساتھ کہا کہ “ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ہیلتھ (یعنی طبی) سہولیات کو منظم کرے۔
دستور کے ساتویں شیڈول کے تحت پبلک ہیلتھ اور صفائی، اسپتالوں اور ڈسپینسریوں کا نظم و نسق کی ذمہ داری صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار میںدی گئی ہے، یعنی صحت عامہ سے متعلق سہولیات فراہم کرنا، قوانین و ضوابط کو بنانا، اور ان کا نفاذ کرنا صوبائی حکومتوں کی دستوری ذمہ داری ہے، یہی وجہ ہے کہ کرونا کی عالمی وبا کے دوران مہاراشٹر اور دہلی کی حکومتوں نے “دی اپیڈیمک ڈیسیز ایکٹ 1897” کا نفاذ کیا جب کہ مرکزی حکومت نے اپنے مخصوص اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے “نیشنل ڈیزازٹر مینیجمنٹ ایکٹ 2005 “ کا اطلاق زیر عمل لائی۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں عوامی صحت یا طبی سہولیات کو کبھی بھی بنیادی اہمیت نہیں دی گئی، ہمارے سامنے تمام حقائق موجود ہیں کہ سرکاری اسپتالوں کی صورت حال کیا رہی ہے، سرکاری اسکولوں اور تعلیمی اداروں کی خستہ حالی کو سامنے رکھ کر تعلیمی نظام اور سہولیات کو لے کر جب ہمارے ملک میں سنجیدہ کوششیں ہوئیں تو دستور میں 93 ویں ترمیم کے ساتھ ہی تعلیم کو دستوری بنیادی حق کا درجہ دیا گیا، آج تعلیم حاصل کرنا اور سرکاری اسکول کے بچوں کی صحت کو بہتر بنانے کے لئے مڈڈے میل اور دیگر تعلیمی پروگرام حکومت نے بنائے جب کہ دوسری طرف طبی سہولیات کو بنیادی حق کا کوئی درجہ نہیں دیا گیا اور نہ ہی کوئی سنجیدگی دکھائی گئی یہی وجہ ہے کہ دہلی حکومت بھی آکسیجن پلانٹ لگانے یا پہلے سے آکسیجن اور ادویات کی دستیابی کے لئے کسی بھی طرح کے عملی اقدامات میں ناکام رہی۔ دہلی ہائی کورٹ نے کرونا بیماری میں دہلی نیز مرکزی حکومت کی ناکامیوں کو قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ “شہریوں کی زندگی کے حق کے تحفظ میں اسٹیٹ ناکام ہوگیا ہے، ہم سب ناکام ہوگئے ہیں”۔
کرونا کی اس عالمی وبا کے دوران ہی الیکشن اور الیکشن ریلیاں ملک کے پانچ صوبوں میں پورے زور شور سے ہوتی رہیں، یوپی کے پنچایتی الیکشن کے دوران ۱۳۵ الیکشن ڈیوٹی اسٹاف کی کرونا سے موت پر الہ آباد ہائی کورٹ نے صوبائی الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کیا وہیں ملک کے مختلف ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے بھی الیکشن کمیشن کے خلاف سخت رخ اختیار کرتے ہوئے جواب مانگا کہ آخر الیکشن کمیشن کے خلاف سخت کاروائی کیوں نہ ہو جب کہ مدراس ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے افسران کے لاپرواہی کرنے کی وجہ سے ان کے اوپر قتل کے مقدمات کیوں نہ چلائے جائیں۔
آج اگر ہمارے ملک کا نظام صحت پوری طرح ناکام ہوچکا ہے، نہ صرف علاج کی سہولیات کی کمی ہےبلکہ حکومت کی روش بھی ایک جمہوری ملک کے لئے تشویشناک ہے، آج حکومتیں اتنی ناکام ہوگئی ہیں کہ مریضوں کو اسپتال میں بیڈ ہی نہیں اسپتال کے باہر بھی مریضوں کو آکسیجن دستیاب نہیں ہے، آکسیجن فراہم نا ہونے کی وجہ سے مریض اسپتال اور گھروں میں دم توڑ رہے ہیں، یہاں تک کہ بخار، کھانسی اور زکام کی ادویات کے ساتھ وٹامن کی گولیاں اور انجکشن بھی کالا بازاری اور کوئی منظم منصوبہ موجود نہ ہونے کی وجہ سے قلت کا شکار ہیں۔ یہ ساری دوائیں اپنی اصل قیمت سے کئی گنا زیادہ قیمت پر فروخت کی جارہی ہیں، جب کہ ایسے نازک اور ایمرجینسی کے حالات میں یہ دوائیں حکومت کی جانب سے مفت یا سبسڈی پر دستیاب ہونی چاہیے تھیں، ان ادویات اور آکسیجن کی محدود فراہمی کی وجہ سے ان کی بلیک مارکیٹنگ پورے زورشور سے چل رہی ہے جب کہ حکومت اس پر روک تھام کرنے میں پوری طرح ناکام ہورہی ہے۔
ہمارے سامنے انسانیت سسک کر دم توڑ رہی ہے، حکومتیں کرونا وبا سے متعلق اعدادو شمار ایمانداری سے پیش نہیں کررہی ہیں، گزشتہ ایک سال سے کرونا بیماری کے مہلک اثرات ہمارے سامنے ہیں، حکومتیں اس بیماری سے لڑنے کی تیاری کرنے کے بجائے عوام کے ذریعے دیئے گئے ٹیکس کو عوام کی طبی سہولیات پر خرچ کرنے کے بجائے ہزاروں کروڑ روپے اپنے جھوٹے دعووں سے بھرے اشتہارات پر خرچ کررہی تھیں۔ آج ہمارے سامنے یہ بڑا سوال ہے کہ کیا حکومت یا حکومت کے متعلقہ افسران اپنی اس ناکامی کے لئے جواب دہ ہیں یا نہیں۔ کیا ان حکومتوں سے یہ سوال نہیں ہونا چاہیے کہ آپ نے کرونا سے لڑنے کے لئے طبی سہولیات کو بہتر بنانے کی کیا کوششیں کیں، مرکزی و خصوصا صوبائی حکومتوں نے طبی سہولیات پر کتنی رقم خرچ کیں اور اشتہارات پر عوام کی کتنی رقم برباد کی ہیں؟ کیا کسی کی قانونی و دستوری جوابدہی طے ہوگی؟