تحریر : مسعود جاوید
با اخلاق، مہذب اور شائستہ ہونے کی پہچان آب کے انداز تخاطب سے کی جاتی ہے۔ الفاظ، مفردات اور اصطلاحات کا انتخاب آپ کی شخصیت، ذہنی بالیدگی اور تعلیم و ثقافت کا مظہر ہوتا ہے۔ آپ کا انداز تخاطب، طریقہ تکلم اور اسلوب تحریر آپ اور آپ کے خاندان کا تعارف کراتے ہیں۔
اخلاقیات، تہذیب اور شائستگی کے لئے ہمیں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ آقائے نامدار محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انداز تکلم پر غور کریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہے کہ مجلس میں بیٹھا شخص سے غلطی سرزد ہوئی ہے ایسی غلطی جو آپ کو بہت ناگوار گزری ہے مگر اس پر نکیر کرنے کا اسلوب ملاحظہ کریں آپ کہتے ہیں ’’کیا ہوگیا ہے لوگوں کو کہ وہ ایسی حرکتیں کرتے ہیں‘‘۔ خاطی تک سرزنش کا میسیج پہنچ گیا اور محفل میں اس کی سبکی بھی نہ ہوئی اس کی عزت نفس مجروح نہیں ہوا کسی کو پتہ بھی نہیں چلا کہ مخاطب کون ہے۔
ایسے موقعوں پر ضمیر حاضر سکنڈ پرسن کی جگہ ضمیر غائب تھرڈ پرسن کا استعمال مہذب طریقہ اور شائستہ انداز تخاطب ہے۔’آپ لوگ ایسا کرتے ہیں اور یہ سراسر غلط ہے’ کی بجائے ’بعض لوگ ایسا کرتے ہیں جو کہ سراسر غلط ہے‘ کہنا مہذب طریقہ ہے۔
اسی طرح کسی کی ذاتیات پر نام لے کر کیچڑ اچھالنا اور برہنہ گفتاری اخلاقیات کے اصول کے خلاف ہے۔
مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی صاحب سے اور ان کی سیاسی سرگرمیوں سے اختلاف رائے کا اظہار کا حق ہے لیکن احترام الرأي والرأي الاخر کے دائرے میں۔
مجلس اتحاد المسلمین کی انتخابی سرگرمیاں بالخصوص اس وقت اتر پردیش میں موضوع بحث ہے۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی اپنی نمائندگی ضروری ہے اس لئے مجلس کی تائید کی جائے تو دوسرا نظریہ یہ ہے کہ اس وقت سب سے اہم یہ ہے کہ بی جے پی کو حکومت سازی سے روکا جائے خواہ اس کے لئے مجلس کی تائید سے پیچھے ہٹنا پڑے۔ تیسرا نظریہ یہ ہے کہ آخر کب تک بی جے پی کو روکنے کے نام پر ہم اپنی سیاسی قیادت سے محروم رہیں۔
لیکن سماجوادی پارٹی کے مسلم کارکنان اور بہی خواہان کا یہ رویہ قطعاً مناسب نہیں ہے کہ ان پر بزدلانہ حملے کی مذمت کی بجائے اویسی صاحب کے خلاف طرح طرح کی باتیں کی جائے۔ اویسی صاحب یا کسی بھی سیاسی شخصیت پر حملہ جمہوریت پر حملہ کے مترادف ہے۔
مذہب یا ذات برادری اور علاقائیت کے نام پر کسی گروہ کو یرغمال نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ جمہوری نظام میں ہر رائے دہندہ کو یہ حق حاصل ہے کہ ملک و قوم کے مفاد میں اپنی صواب دید پر جسے چاہے ووٹ کرے ۔ لیکن شاہ سے زیادہ شاہ پرست بننا بغض و عناد کا عندیہ دیتا ہے۔
کسی ملی قائد کی خوبیوں کو یکسر نظر انداز کرنا اور صرف ان کی خامیوں کو اجاگر کرنا کور چشمی ہے۔ ہاں حالات کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان سے اختلاف کرنا عیب نہیں ہے۔
ہم ’ اندھ بھکت‘ کی اصطلاح ایک مخصوص نظریہ بالخصوص فرقہ پرست عناصر کے لئے کرتے ہیں لیکن کیا اویسی صاحب کے خلاف غیر شائستہ اور اخلاق سے گری ہوئی باتیں کرنا اندھ بھکتی نہیں ہے ! ظاہر ہے یہ ہمارے دینی مزاج اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ مگر افسوس بعض قاسمی کے لاحقہ لگانے والے مولوی اور فیس بکی لکھاری مسٹر تسلسل کے ساتھ ان کے خلاف محاذ آرائی کر رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے وہ پیڈ ورکر ہیں۔
غلو دونوں جانب ہے۔ اویسی بھگتوں کا وہ رویہ بھی قابل مذمت ہے جس میں ان لوگوں نے مولانا سجاد نعمانی صاحب کے خلاف غیر مہذب الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ مولانا نے اپنی رائے کا اظہار کیا اور اپنے صوابدید پر مبنی مشورہ دیا یہ ان کا حق ہے خواہ کسی کو پسند آئے یا نہ آئے۔ بہر حال وہ ایک صاحب بصیرت اور دور اندیش شخصیت ہیں۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)