وجے ترویدی
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ ( آر ایس ایس ) کے سرسنگھ چالک ڈاکٹر موہن بھاگوت کے مسلمانوں کے ساتھ ہندوؤں کے رشتے پر بیان نے نظریاتی درجہ حرارت پیدا کردی ہے۔ سنگھ میں ہی بہت سے لوگوں نے اس کی مخالفت شروع کردی ہے ۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ گروجی گولورکر کے زمانے میں ہندوتو کو لے کر سنگھ کی سوچ اس سے الگ تھی۔
دراصل اس تنازع کی جڑسنگھ کےسربراہ ڈاکٹر بھاگوت کا اتوار کو غازی آباد میں دیا وہ بیان ہے ، جس میں انہوں نے کہا تھا ، اگر کوئی ہندو کہتا ہے کہ مسلمان یہاں نہیں رہ سکتا ہے تو وہ ہندو نہیں ہے ۔ گائے ایک مقدس جانور ہے،لیکن اس کے نام پر دوسروں کو مار رہے ہیں ، وہ ہندوتو کے خلاف ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ تمام ہندوستانیوں کا ڈی این اے ایک ہے، چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ہو۔
تقریباً 50 سال کے بعدشاید ایسے حالات پھر سے بنتے نظر آرہےہیں جب سنگھ سربراہ کے نظریہ کو لے کر سنگھ کے اندر ہی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ ذرائع کے مطابق مخالفت کے سر خاص طور سے ناگپور ، آسام اور مغربی بنگال سے آئے ہیں۔ آسام اور مغربی کے انتخابات میں سنگھ نے بہت کام کیا تھا۔ آسام میں مسلم اکثریتی علاقوں میں ہر بوتھ پر 20-20 لوگوں کی کمیٹی بنائی گئی، لیکن وہاں ہر بوتھ پر 5 سے زیادہ ووٹ نہیں ملے۔ بنگال میں بھی تمام کوششوں کے باوجود ممتا بنرجی کی ہی جیت ہوئی۔
مسلمانوں کے حوالہ سے بھاگوت کا یہ پہلا بیان نہیں ہے۔ تین سال پہلے ستمبر 2018 میں دہلی میں 3 روزہ لیکچرسریز میں ڈاکٹر بھاگوت نے کم وبیش یہی کہاتھا کہ بغیر مسلمانوں کے ہندوتو ادھورا ہےاور ہندوستان میں رہنے والا ہر شخص ہندوستانی ہے۔ اگر کسی کو ہندوستانی الفاظ سے اعتراض ہے تو وہ بھارتیہ کہہ، اس میں بھی کوئی تکلیف نہیں ہے، لیکن سنگھ میں اس بیان کے بعد آگے بڑھنے کا کوئی کام نہیں ہوا۔ یعنی ناراضگی ظاہر بھلے ہی نہیں کی گئی ہو، لیکن سنگھ سربراہ کے نظریے کو قبول نہیں کیا گیا۔
سنگھ وچارک دلیپ دیوگھر کہتے ہیں ، سنگھ سربراہ ڈاکٹر بھاگوت کا بیان ڈاکٹر ہیڈ گووار اور دیورس کےنظریےکو آگے بڑھانے والا ہے ۔ یقین ہے کہ انہیں اس میں کامیابی ملے گی۔ گروجی گولورکرکی سوچ کچھ الگ رہی تھی ۔ سنگھ کی تاریخ دیکھیں تو ہندوتو کو لے کر آر ایس ایس میں ہمیشہ سے ہی اختلافات رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہیڈگووار کہتے تھے کہ ہندوستان میں رہنے والا ہندو ہیں۔ جیسے امریکہ میں امریکن، جرمنی میں جرمن ہوتا ہے، وہ ہندو لفظ سے منسلک تو نہیں رکھتے تھے، لیکن دس ہزار سال پرانی ہندو روایت اور نظریے کے ساتھ چلتےتھے۔
سنگھ کے دوسرے سرسنگھ چالک گروجی گولورکر نے لکھا تھاکہ بھارت کا گزشتہ 1200سال کی تاریخ مذہبی جنگ کی تاریخ رہی ہے ۔ جس میں ہندوؤں کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ گولورکر مانتے تھے کہ 1200 سال پہلے جب سے مسلمانوں نے اس زمین پر قدم رکھا ہے، ان کا صرف ایک مقصد پورے ملک کا تبدیلی مذہب کرنا اور اسے اپنا غلام بنانا رہاہے ۔ سنگھ نے بعد میں بنچ آف تھارٹس میں گروجی کے ان نظرے کو خارج کردیا۔
