تحریر:عبد السلام عاصم
ایسا محسوس نہیں ہو رہا ہے! بلکہ واقعی ہم تاریک عہد کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ سر دست پوری دنیا ماضی پرستی کے عذاب میں مبتلا ہے۔ حسبِ استدلال و روایات جو ادیان کل تک تاریک عہد میں روشنی پھیلانے کے ذرائع تھے آج اُن کے حوالے سے بس ایسی باتیں کی جا رہی ہیں جو فریقین کو ٹکراو کے موڑ تک لے جائیں۔ مذاہب کے احیا کے نام پر دنیا کے ایک سے زیادہ ملکوں میں حشر برپا ہے۔ معلوم تاریخ بتاتی ہے کہ سائنسی ترقی کا سفر اُسی روشنی میں شروع ہوا تھا جس کا نظم مختلف عہد کے ادیان نے کیا تھا۔
اِس روشنی کے جو اغراض و مقاصد کتابوں میں درج ہیں اُن کی تکمیل کی روایات بھی جلد در جلد موجود ہیں۔ باوجودیکہ یکسر مختلف حالات، واقعات اور سانحات کا جاری سلسلہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ انہی میں سے ایک سوچ یہ بھی ہے کہ متذکرہ روشنی اپنے سفر میں ایک سے زیادہ عہد کے بعض تاریک گوشوں کو منور کرنے میں کسی نہ کسی سبب سے ناکام رہی۔ اس طرح کچھ تاریکیاں مٹنے سے رہ گئی تھیں یا کسی سبب سے عادتاً ؍رسماً روشن ہونے والے ذہنوں کا حصہ بنی رہیں، اگر وہ گوشے بھی روشن ہو گئے ہوتے تو ارتقاء کے سفر میں انسانی جانوں کو حق و باطل کی اُن جنگوں سے گزرنا نہیں پڑتا جو دلوں کو جیتنے اور قلوب کو بدلنے کیلئے نہیں، در اصل سیاسی عزائم کے ساتھ لڑی گئی تھیں۔ یہ وہ جنگیں تھیں، جن کا مقصد سیاسی غلبہ حاصل کرنا تھا۔
ماضی پرستی کی تازہ لہر میں آج ایسی ہی سیاسی جنگ نے دنیا کے ایک سے زیادہ ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ جو قومیں /ممالک کل تک ناظر تھے اب وہ بھی میدان میں اتر آئے ہیں۔ تاریک عہد کی طرف لوٹنے کی اِس دوڑ میں بر اعظم امریکہ آگے ہے یا بر صغیر، یہ طے کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اِس وقت امریکہ کو جہاں مسیحیت کے پر تشدد احیا کا سامنا ہے وہیں برصغیر میں اسلام کے پھیلنے کے اسباب کا از سر نو جائزہ اس طرح لیا جا رہا ہے کہ نوبت مار کٹائی سے کھدائی تک جا پہنچی ہے۔ کہتے ہیں جب سچ کو دعوے کے ذریعہ ثابت کرنے کوشش کی جاتی ہے تو اِس میں کامیابی کا کوئی زینہ آئندہ کے کسی انقلاب میں شکست و ریخت کا سامنا کرنے کا متحمل نہیں ہوتا۔ ایک سے زیادہ قوموں کا ماضی او رحال ایسے ہی تجربات سے عبارت ہے۔
دنیا گول ہے! اس سائنسی تحقیق کی تردید سے تصدیق تک کے سفر کے تازہ موڑ سے موجودہ نسل کو اس قدر تکلیف کے ساتھ گزرنا پڑے گا، اِس کا اندازہ لگانے میں اہلِ نظر بظاہر ناکام رہے۔ اِس ناکامی نے جن عناصر کو کامیاب بنایا ہے اُن سے فوری نجات ممکن نہیں۔ یہ وہ خواص ہیں جنہوں نے علم سے صرف جہل بھنانے کا کام لیا ہے اور ہر گلی، محلے میں ایسے نوجوانوں کی بھیڑ پیدا کر دی ہے جو رات دن برقی میڈیا پر مناظرہ بازی میں لگے ہوئے ہیں۔ وطن عزیز میں اِدھر کچھ دنوں سے مذہبی اور حسّاس موضوعات پر ذرائع ابلاغ خاص طور پر ٹیلی نیوز چینلوں پربے ہنگم بحث کا ایک سلسلہ چل پڑا ہے۔ ایسے مباحثوں میں ایک طرف مذہب میں کیڑے نکالنے والے لوگ ہوتے ہیں اور دوسری طرف مذہب کو جاننے سے زیادہ ماننے والے۔ بحث کے ناظم کی بظاہر کوشش بس یہ نظر آتی ہے کہ ہر ناظرصرف اُس کے چینل تک محدود ہو کر رہ جائے۔
