تحریر:ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
سوال :
چار بھائيوں نے ايک جائيداد مل کر خريدی ۔ اس کي صورت يہ ہوئي کہ سب سے بڑے بھائی نے رقم اکٹھا کی اور پلاٹ تلاش کرنے، ان کا معاملہ کروانے، انھيں خريدوانے اور ان کی رجسٹری کروانے ميں دلچسپی لی اور اس کام کو انجام تک پہنچایا ۔ چوں کہ بڑے بھائی کے پاس رقم نہيں تھی، اس ليے انھوں نے ذاتي طور پر پلاٹ نہيں ليا اور تين پلاٹوں کي رجسٹری تينوں بھائيوں کے نام الگ الگ کروادی ۔ درميان کے دو بھائيوں کے پاس بھی رقم نہيں تھی، انھيں سب سے چھوٹے بھائی سے قرض دلواديا ۔ اس معاملے کو بيس برس گزر گئے ہيں۔ اب ان پلاٹوں کي ماليت پندرہ گنا بڑھ گئي ہے۔ چھوٹے بھائی کا قرض اب تک بھائيوں نے ادا نہيں کيا ہے ۔ اب چھوٹے بھائی کا کہنا ہے کہ چوں کہ تينوں پلاٹ ميری ہی رقم سے خريدے گئے تھے ، اس ليے مجھے اور حصہ ديا جائے ۔
دريافت طلب امر يہ ہے کہ کيا چھوٹے بھائی کي بات درست ہے ؟ کيا اسے کچھ اور حصہ ملنا چاہيے؟ ايک بات يہ بھی جاننی ہے کہ يہ سارا معاملہ بڑے بھائی نے کروايا تھا ۔ کيا ان کا بھی کچھ حق بنتا ہے؟ اور يہ کہ انھوں نے ہی چھوٹے بھائی سے قرض دلوايا تھا ۔ کيا قرض کو واپس کرانے کے سلسلے ميں ان کي کچھ ذمہ داری بنتی ہے؟
براہ کرم ان سوالات کے جوابات مرحمت فرمائیں ۔
جواب :
کوئي معاملہ کچھ لوگ باہم اشتراک سے کريں تو ابتدا ہی ميں اس کي جملہ تفصيلات جزئيات کے ساتھ طے کرلينی چاہئيں ۔ اسلام نے معاملات ميں شفّافيت کا حکم ديا ہے ۔ اسے ملحوظ نہ رکھا جائے اور معاملہ گول مول رہے تو بعد ميں تنازعات پيدا ہوجاتے ہيں اور خوش دلی سے ان کا نپٹارا نہيں ہوپاتا ۔اسی طرح بہتر ہے کہ اسے ضبط تحرير ميں لے آيا جائے۔ معاملہ زبانی انجام پائے تو بعد ميں اس کی تفصيلات ذہن سے محو ہونے لگتی ہيں اور کوئي ثبوت موجود نہ ہونے کي وجہ سے تنازع پيدا ہوجاتا ہے ۔ اللہ تعاليٰ کا ارشاد ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ ( البقرة : 282)
’’اے لوگو جو ايمان لائے ہو ! جب کسی مقرر مدّت کے ليے تم آپس ميں لين دين کرو تو اسے لکھ لياکرو ۔‘‘
جو مسئلہ بيان کيا گيا ہے اس کا جواب يہ ہے کہ جن بھائيوں کے نام سے پلاٹ خريدے گئے تھے اور ان کے نام سے ان کي رجسٹری ہوئی تھی ، انہی کو ان کا مالک سمجھا جائے گا ۔ اگرچہ ان پلاٹوں کی خريداری ميں درميان کے دو بھائيوں کي کچھ رقم نہيں لگی تھی ، بلکہ کل سرمايہ سب سے چھوٹے بھائی نے فراہم کيا تھا ، ليکن وہ رقم اس سے بہ طور قرض لی گئی تھی اور اس نے قرض ہی کہہ کر وہ دی تھی ۔ اب چوں کہ ان پلاٹوں کی ماليت بہت بڑھ گئی ہے ، اس ليے اس کا يہ کہنا کہ ميرے پلاٹ کے علاوہ دوسرے پلاٹوں ميں سے بھی مجھے کچھ حصہ ديا جائے ، درست نہيں ہے ۔ دوسرے پلاٹوں ميں اس کا کچھ حق نہ بنتا ۔
