ہندوستانی آئین کے دیباچے سے ‘سوشلزم’ اور ‘سیکولرازم’ کے الفاظ کو ہٹانے کی درخواست کوزبردست دھچکا لگا ہے۔ ایک سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے آئین سے ان دو الفاظ کو ہٹانے کا مطالبہ کرنے والی درخواست پر سخت تبصرہ کرتے ہوئے سماعت کی تاریخ میں توسیع کر دی ہے۔ جسٹس سنجیو کھنہ نے ایڈوکیٹ وشنو شنکر جین سے پوچھا کہ کیا آپ نہیں چاہتے کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک رہے؟ سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں کہا کہ آج کل ‘سوشلزم’ اور ‘سیکولرازم’ الفاظ کی مختلف تشریحات ہیں۔ یہاں تک کہ ہماری عدالتیں بھی بارہا ان کو بنیادی ڈھانچے کا حصہ قرار دے چکی ہیں۔ اس تبصرہ کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت 18 نومبر تک بڑھا دی۔
•• درخواست گزار سوامی نے عدالت میں دلیل دی۔
سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ تمہید میں یہ الفاظ شامل کرنا آرٹیکل 368 کے تحت پارلیمنٹ کو دیے گئے آئینی ترمیم کے اختیار سے باہر ہے۔ سماعت کے دوران عرضی گزار سبرامنیم سوامی نے کہا کہ آئین کی تمہید میں کی گئی تبدیلیاں اصل آئین کی روح کے خلاف ہیں۔ سوامی نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ اپنی دلیل تفصیل سے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد ہی عدالت نے سماعت کی تاریخ بڑھا دی۔راجیہ سبھا کے سابق رکن پارلیمنٹ سبرامنیم سوامی اور وکیل وشنو شنکر جین آئین کے دیباچے سے سوشلزم اور سیکولرازم جیسے الفاظ کو ہٹانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ گزشتہ سماعت میں جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس دیپانکر دتہ نے اس معاملے پر بحث کی تھی۔ جسٹس دیپانکر دتہ نے کہا تھا کہ جب آئین کو اپنایا گیا تو یہ دو الفاظ اصل شکل میں نہیں تھے۔
عرضی گزار سبرامنیم سوامی نے دلیل دی کہ تمہید میں ترمیم نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے اس میں کی گئی ترمیم واپس لی جائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ 42ویں ترمیمی ایکٹ 1976 میں منظور کیا گیا تھا۔ یہ دونوں الفاظ 1949 کے آئین کی اصل تمہید میں نہیں تھے۔