| افتخار گیلانی
فلسطینی علاقے غازہ پر اسرائیل کی مسلسل بمباری اور اس کے نتیجے میں ہوئی ہلاکتوں و تباہی کے سبب فی الحال اس نئے قضیہ کے محرک یعنی مشرقی بیت المقدس (یروشلم)کے عرب اکثریتی علاقہ شیخ جراح سے فلسطینی خاندانوں کا بزور انخلا اور پھر رمضان کی ستائیسویں شب کو شب قدر کے موقع پر مسجد الاقصیٰ میں عبادت کرتے نمازیوں پر حملہ دب تو گئے ہیں۔مگر اسرائیل جس طرح اس مقدس شہر کا آبادیاتی تناسب اور اس کی پوزیشن تبدیل کرنے پر تلا ہوا ہے، وہ شاید ہی اس خطے میں امن و امان بحال ہونے دےگا۔سن 1967کی چھ روزہ جنگ کے بعدجب اسرائیل نے اس شہر کا مکمل کنٹرول حاصل کیا تو اس نے جوں کی توں پوزیشن رکھنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔مگر کچھ عرصے سے وہ اس کی صریح خلاف ورزی کرتا آیا ہے۔
خود اسرائیلی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق 1844میں اس شہر میں محض 7120یہودی آباد تھے۔ جن کی تعداد 1931میں 51222اور پھر 1948 میں اسرائیل کے قیام کے وقت ایک لاکھ ہوگئی۔1967 کی جنگ کے وقت یہودیوں کی آبادی 195700ریکارڈ کی گئی تھی۔مگر 2016 میں کی گئی مردم شماری کے مطابق اب یہودیوں کی تعداد 536600ہے۔
اس شہر میں سرکاری طور پر مسلمانوں کو بے دخل کرنے اور یہودیوں کو آباد کرنے کا سلسلہ تیز تر ہوگیا ہے۔ اس وقت شہر کی61فیصد آبادی اب یہودیوں پر مشتمل ہے اور مسلمان، جو ایک وقت اکثریت میں ہوتے تھے، اب محض 36فیصد رہ گئے ہیں۔اس شہر کا آبادیاتی تناسب بگاڑنے کے لیےآئے دن اسرائیل نت نئے قوانین نافذ کر تا آیا ہے۔
اگر کوئی مسلمان عورت شہر سے باہر شادی کرتی ہے تو اس کی یروشلم کی شہریت ختم ہو جاتی ہے۔ یہ ان لوگوں کا قانون ہے جو جنسی برابری، خواتین کے حقوق اور آزادی کے علَمبردار ہیں۔چند سال قبل جب مجھے یروشلم جانے اور مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے کا شرف حاصل ہواتو انہی دنوں اس شہر میں مقیم ایک عرب خاندان اپنے عزیز کی شادی میں شرکت کے لیے شہر سے باہر گیا ہوا تھا۔ واپس آئے تو پرانے شہر میں واقع گھر کے دروازے کھلے ملے اور اندر ایک یہودی خاندان قیام پذیر تھا۔ ان کا پورا سازوسامان گلی میں پڑا تھا۔ معلوم ہوا کہ ان کی غیر موجودگی میں حکومت نے ان کا یہ آبائی گھر یہودی خاندان کو الاٹ کر دیا ہے۔
یہ واقعات پچھلے کئی سالوں اس شہر میں مسلسل دہرائے جار ہے تھے۔یہی کچھ حال ہی میں شیخ جراح میں مکین فلسطینیوں کے ساتھ ہو رہا تھا، جس کی وجہ سے یہ علاقہ اسرائیل کے توسیع پسندانہ منصوبے کا نْقطہ اِشتعال بن گیا۔ ایک پرسکون اور خوشحال علاقہ شیخ جراح جبل المشارف نامی پہاڑی پر آباد ہے اور اس پہاڑی سے بیت المقدس کا نظارہ بخوبی کیا جاسکتا ہے۔اس کی موجودہ آبادی کا زیادہ تر حصہ 1948 میں یروشلم کے تلبیہ علاقے سے بےدخل کیے گئے فلسطینی پناہ گزینوں پر مشتمل ہے۔
