زینت اختر
نئی دہلی
یہ پروپیگنڈہ اس قدر شدید تھا کہ ایک عام مسلمان کے لیے اپنے گھر سے باہر قدم رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔ اس کے نتیجے میں دہلی پولیس نے لاک ڈاؤن کی وجہ سے تبلیغی مرکز میں پھنسے لوگوں کے ساتھ، جس طرح کا ناروا سلوک کیا تھا، میں ان تمام چیزوں کی عینی شاہد ہوں۔ ان واقعات کو گزرے ہوئے ایک سال کا عرصہ ہو چکا ہے، مگر آج بھی وہ نظروں کے سامنے گھوم جاتے ہیں۔ اس وقت کورونا وائرس کی دوسری لہر نے بھارت میں ایک قیامت صغریٰ برپا کر رکھی ہے۔ سین وہی ہیں، مگر ایکشن تبدیل ہوئے ہیں۔ وہی مسلمان جنہیں کورونا کے پھیلاؤ کا ”مجرم‘‘ بنا کر نشانہ بنایا گیا تھا آج وہی ان کے لیے ”مسیحا“ ثابت ہو رہے ہیں۔ یہ اپنے مدارس، مساجد اور اسکول کووڈ مریضوں کے اسپتالوں میں تبدیل کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ان ہندوؤں کی آخری رسومات بھی ادا کر رہے ہیں، جنہیں ان کے انتہائی عزیز کووڈ کے خوف سے لاوارث چھوڑ دیتے ہیں۔
یہ گزشتہ سال کی ان تلخ یادوں کو فراموش کر کے دل و جان سے کووڈ متاثرین کی ہر طرح سے مدد کر رہے ہیں، حالانکہ مین اسٹریم میڈیا نے کردار کش مہم چلا کر مسلمانوں کے دلوں کو لہو لہان کر دیا تھا۔ اس مہم میں اسے حکومتی حلقوں کی بھی تائید حاصل تھی۔ تبلیغی جماعت جسے سب سے زیادہ نشانہ بنایا گیا اور اس کی آڑ میں پورے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کا کام کیا گیا تھا۔
لیکن آج اسی جماعت سے وابستہ افراد اور دیگر مسلمان اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر اپنے ہندو بھائیوں کی باوقار طریقہ سے آخری رسومات ادا کرنے کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ میں اس سلسلے میں یہاں کچھ مثالیں پیش کرنا چاہوں گی تاکہ ڈی ڈبلیو کے قارئین کو اس بارے میں ایک اندازہ ہو جائے کہ بھارت میں انسانیت کیسے سسک رہی ہے اور موت کا خوف کیسے خونی رشتوں کو ختم کر رہا ہے!
جنوبی بھارت میں ہندوؤں کے مقدس شہر تروپتی کے ایک سرکاری ہسپتال میں جب 26 سالہ کے دامودر ریڈی کووڈ کے خلاف زندگی کی جنگ ہار گیا تو اس کے خاندان کا کوئی ایک فرد بھی اس کی نعش لینے کے لیے نہیں آیا۔ چنانچہ جب یہ بات ایک مسلم تنظیم ’کووڈ جوائنٹ ایکشن کمیٹی‘ کو معلوم ہوئی تو انہوں نے ریڈی کی آخری رسومات ہندو دھرم کے مطابق ادا کر دیں۔
اسی طرح اسی شہر کے ایک مسیحی مذہبی رہنما پیسٹر ویٹی ڈاسو کی کووڈ سے موت واقع ہوئی تو ان کے خاندان سے بھی کوئی لاش لینے کے لیے نہیں آیا۔ ایکشن کمیٹی کے ارکان نے پیسٹر کی تدفین ان کے مذہب کے مطابق کی۔ یہ ایکشن کمیٹی تبلیغی جماعت سے وابستہ 60 سے زائد ارکان پر مشتمل ہے، جس نے اب تک 560 غیر مسلموں کی آخری رسومات انجام دی ہیں۔ ایکشن کمیٹی کے صدر شیخ امام کے بقول بحیثیت مسلمان یہ ان کا انسانی فریضہ ہے۔