چھوٹے بھائی نے اپنے دو بھائيوں کو بہ طور قرض جتنے روپے ديے تھے ، اب اسے اتنے ہی روپے ان سے واپس لينے کا حق ہے ۔ اگرچہ طويل عرصہ گزر جانے کے بعد اس رقم کی ماليت ميں خاصی کمی آگئی ہے ، ليکن اس کی بنياد پر مزيد رقم يا کسی اور سہولت کا مطالبہ کرنا درست نہيں ہے ۔ يہ ’ربا‘(سود) ہوگا ، جسے اسلامی شريعت ميں حرام قرار ديا گيا ہے۔ حديث ميں ہے :
کُلُّ قَرضٍ جَرَّمَنَفَعَةً فَھُوَ رِبَا (الجامع الصغير للسيوطي: 6318)
’’ ہر وہ قرض جس سے نفع حاصل ہو وہ سود ہے ۔‘‘
( محدثين نے اس روايت کي سند کو ضعيف قرار ديا ہے ، ليکن اس کے بعض شواہد پائے جاتے ہيں اور يہ معناً درست ہے ۔)
البتہ دونوں بھائی اپنی آزاد مرضی سے قرض کی واپسی کے علاوہ اپنے بھائی کو جس نے قرض ديا تھا ، مزيد کچھ دينا چاہيں تو دے سکتے ہيں ۔ اللہ کے رسولﷺ کا معمول تھا کہ جب کسی سے قرض ليتے تو اسے واپس کرتے وقت کچھ بڑھا کر ديتے تھے ۔
سب سے بڑے بھائی نے يہ معاملہ کروانے اور اسے انجام تک پہنچانے ميں سرگرم کردار ادا کيا تھا ۔ انھوں نے اپنے بھائيوں کی سرپرستی کا حق ادا کيا ۔ اس پر وہ اللہ تعاليٰ کی جانب سے اجر کے مستحق ہوں گے ۔ ليکن چوں کہ انھوں نے اپنے نام سے کوئی پلاٹ نہيں خريدا تھا ، اس ليے اب ان کا کچھ حصہ نہ ہوگا ، الّا يہ کہ دوسرے بھائی انھيں صلہ رحمی کے طور پر کچھ دے ديں ۔
جو رقم چھوٹے بھائی نے قرض کے طور پر دی تھی ، اسے جلد واپس ملنا چاہيے تھا ۔ اگر بھائيوں نے بغير کسی معقول عذر کے اس کی واپسی ميں تاخير کی تو انھوں نے اچھا نہيں کيا ۔ اب انھيں واپس کردينا چاہيے ۔ بڑے بھائی کی يوں تو کوئی ذمے داری نہيں بنتی، يہ قرض لينے والوں اور قرض دينے والے کا آپسی معاملہ ہے ، ليکن چوں کہ انھوں نے قرض دلوانے ميں تعاون کيا تھا ، اس ليے اب اس کی واپسی ميں بھی اپنا تعاون پيش کريں تو بہتر ہوگا اور معاملہ خوش اسلوبی سے اختتام پذير ہوجائے گا ۔
قرض کی واپسی ميں نا مناسب تاخير سے بچنے کے ليے بہتر ہوتا ہے کہ قرض کی واپسی کی مدت بھی اسی وقت متعين کرلي جائے ۔ البتہ اگر معاشی تنگی کے باعث وہ وقت پر دينے کی پوزيشن ميں نہ ہو تو اس کے ساتھ نرمي کا معاملہ کرتے ہوئے اسے مناسب مہلت بھی دی جائے _۔
(مزید تفصیلات کےلیے مضمونگار سے رابطہ کریں)