فلسطینی 1948 کی جبری بے دخلی کو ’نکبہ‘ یعنی تباہی کا نام دیتے ہیں کیونکہ 1947 سے 1949 کے درمیان فلسطین کی 80 فیصد مقامی آبادی کو ہٹانے اور جبری طور پر جلاوطن کرنے کا عمل شروع ہوا تھا۔اس جبری انخلاء پر احتجاج کرنے کے لیےفلسطینی شہری گھروں سے نکل آئے اور احتجاج کرنے لگے، جنہیں منتشر کرنے کے لیے اسرائیلی پولیس نے طاقت کا استعمال کیا۔
شیخ جراح کے باشندوں کا کہنا ہے کہ اس کالونی کے ساتھ ان کی میراث وابستہ ہے اور وہ اس کو کسی بھی صورت میں خالی کرکے یہودیوں کو نہیں دیں گے۔دوسری طرف یہودی آباد کاروں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے شیخ جراح میں فلسطینیوں سے اراضی اور املاک خرید رکھی ہیں اور یہ املاک ایک یہودی تنظیم کی ملکیت ہیں۔ 1972 میں ایک یہودی تنظیم نے دعویٰ کیا تھاکہ اس کے پاس شیخ جراح کی اراضی کے ملکیتی ثبوت اور دستاویزات ہیں اور ان کی اراضی پر فلسطینیوں نے مکان تعمیر کر رکھے ہیں۔اشکنازی اور السفاردیم نامی یہودی کمیٹیوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس شیخ جراح کی زمین اور املاک کے مالکانہ حقوق کی دستاویزات ہیں جو 19 ویں صدی کے آخری دور کی ہیں۔تاہم اردن نے اس دعویٰ کو مسترد کر دیا ہے۔چونکہ 1967 تک اس علاقہ پر اردن کا کنٹرول تھا، اس لیے زمین، جائیداد کے سرکاری ریکارڈ بھی اردن کے دارالحکومت عمان کے محافظ خانہ میں ہیں۔پہلے اسرائیلی حکومت کا کہنا تھا کہ اس کا اس قضیہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور یہ دو پرائیوٹ پارٹیوں کے درمیان عدالتی مقدمہ ہے۔
مگر جب اردن نے اس علاقے کی دستاویزات فلسطینی اتھارٹی کے سپرد کردیے تو اسرائیلی حکومت نے عدالت سے اس کی سماعت کو مؤخر کرنے کی استدعا کی۔پچھلی پانچ دہائیوں کے دوران شیخ جراح کے اندر اور اس سے متصل متعدد اسرائیلی بستیاں تعمیر کی گئی ہیں۔اس علاقہ میں عثمانیہ دور کا ایک محل بھی ہے جسے اب ہوٹل میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ الجراحی صلاح الدین ایوبی کے ایک گورنر یا طبیب تھے۔ انہوں یہ جگہ وقف کی تھی اور وہ خود 1202 میں وفات پا گئے تھے۔ وہی یہاں مدفون ہیں۔سابق امریکی صدر ٹرمپ، یورپی یونین، ان کے عرب حلیف اور اسرائیل نے ڈیل آف سنچری کے نام سے جس فارمولہ کو فلسطینیوں پر تھوپنے کی کوشش کی، اس سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہونا ہی تھا۔ چند سا قبل ایک یہودی عالم ڈیوڈ روزن نے راقم کو بتایا تھا تمام تر جارحانہ کارروائیوں کے باوجود یہودیوں اور اسرائیلی حکام کو اس حقیقت کا ادراک ہو گیا ہے کہ وہ ناقابل تسخیر نہیں ہیں۔