مقبول احمدسراج
جنوبی ہند کی سب سے نامور تعلیمی تحریک کے رہ نما ڈاکٹرممتازاحمدخان جمعرات 27؍مئی 2021کی شب مختصرسی علالت کے بعد رحلت فرماگئے۔ اِنَّالِلّٰہ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
ڈاکٹرممتاز86برس کے تھے اور وہ پسماندگان میں اپنی اہلیہ، دوبیٹیاں اور ایک لڑکا چھوڑ گئے ہیں۔ ڈاکٹرممتاز یوں تو تعلیمی استعداد کے لحاظ سے MBBSتھے لیکن انہوں نے کبھی ڈاکٹری نہیں کی۔ ان کی نظرملت مسلمہ کو لاحق ان بڑی علّتوں پر تھی جن کی وجہ وہ امت آج مجبور، مظلوم اور مقہور ہے۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی نئی نسل میں عصری تعلیم اور دینی بنیادوں پر اخلاق سنوارنے میں صرف کردی اور اپنے پیچھے تقریباً پونے دو سو جدید تعلیم کے ادارے چھوڑے ہیں جن سے امید کی جاتی ہے کہ ملّت کے نوجوان اس بھری پری دنیا میں اپنا مقام اور اپنی راہیں کھوج لیںگے۔
ان تعلیمی اداروں میں سب نمایاں مقام الامین کیمپس کو ہے جو شہربنگلور کے قلب میں واقع لال باغ بوٹینکل گارڈن (Lalbagh Botanical Garden) کے روبرو واقع ہے۔ یہاں آرٹس، سائنس و کامرس کالج کے علاوہ فارمیسی، ٹیچرزٹریننگ، مینجمنٹ اور لاء کے کالجز اور انفارمیشن سائنس کا انسٹی ٹیوٹ بھی ہے۔ اس سے ملحق الامین پرائمری، ہائی اسکول اور پری یونیورسٹی کالج بھی ہیں۔
یہ کیمپس ڈاکٹرممتازکی مہم جویانہ تعلیمی قیادت کی مجسّم علامت ہے۔ یہ ان کی ان قربانیوں کی یادگار بھی ہے جس کے لئے انہوں نے کبھی سردھڑکی بازی لگانے کا تہیہ کرلیا تھا۔ یہیں سے ان کے تعلیمی کاروان کا آغاز ہوا اوروہ اسی کے دفتر میں اپنے آخری ایّام تک بھی بیٹھاکرتے تھے۔ اس کی بنیادوں میں ڈاکٹرصاحب نے اپنا خون، پسینہ اور ساری موروثی دولت لگادی تھی اور یہیں سے ان کے ادارے بیلدار شاخوں کی مانند پھوٹے تھے اور ساری ریاست کرناٹک میں پھیل گئے تھے۔ اس کالج کی تعمیر کی اولین دنوں کی داستان رونگٹے کھڑے کرسکتی ہے۔
ڈاکٹرممتاز کی فیملی ٹمل ناڈو کے شہر ترچناپلّی کی رہنے والی تھی۔ ان کے دادا اور والد ایک ندی کے کنارے خوبصورت بنگلے کے ساکن تھے جس کے اطراف چار ایکڑباغ ہواکرتا تھا۔ والدہ اور والد دونوں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ تھے اور سرسیدکی ولولہ انگیزفکر کے پیروکار تھے۔ بنیادی اور ہائی اسکول کی تعلیم شہر ترچناپلّی کے عیسائی اسکولوں میں ہوئی اور ڈاکٹرصاحب نے مدراس کے اسٹینلے میڈیکل کالج (Stanley Medical College) سے MBBSکیا۔ وہ اسی میڈیکل کالج میں لکچرر بھی مقرر ہوئے اور اسی درمیان 1965میں بنگلور میں ایک تاجر فیملی کی خاتون سے رشتہ ازدواج میں بندھ گئے۔ جب بنگلور منتقل ہوئے تو مقامی مسلم کمیونٹی کی حالت زار پر ترس آیا۔ شہرمیں مسجدوں کے علاوہ اور کوئی ملاقات کی جگہ نہیں تھی اور مسجدوں میں سماجی، معاشی اور سیاسی حالات پر غور وفکر کی گنجائش نہیں تھی۔
