واشنگٹن :
یوکرین میں جاری جنگ کے پس منظر میں امریکہ کو مشرق وسطیٰ میں اپنے حلیف ممالک سے مطلوبہ تعاون حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ واشنگٹن چاہتا ہے کہ سعودی عرب اپنی تیل کی پیداوار میں اضافہ کردے جبکہ متحدہ عرب امارات پابندیوں کے شکار روسی ارب پتیوں کی پرتعیش کشتیوں اور دیگر اثاثہ جات کو تحفظ فراہم کرنا بند کر دے مگر ان دونوں خلیجی ممالک نے ابھی تک امریکی مطالبات کا مثبت جواب نہیں دیا ہے۔روس کے یوکرین پر فروری میں حملے کے آغاز کے فوری بعد امریکی حکام نے مبینہ طور پر صدر جو بائیڈن اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے درمیان ٹیلی فونک بات چیت کرانے کے لیے کوششیں کی تھیں۔ تاہم بظاہر سعودی ولی عہد نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس صورتحال کو امریکہ کے لیے ایک خفت کے طور پر دیکھا گیا تھا۔
دوسری جانب محمد بن سلمان نے روسی صدر ولادی میر پوٹن سے ٹیلی فون پر بات چیت کی تھی اور اس کے اگلے ہی مہینے سعودی شہزادے نے چین کے صدر شی جی پنگ سے بھی بات چیت کی۔
امریکی ایوان صدر یعنی وائٹ ہاؤس کی جانب سے بعدا ازاں اس بات سے انکار کیا گیا کہ صدر بائیڈن کی فون کال کا جواب نہیں دیا گیا تھا۔ تاہم کئی طریقوں سے اس تردید کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ امریکہ اور اس کے تیل پیدا کرنے والے مشرق وسطیٰ کے چند قریبی حلیف ممالک کے درمیان تعلقات میں پائی جانے والی سرد مہری کے اظہار کا ایک تازہ واقع تھا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے ماضی قریب میں سعودی عرب کو ایک ‘اچھوت ریاست‘ قرار دیا تھا۔ بائیڈن کے اس بیان کی وجہ سعودی ریاست کی مبینہ آشیر باد سے سن 2018 میں صحافی جمال خاشقجی کا بہیمانہ قتل اور انسانی حقوق کے حوالے سے سعودی عرب کا مجموعی طور خراب ریکارڈ تھا۔
دوبارہ اتحاد کی امید
امریکہ کا مسئلہ یہ ہے کہ یوکرین میں جنگ کی وجہ سے اسے سعودی عرب اور اس کے پڑوسی ملکوں کے تعاون کی پھر سے ضرورت ہے۔ امریکہ اور اسے کے یورپی اتحادی چاہتے ہیں کہ ان کے مشرق وسطی میں شراکت دار ملک یوکرینی جنگ کی وجہ سے عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تیل کی قیمتوں پر قابو پانے کے لیے اپنی تیل کی پیداوار میں اضافہ کردیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مغربی اتحادیوں کی یہ کوشش بھی ہے کہ مشرق وسطیٰ کے یہ ممالک یوکرین پر جنگ مسلط کرنے کے باعث روس کے خلاف اقوام متحدہ میں پیش کی جانے والی قرادادوں اور پابندیوں کی حمایت بھی کریں۔ لیکن مشرق وسطی کے یہ ممالک ایسا کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ سعودی عرب اور یو اے ای تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک پلس کے ساتھ پہلے سے طے شدہ معاہدےکے تحت ہی تیل پیدا کر رہے ہیں۔ روس بھی اوپیک پلس کا ایک رکن ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی پابندیوں سے بچنے کے لیے روسی ارب پتیوں نے اپنی پرتعیش کشتیاں، نجی جیٹ طیارے اور دیگر طیارے یواے ای میں جمع کر رکھے ہیں۔
اسی طرح خطے میں امریکہ کے دیگر حلیف ممالک عراق، اردن اور اسرائیل نے بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روس کے خلاف ووٹ دینے سے انکار کر دیا ہے۔
آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ عشروں سے مشرق وسطیٰ میں ایک بڑا شراکت دار ہونے کے باوجود امریکہ اپنے ‘دوستوں‘ کی حمایت حاصل نہیں کر پا رہا؟ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد سے امریکہ نے اس خطے میں اپنی فوجی طاقت کے ذریعے توانائی کے تحفظ کو یقینی بنائے رکھا ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ تعلقات کی کونسل (ای سی ایف آر) کی اپریل میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق ’’امریکہ اب بھی خطے (مشرق وسطیٰ) میں سلامتی کے تحفظ کا سب سے بڑا ضامن اور اسلحہ برآمد کرنے والا ملک ہے۔‘‘