اسی طرح مغربی صوبہ مہاراشٹر کے ضلع ایوت محل میں چار مسلم نوجوانوں اب تک 800 سے زائد غیر مسلموں کی آخری رسومات ادا کرنے کا فریضہ انجام دے چکے ہیں۔ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ایسے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔ بلاشبہ لاوارث لاشوں کی آخری رسومات ادا کرنا بڑی ہمت کا کام ہے، وہ بھی اس حالت میں جب خود لواحقین اپنی میتوں کو چھوڑ کر بھاگ جائیں یا دریاؤں میں بہا دیں۔
کووڈ کی دہشت اور خوف کا یہ عالم ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے اترپردیش میں سو سے زائد لاشیں بغیر کسی آخری رسومات کے دریائے گنگا میں بہا دی گئیں یعنی مرنے کے بعد بھی یہ لوگ انسانی تکریم سے محروم رہے۔ تاہم سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس انسانیت سوز واقعے پر ملک میں رسمی غم و غصہ کے اظہار کے سوا کچھ نہیں ہوا۔ نہ حکومت کے کسی عامل کی باز پرس ہوئی نہ کسی کو استعفیٰ دینا پڑا، جیسے یہ واقعہ ایک عام نوعیت کا کوئی معاملہ ہو۔
اس وقت پورے ملک میں مسلمان کمیونٹی انفرادی اور اجتماعی ہر دو سطح پر وبا سے متاثرین کو مدد پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ بھارت کے وسطی شہر ناگپور میں ایک ٹرانسپورٹر پیارے خان نے 85 لاکھ روپے خرچ کر کے شہر اور اس کے اطراف کے علاقوں کے تمام اسپتالوں میں آکسیجن پہنچائی ہے۔ وہیں جماعت اسلامی ہند نے یہاں ایک سو بیڈ کا ایک اسپتال تعمیر کیا۔ یہ وہی شہر ہے، جہاں آر ایس ایس کا ہیڈ کوراٹر ہے، جو بھارت کی ہندو قوم پرست حکمراں جماعت کی مربی اور سرپرست ہے۔ یہ شہر اس وقت وباکی سخت گرفت میں ہے۔
اسی طرح ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں مسلمان انفرادی یا تنظیمی سطح پر آکسیجن فراہمی کا انتظام کر رہے ہیں۔ راجستھان کے سجان گڑھ میں ریٹائرڈ فوجی افسر سکندر خان مسلم مہاسبھا تنظیم کے تحت وبامتاثرین کی ہر طرح کی مدد فراہم کر رہے ہیں۔ جماعت اسلامی نے طلبہ تنظیم اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن سے مل کر ملک گیر نوعیت کی کووڈ ریلیف ٹاسک فورس بنائی ہے، جس میں ایک ہزار سے زیادہ رضاکار پورے ملک میں سرگرم عمل ہیں۔ دہلی میں اس سلسلہ میں ایک کنٹرول روم بنایا گیا ہے۔ یہ ٹاسک فورس لوگوں کو آکسیجن، بیڈ، پلازمہ، دوائیں وغیرہ کے سلسلہ میں بروقت معلومات فراہم کرتی ہے۔
ویسے بھارت میں کورنا وائرس کی تباہ کن وباء پھوٹنے کے لیے وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں وفاقی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ دنیا کے مشہور جریدے لانسیٹ نے بھی براہ راست اس کے لیے بھارتی وزیراعظم کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔
ملک کے طبی نظام کا کھوکھلا پن پوری دنیا پر آشکار ہو چکا ہے۔ اس وقت ہسپتالوں میں بستروں اور آکسیجن کی اس قدر قلت ہے کہ اسی سبب اموات کی شرح بڑھ رہی ہے، لاشوں کے رکھنے کی جگہ نہیں ہے اور لاشیں گھروں میں سڑنے لگی ہیں۔ ایسے میں مسلمان تنظیموں کا کردار واقعی قابل ستائش ہے۔
(بشکریہ: ڈی بلیو)