ڈاکٹرممتاز نے شہر میں عصری تعلیم کے ادارے قائم کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور شہر کے عمائدین سے اظہار خیال کیا۔ 1965میں الامین ایجوکیشنل سوسائٹی کی بنیاد دالی جس کی اولین صدربیگم عباسیہ مکّی تھیں جو بعد میں ریاستی قانون ساز کونسل میں MLCبھی منتخب ہوئیں۔ ان کی مدد سے شہر کے خلاصی پالیم نامی محلے کے ایک کرایہ پر حاصل شدہ بنگلہ سے الامین کالج کی بنیاد ڈالی گئی۔ اس برس کوئی 30طلبہ داخل ہوئے۔ فیس سے حاصل شدہ آمدنی صفر کے برابر تھی اور صرفہ بہت زیادہ۔ ڈاکٹرصاحب نے کبھی میڈیکل پریکٹس کرنے کا خیال بھی نہ کیا حالانکہ انہوں نے MBBSکی ڈگری امتیازی نمبروں سے حاصل کی تھی اور بعدازاں MSمیں داخلہ بھی لیا تھا جسے انہوں نے Discontinue کردیاتھا۔
اپنے چندرفقاء کے ساتھ ڈاکٹرصاحب کاسۂ گدائی لے کر امراء و عمائدین کے پاس جاتے اور ان میں سے چند ان کو میڈیکل پریکٹس کا مشورہ دیتے اور کچھ پھبتیاں بھی کستے۔ ڈاکٹرصاحب اپنی اردو میں تحریرشدہ حالات زندگی میں کہتے ہیں کہ اولین دور انتہائی سخت تھا۔ لکچرر تنخواہوں کا مطالبہ کرتے اور پس پشت سازشیں بھی کرتے اور طلبہ کو ہڑتال پر اکساتے بھی۔
ڈاکٹرصاحب کو ہمیشہ یہ قلق رہا کہ کالج کے ان اساتذہ میں قومی خدمت کا سرے سے فقدان تھا اور یہ محض مالی منفعت کی خاطر نوکری کرتے تھے۔ اس کا تذکرہ انہوں نے اپنے حالات زندگی میں کیا ہے۔ کچھ معاونین کی مدد سے انہیں لال باغ کے روبروقف کی زمین الاٹ ہوگئی جس پر تقریباً 2000جھونپڑیاں تھیں۔ سرکاری کارروائی کے بعد اس جگہ کو خالی کروالیاگیا اور ان کے ساکنوں متبادل جگہیں دی گئیں۔ عارضی عمارت میں 1967میں الامین کالج منتقل ہوا۔ لیکن ایک صبح انہوں نے دیکھا کہ مقامی غنڈوں نے اس زمین کے عین بیچ میں چندجھونپڑیاں ڈال دی ہیں۔ 2016میں ڈاکٹرصاحب سے طویل گفتگو میں انہوں نے مجھے بتایا کہ یہ غنڈے کچھ بااثرلوگوں سے ہاتھ ملائے ہوئے تھے جو ان کے مشن کو ناکام کرنے کے درپے تھے۔ سرکاری عہدے سے سبک دوش ایک اعلیٰ افسررحمت اللہ خان اور دیگر چندرفقاء نے ان جھونپڑیوں کو اٹھاکر پھینک دیا اور کالج کی زمین خالی کروالی۔ ڈاکٹرصاحب کہتے تھے کہ میں نے تہیہ کرلیاتھا کہ ان غنڈوں سے زمین واپس لوںگا چاہے اس کے لئے میری جان ہی کیوں نہ جائے۔ اس قضیئے کے صلے میں ان پر پولیس کی جانب سے FIRبھی ہوئی اور عدالتی چارہ جوئی بھی کرنی پڑی اور یہ کیسیز 1980تک چلتے رہے جب ریاستی حکومت نے تمام Casesکالعدم کردیئے۔ ڈاکٹرصاحب کی جوانمردانہ جدوجہد کا نوٹس لیاگیا۔ لیکن عمائدین ابھی بھی تردّد کا شکارتھے اور اپنے بٹوؤں کی ڈوری ڈھیلے کرنے سے کتراتے تھے۔
