ویسے تو دین اسلام کی روشنی میں مسلمانوں میں ذات پات کا نظام نہیں ہے اور اعلی و ادنی کا معیار کسی کا کسی نسل میں پیدائش اور پرورش نہیں ہے ۔ اعلی و ادنیٰ ناپنے کا پیمانہ ” تقوی ” یعنی پرہیزگاری ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا: أن اكرمكم عند الله اتقاكم” یعنی جو جتنا متقی اور پرہیزگار ہے وہ اللہ کی نظر میں اتنا ہی مکرم ہے ۔ اور جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” کسی گورے کو کالے پر اور کسی عربی کو عجمی پر افضلیت نہیں ہے ۔ افضلیت طے کرنے کے لئے رنگ نسل اور علاقہ نہیں بلکہ تقوی معیار ہے۔
تاہم برصغیر ؛ ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمان ہندوؤں کے ساتھ سماجی میل جول کی وجہ سے ہندوؤں کے طبقاتی نظام ؛ (١) برہمن ، (٢) کشتریہ یا چھتری ، (٣) ویسیہ اور (٤) شودر ، سے متاثر ہوئے ہیں اور مسلمانوں میں بھی کسی حد تک اعلی و ادنیٰ کی طبقاتی تفریق در آئی ہے ۔ چنانچہ مسلمانوں میں بھی طبقات: –
(١) اشراف (٢) اجلاف اور (ارذال) پائے جاتے ہیں تاہم ہندوؤں کی طرح مسلمانوں میں طبقات کے نام پر بہت زیادہ بھید بھاؤ نہیں ہے۔ ہندوؤں میں مذہبی کتب کا علم اور مذہبی رسومات کی ادائیگی کے جملہ حقوق برہمنوں کے لئے محفوظ ہیں جبکہ مسلمانوں میں مذہبی تعلیم اور مذہبی شعائر کی ادائیگی سادات کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ مسلمانوں میں کسی طرح کا چھوا چھوت untouchability نہیں پائی جاتی ہے۔ ایسا کہیں بھی کسی کے ساتھ نہیں ہوتا ہے کہ ایک دسترخوان پر کھانے پینے اور ایک گلاس سے پانی پینے سے کسی کو برادری کے نام پر احتراز ہو۔
درحقیقت مذہبی علوم کی تعلیم اور تعلم پر کسی بھی برادری کی مونوپولی نہیں ہے اور عہدے و مناصب مذہبی تعلیم میں لیاقت و صلاحیت کی بنیاد پر دیئے جاتے ہیں۔ مساجد کے امام ، نائب امام ، مؤذن اور مدارس دینیہ کے مہتمم ، ناظم ، صدر مدرس اور مدرسین سے لے کر طلباء تک ، پڑھنے پڑھانے اور انتظام و انصرام میں ذات برادری کے نام پر کسی کو ترجیح نہیں دی جاتی ہے۔ مدارس میں پڑھانے اور پڑھنے والوں کی اکثریت بھی غیر سادات کی ہوتی ہے۔
ان تمام باتوں کے باوجود ، مسلمانوں کے یہاں طبقاتی نظام کسی حد تک باقی ہے تاہم ہندوؤں کی طرح وہ مذہبی نقطہ نظر سے نہیں بلکہ سماجی اعتبار سے ہے۔ خصوصاً شادی بیاہ کے موقع پر ذات پات دیکھی جاتی ہے۔ لیکن وہ اس قدر اہم اس لئے نہیں ہے کہ اس میں نہ صرف ذات پات کی چھان بین ہوتی ہے بلکہ بعض خاندانوں میں ہڈی سے ہڈی بھی ملائی جاتی ہے کہ اوپر کی پشت میں جاکر کسی نہ کسی پوائنٹ پر خاندان ایک ہو (ایک گوتر کنبہ)
دوسری بات یہ کہ اپنے اپنے کنبے کی شناخت (افضلیت نہیں) کا ذکر اللہ نے قرآن کریم میں بھی کیا ہے : ” وَجَعَلْنَٰكُمْ شُعُوبًا وَقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوٓاْ” یعنی ہم (اللہ) نے تمہیں مختلف قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو ۔ تو اگر سید سید سے شیخ سے پٹھان پٹھان سے ملک ملک سے انصاری انصاری سے سیفی سیفی سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوتے ہیں تو اس میں قباحت نہیں ہے۔
لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ قید بھی ختم ہو رہی ہے۔ بالخصوص بڑے شہروں میں رشتے کے لئے ذات پات سے کہیں زیادہ تعلیم اور اسٹیٹس کو ترجیح دی جاتی ہے اور یہ بھی عیب نہیں اس لئے کہ شریعت ہمیں کفو یعنی equal status میں رشتے کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔
حکومتی اداروں میں ملازمت میں ریزرویشن ، تعلیمی اداروں میں حصول تعلیم کے لئے ریزرویشن اور حکومت کی جانب سے دی جانے والی خصوصی مراعات کے حصول کے تعلق سے مسلمانان ہند منقسم رہے ہیں۔ بعض لوگوں نے اسے وقار کا مسئلہ بنایا تھا کہ سماج کے نیچی ذات کے ہندوؤں کی کیٹیگری میں ہمارا نام کیوں ہو ! تو بعض لوگ ریزرویشن سے مستفید ہونے کے تناظر میں شامل ہونے کی بھر پور تائید کرتے ہیں۔
دستور ہند میں ایک بند ایسا ہے جو گرچہ حکومت کو سیکولر کے پابند رکھنے کے لئے ضروری ہے مگر اس کا نقصان کہیں نہ کہیں مسلمانوں کو ہوتا ہے۔ وہ اس طرح کہ دستور ہند کے بموجب حکومت کسی مذہب کے فروغ کے لئے یا کسی مذہب کے خلاف کام نہیں کرے گی یعنی حکومت غیر جانبدار رہے گی مذہب کی بنیاد پر کسی کو ریزرویشن اور خصوصی مراعات نہیں دے گی۔ ہاں ذات پات اور معاشی پسماندگی کی بنیاد پر مخصوص قبائل اور برادریوں کے لئے سرکاری محکموں میں ملازمت کے مواقع میں ریزرویشن اور تعلیمی اداروں میں ریزرویشن دے رہی ہے جس سے نیچی ذات کے ہندو اور مذہبی اقلیتیں بہت مستفید ہوتی ہیں۔
مسلمان مختلف وجوہات کی بنا پر ریزرویشن اور مراعات سے بہت زیادہ فائدہ نہیں اٹھا پاتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ بروقت معلومات کی کمی کا ہونا ہے۔ ہماری ملی تنظیموں کے پاس ایسا کوئی میکانزم نہیں جو ان ریزرویشن اور مراعات سے مستفید ہونے میں ناخواندہ مستحق مسلمانوں کی مدد کرے۔
اس تناظر میں بدرجہ مجبوری مسلمانوں کو غیر پسماندہ اور پسماندہ میں تفریق روا رکھنے دیا جا سکتا ہے ۔
پچھلے دنوں موجودہ حکومت ن