مسلم نوجوانوں سے زبردستی قومی ترانہ گوانے کا معاملہ
نئی دہلی :(ایجنسی)
دہلی فسادات سے متعلق ایک معاملے میں ہائی کورٹ نے پولیس کو سخت سرزنش کی۔ گواہوں کے بیانات قلمبند نہ کرنے پر عدالت نے کہا کہ آپ کے پاس پوری دنیا گھومنے کا وقت ہے لیکن جن لوگوں نے جرم ہوتے دیکھا ان کے بیانات ریکارڈ کرنے کا وقت نہیں۔ جسٹس مکتا گپتا نے پولیس کی مہر بند رپورٹ پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ پولیس کی کارروائی کو دیکھنے کے بعد اس کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ کورٹ کا کہنا تھا کہ ہم نے تو ایسی کوئی ہدایت نہیں دی تھی۔
2020 میں دہلی فسادات کے دوران منظر عام پر آنے والی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی، جس میں کچھ پولیس اہلکار زمین پر پڑے کچھ زخمی نوجوانوں سے قومی ترانہ گانے کے لیے کہہ رہے تھے۔ زخمیوں میں سے ایک فیضان کی موت ہوچکی ہے ۔ اس کی ماں کا کہنا ہے کہ پولیس حراست میں بے رحمی سے مارے پیٹے جانے اور بروقت علاج نہ ملنے کی وجہ سے اس کی جان چلی گئی۔ اس ویڈیو میں پانچ نوجوان زخمی حالت میں زمین پر پڑے ہوئے ہیں اور قومی ترانہ گاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ان لوگوں کے آس پاس کم از کم سات پولیس والے ہیں۔
یہ پانچ نوجوان کردم پوری محلہ اور اس سے ملحقہ کچی کالونی کے رہنے والے ہیں۔ وہاں موجود دو پولیس والے اس کے چہرے کی جانب لاٹھی لے جاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اچھا طرح گا۔ اس ویڈیو میں پولیس انہیں بری طرح پیٹتی نظر آرہی ہے۔ کردم پوری کے رہنے والے 23 سالہ فیضان کی اب موت ہو چکی ہے۔ فیضان کو 27 فروری کو دہلی کے گرو تیغ بہادر (جی ٹی بی) اسپتال میں مردہ قرار دیا گیا تھا۔ فیضان کی والدہ قسمتاً نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ پولیس پورے معاملے کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔
پولیس کی سیل بند رپورٹ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس مکتا گپتا نے کہا کہ وائرل ویڈیو میں پانچ نوجوان نظر آرہے ہیں۔ لیکن دو سال گزر جانے کے بعد بھی پولیس کو اتنا وقت نہیں ملا کہ وہ چھوڑے گئے افراد کے بیانات قلمبند کر سکے۔
فیضان کی ماں کا الزام ہے کہ فیضان کو بے رحمی سے مارنے پیٹنےکے بعد غیر قانونی حراست میں رکھا گیا۔ اس کا علاج بھی نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے وہ حراست میں ہی دم توڑ گیا۔ ماں نے پورے معاملے کی عدالت کی نگرانی میں جانچ کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ عدالت نے معاملے کی اگلی سماعت کے لیے 14 مارچ کی تاریخ مقرر کی۔