تحریر:ڈاکٹر ظفرالاسلام خان
(ڈائرکٹر شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ)
محترم محمد خالد اعظمی کی مختلف ویب سائٹس پر شائع ہونے والی تحریر تکلیف دہ ہے۔ موصوف خوددار المصنفین کی مجلس انتظامیہ کے ممبر ہیں لیکن کم از کم مجھے آجتک ان کی کوئی دلچسپی اکیڈمی کے معاملات میں نظر نہیں آئی۔ مجھے آج پتا چلا ہے کہ محترم خالد صاحب نے کچھ روز قبل اپنا استعفیٰ نامہ نائب ناظم کو دیا ہے لیکن کسی وجہ سے انہوں نے اسے ابتک میرے پاس نہیں بھیجا ہے ۔
سڑک پر واقع اکیڈمی کے کیمپس میں خالی کمروں کو دکان کے طور پر کرایہ پر دینے سے میرے علم میں پولیس اور ضلع انتظامیہ کے علاوہ کسی کو پریشانی نہیں ہوئی۔ ایک خالی پڑی ہوئی جگہ سے اگر ادارے کو کچھ مالی منفعت آنا شروع ہو گئی ہے تو اس میں کون سی قباحت ہے، خصوصا جب وہ ساری آمدنی آخری نئے پیسے تک ادارے کے چلانے میں استعمال ہوتی ہے۔ اسی طرح جس بلڈنگ کے کوچنگ سنٹر کو کرایہ پہ دینے کی بات کی گئی ہے وہ کبھی بھی لائبریری کے لئے نہیں بنی تھی بلکہ وہ پہلے دن سے کانفرنس ہال ہےاور اسی طور سے سال میں چند بار اس کا استعمال ہوتا تھا اور باقی اوقات میں وہ جگہ خالی پڑی رہتی تھی۔ کوچنگ سنٹر کی تجویز کچھ مقامی لوگوں نے دو سال قبل رکھی تو وہ جگہ ان کو عارضی طور پر کرایہ پر دے دی گئی ہے، اس شرط کے ساتھ کہ ضرورت پڑنے پر وہ جگہ کانفرنس کے لئے اکیڈمی بلا معاوضہ استعمال کر سکتی ہیں۔ اسی طرح مہمان خانے کے عموما خالی رہنے والے دو کمرے اور کچن کو بھی کوچنگ سنٹر کو کرایہ پر دیا گیا ہے جس سے کچھ مزید آمدنی آنا شروع ہوئی ہے ۔ اس سب سے دار المصنفین کے معاملات میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی جبکہ کوچنگ سنٹر کی صورت میں اعظم گڑھ کے لئے ایک قابل فخر ادارہ وجود میں آیا ہے۔ میں ابھی ایک ہفتہ وہاں گذار کر آیا ہوں۔ مجھے قطعا نہیں محسوس ہوا کہ کوچنگ سنٹر کی وجہ سے ادارے میں کوئی رخنہ پڑ رہا ہے یا ماحول میں کوئی خرابی آئی ہے۔ صرف یہ خوشگوار چیز نظر آئی کہ کوچنگ سنٹر کے بچوں کی وجہ سے مسجد کی صفیں بھرنے لگیں ہیں ورنہ عموما نمازوں میں چند لوگ ہی نظر آتے تھے۔
مضمون نگار نے پرنٹنگ پریس کے بارے میں شکوہ کیا ہے کہ اس کا صحیح استعمال نہیں ہو رہا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ پریس ابھی تک مکمل نہیں ہوا ہے۔ پرانی مینی آفسیٹ مشین کافی دنوں سے اکیڈمی کے چھوٹے موٹے کام کرتی تھی ۔ اب ایک ڈیجیٹل پرنٹر اور ایک بائنڈنگ مشین کا صرف چند ماہ قبل اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے کام بہتر ہوا ہے اور تیزی آئی ہے۔ کچھ ابھی مزید مشینیں آنا باقی ہیں۔ اس کے با وجود جو کچھ بھی موجود ہے وہ پوری طرح سے نہ صرف اکیڈمی کے طباعتی کاموں کے لئے بلکہ باہر سے بھی آئے ہوئے کام کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔ اس سے ایک طرف تو اکیڈمی کا اپنا طباعتی کام ہورہا ہے اور کام میں بھی تیزی آئی ہے نیز باہر سے آنے والے کام کا بھی مناسب معاوضہ ملتا ہے۔ پریس کے لوازمات مکمل ہونے پر صورت حال میں اور بہتری آئے گی۔ یہاں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ پریس کی تجدید اور نئی مشینوں کا اضافہ امریکہ میں مقیم ایک عاشق اردو خاتون کی مدد سے ہو رہا ہے جنہوں نے کبھی دار المصنفین کی شکل بھی آج تک نہیں دیکھی ہے لیکن وہ اس کی مطبوعات سے متاثر ہیں اور چاہتی ہیں کہ یہ سلسلہ قائم و دائم رہے۔ مجلہ معارف کے لئے بھی انہوں نے ایک خطیر رقم دی ہے تاکہ اس کی اشاعت میں خلل نہ آئے۔ یہ رقم یوٹی آئی میں انوسٹ کر دی گئی ہے اور اس کا منافع معارف کے کام آتا ہے لیکن پوری طرح سے کافی نہیں ہے۔
مضمون نگار نے مطبوعات کی فروخت میں بہتری لانے کا مشورہ دیا ہے اور یہ ایسے وقت میں ہے جب اردو مطبوعات کی فروخت پورے ملک میں روز بروز کم ہو رہی ہے۔ اس کے با وجود ہماری مطبوعات اب بھی فروخت ہو رہی ہیں اور ان سے ادارے کو ایک حد تک آمدنی ہوتی ہے لیکن یہ اور کرایہ سے آنے والی آمدنی ادارے کو چلانے اور بالخصوص ملازمین کی تنخواہوں کے لئے کافی نہیں ہے۔ اس کے لئے ہم کو خیر خواہوں کے سامنے مستقل ہاتھ پھیلانا ہوتا ہے۔ میں نے کچھ عرصہ قبل تجویز پیش کی تھی کہ خیر خواہ حضرات اگر خاطر خواہ تعاون کریں تو اکیڈمی کے کارپس فنڈ کو اتنی وسعت دی جا ئے کہ اس کی سالانہ آمدنی سے ادارہ چل سکے۔ ابھی تک ایسا نہیں ہو پایا ہے۔ خیر خواہ لوگوں کو اس بات پر غور کرنا چاہئے۔ ایسا کوئی بھی تعاون فورا خرچ کئے جانے کے بجائے انوسٹ کیا جائے گا اورصرف اس کی سالانہ آمدنی کو اکیڈمی کے لئے خرچ کیا جائے گا۔
مضمون نگار نے میرے بارے میں بھی کچھ تبصرہ کیا ہے۔ ان کی اور دوسرے متعلقین کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ میں اس منصب کے لئے کبھی خواہشمند نہیں تھا اور نہ ہی اپنی خدمات کے لئے ایک نئے پیسے کا معاوضہ حاصل کرتا ہوں۔ خرابیٔ صحت کے با وجود ہر چند ماہ پر اعظم گڑھ جاتا ہوں جبکہ روزانہ دہلی سے فون، ایمیل اور وہاٹسیپ کے ذریعے رابطے میں رہتا ہوں۔ معارف کے مضامین کی ایڈیٹنگ بڑی حد تک میں ہی کرتا ہوں اور اس کی تصحیح بھی دہلی میں میرے ذاتی آفس میں ہوتی ہے اوراس سب کا کوئی بار دار المصنفین پر نہیں پڑتا ہے۔
(ختم)