ایسے مباحثوں میں مذہب کو تنقید کا نشانہ بنانے والے سیاق و سباق سے ہٹ کر کوئی بھی واقعہ پیش کر دیتے ہیں اور پھر اس واقعے کی سنگینی پر سوالات قائم کرنے لگتے ہیں۔ سوال قائم کرتے وقت معترضین انتہائی چابک دستی سے ایسا سماں باندھ دیتے ہیں کہ رٹا رٹایاجواب دینے والاخود کو ہر طرف سے جکڑا ہوا محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس کے بعد وہ دیکھتے دیکھتے ہی بحث کے دائرے اور ضابطے سے باہر نکل کر چیخنے لگتا ہے۔ اِ س طرح سننے والوں کی ایک بڑی اکثریت کے سامنے سوال قائم کرنے والا ہیرو اور جواب میں دھمکی تک پر اتر آنے والا ویلن بن جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے! اس کا دو ٹوک جواب یہ ہے کہ علم اور عقیدے پر موازنہ جاتی یا مقابلہ جاتی بحث کی مطلق کہیں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ دنیا اور آخرت کے حوالے سے علمی بحث کا دائرہ بھی اخلاقیات تک ہی محدود رکھنے میں عافیت ہے۔ ظاہری رسوم یا ضابطوں کو درمیان میں نہیں لایا جا سکتا۔ جو لوگ مذہبی تعلیمات اور عقائد کو خلط ملط کر کے باتیں کرتے ہیں وہ کبھی کسی جویا ذہن کو مطمئن نہیں کر سکتے۔ دوسری طرف روشن خیالی کا لیبل لگاکر گھومنے والے مفسدین ہمیشہ نزاعی موقعوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اُنہیں علم، فلسفے اور ادیان سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ وہ محض اختلافات کیش کرتے ہیں اور ہتھے چڑھ جانے والوں کو نوازتے رہتے ہیں تاکہ آئندہ بھی وہ انہیں اپنے کاروبار کیلئے خام مال کے طور پر استعمال کر سکیں۔
حیرانی اُس وقت ہوتی ہے جب بعض مستند تو نہیں مگر شہرت رکھنے والی ملی تنظیموں کے ذمہ داران کی طرف سے بھی ایسے بیانات سامنے آجاتے ہیں جن سے ملک و ملت کا کوئی بھلا نہیں ہو سکتا، صرف خام جذبات کی تسکین ہو سکتی ہے۔ ایسے بیانات سے گمراہ کُن حالات کی شدت کم کرنے میں کوئی مدد نہیں ملتی۔ عربی اور عجمی کی لڑائی نے اب ایک نئی شکل اختیار کر لی ہے جس میں ہر مخالف دوسرے کو نجات کیلئے کہیں اور چلے جانے کا مشورہ دینے لگاہے۔ ہجرت کرنا اور مہاجروں کو پناہ دینا بالترتیب دو الگ الگ حالات اور جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ا گر مہاجروں کو آج بھی دنیا کے کسی خطے میں پناہ مل رہی ہے تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے ابھی دنیا پوری طرح بے حس نہیں ہوئی۔ لیکن جس ملک یا خطے سے کوئی ہجرت کرتا ہے وہاں انسانیت کو دم توڑتا دیکھنے والے آخر کس مٹی کے بنے ہوتے ہیں! اُنہیں وقت کے آئینے میں اپنی صورت دیکھ کر شرم کیوں نہیں آتی!! تشدد میں آج تک کسی مذہب کی موت نہیں ہوئی۔ تشدد میں صرف انسان مارے جاتے ہیں۔ اگر تشدد سے مذاہب کا خاتمہ ممکن ہوتا تو ترقی یافتہ قوموں کی موجودہ فہرست سے ایک قوم غائب ہو گئی ہوتی۔
بر صغیر کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ہمیشہ نان ایشوز کو اصل مسائل کے طور پر سامنے لا کر بعض سیاسی، سماجی اور مذہبی ادارے اپنا کاروبار چلاتے ہیں۔یہاں کے کثیرمذہبی اور کثیرتہذیبی معاشرے میں امن کیلئے کیا اکثریت اور اقلیت کو ایک دوسرے کے ساتھ بالترتیب حاکم اور محکوم کی طرح پیش آنا ضروری ہے! اگر نہیں تو دونوں فرقوں کے باشعور اور ذمہ دار حلقوں پر لازم ہے کہ وہ خوف اور نفرت کے موجودہ ماحول کو ختم کرنے کی عملی کوشش کریں۔یہ ماحول زندگی کو کسی طور تحفظ کی ضمانت نہیں دیتا۔ وقت آگیا ہے کہ اب ہم اِس ادراک سے کام لیں کہ برصغیر کے معاشرے میں رائج تعصب اور تنگ نظری پر مبنی خیالات ہی زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کرتے آئے ہیں۔ میڈیا میں مچی تباہی بھی اسی کا نتیجہ ہے۔
ہم کیسے ہیں! اچھے یا بُرے! یہ ہمیں دوسروں کی بے روک ٹوک رائے سے ہی پتہ چل سکتا ہے! اور کوئی دوسرا ایسا ذریعہ نہیں جس سے اِس بات کی تصدیق ہو کہ ہم کیسے ہیں! اِس ملک کی اکثریت اور اقلیت دونوں کو بس یہ سبق پڑھانے کی ضرورت ہے کہ وہ ایک دوسرے کو آئینہ دکھانے کے بجائے خود کو ایک دوسرے کی آنکھوں کے آئینے میں دیکھیں اور اپنی کمیاں دور کریں۔ اِس دنیاوی تقاضے کی خاطر خواہ تکمیل ہی دونوں کو اپنے ادیان سے صحتمند استفادہ کرنے کی توفیق عطا کر سکتی ہے۔
اک دوسرے کی آنکھیں ہماری ہیں محتسب
اِن آئینوں میں آ کہ سنواریں ہم اپنا حال
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)