ویسے تو اس کا اندازہ 1973کی جنگ مصر اور بعد میں 2006میں جنگ لبنان کے موقع پر ہی ہوگیا تھا، مگر حالیہ کچھ عرصے سے یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے۔اس لیے دنیا بھر کے یہودی چاہتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ تاریخ کا پہیہ کوئی اور رخ اختیار کرے، اسرائیل کی سرحدوں کا تعین کرکے، زیادہ سے زیادہ علاقے ہتھیا کر ان میں یہودی بستیوں کو بسا کر پڑوسی ممالک سے اس کا وجود تسلیم کرایا جائے۔ ٹرمپ اور ان کے معاونین کے فارمولہ، جس کو مو جودہ صدر جوائے بائیڈن کی بھی حمایت حاصل ہے کے مطابق فلسطینی مہاجرین کی اپنے گھروں کی واپسی کا معاملہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائےگا۔یا تو ان کو اس نئی کرم خوردہ فلسطینی اسٹیٹ میں رہنا ہوگا یا جس ملک میں مقیم ہیں وہیں ضم ہوکر ہمیشہ کے لیے اپنی فلسطینی شناخت کو خیر باد کرنا پڑےگا۔سن 1993میں اوسلو میں اسرائیلی اور فلسطینی قیادت کے درمیان طے پائے گئے سمجھوتہ میں ایک فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا تھا اور 4 ملین کی آبادی کو دو خطوں مشرق میں غازہ اور اردن کی سرحد سے متصل مغربی کنارہ میں تقسیم کیا گیا۔
نسبتاً وسیع مغربی کنارہ کا انتظام الفتح کی قیادت والے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن یعنی پی ایل او کے پاس ہے، وہیں غاز ہ میں اسلامک گروپ حمص بر سر اقتدار ہے۔ جہان پی ایل او اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے، حمص فلسطینی بستیوں میں بسائی گئی یہودی ریاست کے وجود سے انکاری ہے۔اس فارمولہ کے مطابق القدس یایروشلم شہرکا کنٹرول اسرائیل کے پاس ہی رہےگا۔ شہر میں مکین عرب مسلمان اسرائیل کے بجائے فلسطین کے شہری ہوں گے۔ ان کی بہبود،تعلیم و صحت کے لیے نئی فلسطینی اسٹیٹ اسرائیلی بلدیہ کو رقوم فراہم کرے گی۔الاقصیٰ حرم پر جو ں کی توں پوزیشن برقرار رہےگی، یعنی یہ بدستور اردن کے اوقاف کے زیر نگرانی رہےگا۔ ویسے سعودی عرب اس کے کنٹرول کا متمنی تھا تاکہ ریاض میں موجود فرمانراو سبھی تین حرمین یعنی مکہ، مدینہ و مسجد اقصیٰ کے متولی یا خادم قرار پائیں۔ جس طرح اسی سال مارچ میں اردن کے ولی عہد شہزادہ حسن بن عبداللہ کو سیکورٹی کے بہانے مسجد الاقصیٰ کا دورہ کرنے سے روک دیا گیا، اس سے لگتا ہے کہ اسرائیل اب اس مقدس عبادت گا ہ کو کنٹرول کرکے اس کو یہودیوں کے حوالے کرنے کا خواہاں ہے اسرائیل مسجد اقصیٰ کے تہہ خانہ تک رسائی کا خواہشمند ہے۔ جس کے لیے اس نے مغربی سرے پر کھدائی بھی کی ہے تاکہ وہاں تک پہنچنے کے لیے مسجدکی دیواروں کے نیچے سے ایک ٹنل بنا سکے۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ تہہ خانہ میں ہی معبد سلمان کے کھنڈرات موجود ہیں۔