اس رپورٹ کے مطابق امریکہ کی اس خطے میں اب بھی سب سے بڑی فوجی چھاؤنیاں قائم ہیں اور یہاں اس کے 65 سے 70 ہزار فوجی بھی تعینات ہیں۔
تاہم سن 2019 میں امریکہ نے اپنے ہاں تیل کی پیداوار کا عمل شروع کیا اور اس نے اپنی تیل کی برآمد کو اپنی درآمد سے بھی بڑھا دیا۔ اس صورتحال کے سبب مشرق وسطیٰ کی پٹرولیم مصنوعات اس کے لیے نسبتاً غیر اہم ہو چکی ہیں۔ ماہرین کے مطابق گزشتہ بیس سالوں کے دوران اگرچہ امریکہ اس خطے سے دستبردار نہیں ہوا لیکن اس کی ترجیحات بدل چکی ہیں۔
نظر انداز کیے جانے کا احساس
خارجہ پالیسی کے حوالے سے ایک سابق امریکی مشیر ایرون ملر کے مطابق مشرق وسطیٰ کا خطہ ماضی جتنا نا سہی لیکن اب بھی بہت اہم ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ملر کا کہنا تھا، ’’ اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ہمارے علاقائی حلیف یہ سوچنا شروع کر دیں کہ ان کے بنیادی محسن اور سرپرستوں نے انہیں کم توجہ دینی شروع کر دی۔‘‘ اس کی وضاحت کرتے ہوئے اس سابق امریکی عہدیدار کا کہنا تھا کہ امریکی رویے کی وجہ سے ایک ایسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے جس کی وجہ سے سعودی عرب اور یو اے ای جیسے اتحادیوں نے اب دوسری طاقتوں سے رابطے شروع کر دیے ہیں۔
مثال کے طور پر چین ناصرف اس خطے سے تیل کا سب سے بڑا درآمد کنندہ بن گیا ہے بلکہ اس نے سعودی عرب عراق اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کر رکھے ہیں۔
ماہرین کے مطابق مشرق وسطی کے ممالک کے پاس امریکہ کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا آپشن ہر وقت موجود ہے۔ تاہم یوکرینی جنگ کی سبب عالمی معیشت کی خراب ہوتی صورتحال میں امریکہ مشرق وسطیٰ میں اپنا وہ مقام دوبارہ حاصل کرنے کی کوششیں کر رہا ہے جو وہ چین اور روس جیسے ممالک کو ہار بیٹھا تھا۔
ایک اعلیٰ سطحی امریکی وفد نے نائب صدر کمالہ ہیرس کی سربراہی میں یواے ای کا دورہ کیا ہے۔ اب امریکی میڈیا میں ایسی رپورٹس بھی آرہی ہیں جن کے مطابق امریکی صدر وسط جولائی میں سعودی عرب کا دورہ اور محمد بن سلمان سے ملاقات کریں گے۔ اس سےقبل امریکی صدر جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سے سعودی ولی عہد کے ساتھ ملاقات کے معاملے ہچکچاہٹ کا شکار تھے۔
یورپی یونین کا کردار
ماہرین کے مطابق مشرق وسطیٰ کے ساتھ تعلقات کے فروغ اور مضبوطی میں یورپی یونین کے رکن ممالک کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ مشرق وسطیٰ کے ایک ماہر اور یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کونسل سے منسلک سینئر پالیسی فیلو ہیو لوواٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ایسا لگتا ہے کہ یورپی یونین امریکی انتظامیہ کی جانب سے وزنی ذمہ داریاں ادا کرنے پر مطمئن ہے۔ لیکن درحقیقت یورپ کے پاس پیش کرنےکے لیے بہت کچھ ہے جس میں خاص طور پر ترقیاتی معاونت، انسانی امداد، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری، تجارت اور سلامتی کے شعبوں میں تعاون شامل ہے۔‘‘
لووت نے خبردار کیا،’’ اگرچہ چینی اور روسی معاونت کو اکثر حد سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے لیکن یورپی تعاون کو اکثر کم سراہا جاتا ہے اور ایسا کرنے میں خود یورپی بھی شامل ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ مغربی ممالک کو اس تاثر کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کے خطے کے ساتھ تعلقات کے لیے مکمل پرعزم ہے اور صرف تنگ نظر مفادات حاصل کرنے کے درپے نہیں ہیں۔
(بشکریہ: ڈی ڈبلیو)