ویر ساورکر نے مسلمانوں کو تاکید کرتے ہیں کہ وہ اپنے خون میں ہندوؤں کا خون ملائیں اور اپنا ہندو کرن کریں۔ تب ہی وہ ہندوستان میں رہنے کے لائق ہے۔ اس کے برعکس دین دیال اپادھیائے ہندوؤں کو صلاح دیتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ پیار سے پیش آئیں۔
ڈاکٹر بھاگوت کے ساتھ پرچارک بنے رمیش سلیدار کہتے ہیں کہ ہندوتو کا مطلب ہی سیکولر ہوناہے، تو اس کے لیے الگ سے بار بار زور دینے کی ضرورت نہیں ہے، اس سے کارکنان میں کنفیوزن پیداہوتاہے ۔
مسلمانوں کے حوالہ سے سب سے اہم بحث تیسرے سنگھ سربراہ بالا صاحب دیورس کے وقت ہوئی ۔ مسلمانوں اور سنگھ کے سوال پر 1977 میں آر ایس ایس کی پرتی نیدھی سبھا میں بڑی بحث ہوئی تھی۔ پرتی نیدھی سبھا میں بالا صاحب دیورس کا رخ تھا کہ آر ایس ایس کو مسلمانوں کے لیے دورازہ کھولنا چاہئے ، لیکن یادوراؤ جوشی، میرو پنت پنگل ، دیتو پنت ٹھینگی جیسے بہت سے لیڈروں نے اس کی سخت مخالفت کی ۔
پرتی نیدھی سبھا سے پہلے بھی دہلی میں ایک پریس کانفرنس میں بالا صاحب دیورس سے سوال پوچھا گیا تھا کہ کیا سنگھ مسلمانوں کے لیے اپنے دروازے کھولنے جارہاہے ؟ جواب میں دیورس نے کہا تھا، ‘اصولی طور پر ہم نے قبول کیا ہے کہ عبادت و پوجا کے طرز عمل الگ ہونے کے باوجود مسلمان بھی راشٹریہ زندگی میں ہم آہنگ ہوسکتے ہیں ،انہیں ہونا بھی چاہئے۔
دیورس کے فیصلے پر تب مہاراشٹر کے آر ایس ایس سربراہ کے بی لمیے نے اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے ایک خط لکھا۔ اس میں انہوں نے لکھا’ آپ کو آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک کاوہ گدی دیا گیا ، جس پر کبھی ڈاکٹر ہیڈگوارکر بیٹھے تھے۔ برائے مہربانی اسی سنگھ کو چلائیں اور اسے آگے بڑھانے کا راستہ تیار کیجئے۔ اسے بدلنے کی کوشش مت کیجئے۔ آپ کو لگتاہے کہ تبدیلی ضروریہے تو پھر اپنے لیے ایک نیا آر ایس ایس بنا لیجئے۔ ہندوؤں کو منظم کرنے کو پرعزم ڈاکٹر جی کے آر ایس ایس کو ہمارے لیے چھوڑ دیجئے۔ اگر آپ نے اس آر ایس ایس کو بدلا تو پھر ایسے سنگھ سےمیں کوئی رشتہ نہیں رکھ سکوں گا۔ اس کے باوجود یورس نے راستہ نہیں کھولا اور اپنی کوششیں جاری رکھیں۔
دیورس کے بعد سنگھ سربراہ کے ایس سدرشن کی قیادت میں سال 2002 میں مسلم راشٹریہ منچ کی شروعات ہوئی ، اس کے مارگ درشک اندریش کمار ہے، لیکن سنگھ خود کو اسے تھوڑا دور ہی رکھتا ہے ۔ یہاں مسلمانوں کو ساتھ لینے کی کوشش ہو رہی ہے ۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے 2019 کا عام انتخاب جیتنے کے بعد بی جے پی پارلیمانی کمیٹی کی پہلی میٹنگ میں کہا تھا ہ سب کا ساتھ، سب کا وکاس کے ساتھ سب کا وشواس جیتنا بھی ضروری ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ بی جے پی سرکاروںمیں اقلیتوں کی نمائندگی آٹے میں نمک جتنابھی نہیں ہے ۔ سنگھ مخالفین کاکہنا ہے کہ مسلمانوں پر آر ایس ایس کی بات ہاتھی کے دانت جیسی ہے ، یعنی کھانے کے اور دکھانے کے اور..تو پھر بھاگوت کس حلقہ انتخاب کی طرف دیکھ رہے ہیں۔