الاقصیٰ حرم یا کمپاؤنڈ کے وسط میں قبتہ الصخرہ یا Dome of Rock ہے۔یہ دراصل ایک بڑی چٹان ہے جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ پیغمبر محمدیہیں سے معراج کے سفر پر تشریف لے گئے اور یہیں انھوں نے دیگر پیغمبروں کی امامت کرکے نماز پڑھائی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور دیگر پیغمبروں نے بھی یہاں قیام کیا ہے۔بظاہر لگتا ہے کہ چٹان کو کاٹ کر نیچے ایک خلا میں جانے کا راستہ بنایا گیا ہے جہاں پر زائرین دورکعت نفل نماز پڑھتے ہیں۔کہتے ہیں کہ پیغمبر محمدکے معراج پر جاتے ہوئے یہ چٹان بھی اوپر اٹھ گئی تا آنکہ اس کو ٹھہرنے کا حکم ہوا۔ تب سے یہ چٹان اسی پوزیشن میں ہے اور اس کے نیچے ایک خلا پیدا ہو گیا۔ واللہ اعلم بالصواب۔
حضرت عمر فاروق جب اس شہر میں داخل ہوئے تو اس مقام پر بس چند کھنڈ ر باقی تھے۔ ہیکل سلیمانی کب کا تباہ ہو چکا تھا۔ اس چٹان کے شمال میں جہاں اس وقت چاندی کے گنبد والی مسجد ہے بس ایک چبوترہ بچا تھا، جو ابھی بھی مسجد کے تہہ خانے میں موجود ہے۔بتایا جاتا ہے کہ یہی قبلہ اوّل ہے۔ یہیں محراب مریم بھی ہے،جہاں حضرت جبریل ان کے رْوبرو حاضر ہوئے۔ اس تہہ خانے میں مسیحی دور کی یادیں بھی تازہ ہیں، جب صلیبیوں نے88 برسوں تک اس کو ایک اصطبل بنایا تھا۔ ستونوں میں گھوڑوں کو باندھنے کے لیے گاڑی گئی میخوں کے نشانات ابھی بھی واضح ہیں۔یروشلم سے باہر غازہ یا مغربی کنارہ میں رہنے والے فلسطینیوں کے لیے اسرائیل نے مسجد الاقصیٰ تک رسائی بند کر دی ہے۔ مغربی کنارہ میں موجود حضرت عیسیٰ کی جائے پیدائش بیت اللعم کے چرچ آف نیٹیوٹی یا کنیستہ المھد اور یروشلم کے درمیان مشکل سے 10کیلومیٹر کا فاصلہ ہے، مگر وہاں کے مکینوں کے لیےیہ صدیوں پر محیط ہے۔ وہ اسرائیلوں کی اجازت کے بغیر یروشلم نہیں جاسکتے ہیں۔ وہ صرف دور سے اس شہر کو دیکھ سکتے ہیں۔اقوام متحدہ کے زیر انتظام ایک اسکول کے استاد نے مجھے بتایا کہ 14سال قبل وہ ایک بار یروشلم گئے تھے اور مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کی تھی۔
اسرائیلی حکومت نے فلسطینی علاقوں کو محصور کرکے ایک مضبوط دیوار کھڑی کی ہے۔ یروشلم سے بحر میت جانے کے لیےیہودیوں اور فلسطینیوں کے لیے دو الگ راستہ بنائے گئے ہیں اوران کے بیچ میں اونچی دیوار ہے۔ یہ نسل پرستی کا ایک بد ترین مظاہرہ ہے۔
خیر کسی بھی تحریک میں شارٹ کٹ کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے استقامت ضروری ہے۔ اپنے آپ کو مضبوط بنانا اور زیادہ سے زیادہ حلیف بنانا بھی تحریک کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ تاریخ کا پہیہ سست ہی سہی مگر گھومتا رہتا ہے۔تاریخ یہ بھی سکھاتی ہے کہ کمزور اور طاقت ور کے درمیان کوئی ایگریمنٹ دیرپا نہیں ہو سکتاہے۔ مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے بھی سیاسی لحاظ سے مضبوط ہونا لازمی ہے۔