1967تک کالج میں 300طلبہ داخلہ لے چکے تھے۔ 1968میں بنگلور یونیورسٹی سے الحاق کی عرضی کے ساتھ ملحق 2000روپیوں کا چیک بینک اکاؤنٹ میں جمع شدہ رقم ناکافی ہونے کی وجہ سے مسترد کردی گئی۔ یہ ایک بڑا دھچکہ تھا۔ دوسرے برس۔ بہترتیاری کی گئی اور Affiliationمل گیا۔ 1970میں محکمہ کالجیٹ تعلیم نے اساتذہ کی تنخواہ کی کل رقم کا 75فیصد گرانٹ کی شکل میں دینا منظور کرلیا۔ مگر حالات ہنوز سخت رہے۔ ڈاکٹرصاحب نے ترچناپلّی میں اپنا بنگلہ اور باغ فروخت کرڈالا اور یہ رقم کالج کے مصارف کی خاطر خرچ کرڈالی۔ اگلے برس اپنی اہلیہ کے والدین کی جانب سے عطیہ شدہ آدھا ایکڑ شہری آراضی بھی اسی خاطر بیچ دی گئی۔ انہوں نے بتایاتھا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ تنخواہ کے مصارف کی خاطر کوئی فنڈ موجود نہ تھا اور وہ اور ایک اوررفیق فلم ایکٹرمحمود کے فارم ہاؤز پر گئے اور دہائی دی۔ محمود نے کالج کی بنیاد کی خبر سن کر فوری طور اس ماہ کی تمام تنخواہوں کی مساوی رقم لاکر حاضر خدمت کی اور آئندہ بھی عطیات جاری رکھنے کا وعدہ کیا۔
ڈاکٹرصاحب کہتے تھے کہ 1970تک شہربنگلور میں ان کی پہچان Donation Collector کی تھی نہ کہ کسی تعلیمی ادارے کے بانی کی۔ کچھ لوگ ان کی صورت سے بیزارتھے۔ لیکن اس کے بعد حالات تبدیل ہونے لگے۔ شہر کے کئی معزز تاجرمثلاً حاجی عبداللطیف طیوب (HALT)، قالین کے بیوپاری اعظم جان، محمدحسن سیٹھ، ٹمبرمرچنٹ علیم اللہ خان، رحیم خلیلی وغیرہ نے ساتھ دیا تو کالج کی حالت سدھری۔ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ رحمن خان (جو بعد میں MLC ، MPاور مرکزی وزیربنے)، مقصود علی خان،ابراہیم خلیل خان جیسے سماجی خادموں نے ڈاکٹرصاحب کا بھرپور تعاون کیا۔ الامین کالج کے حالات سدھرنے کے ساتھ ہی ڈاکٹرممتاز نے تعلیم کے دیگر شعبوں اور ریاست کے دیگر مقامات کی طرف توجہ دی اور جلدہی بنگلور سے 45کلومیٹردور رام نگرم میں تاجرنبی شریف صاحب کی مدد سے غوثیہ انجینئرنگ کالج قائم کیا۔ بنگلور کے ہسورروڈ میں طالبات کے لئے غوثیہ پالی ٹکنک اور غوثیہ انڈسٹریل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ (ITI)قائم کیا۔
کولار میں کئی اسکولوں کے قیام کے بعد الامین ڈگری کالج قائم ہوا جسے بعد میں ڈاکٹرممتاز احمدخان کے نام سے منصوب کیا گیا۔ اسی درمیان الامین میڈیکل اینڈ چیریٹبل ٹرسٹ کی بنیاد ڈلی گئی جس نے وزیراعلیٰ راماکرشناہیگڈے کی وزارت میں بیجاپور میں الامین میڈیکل کی اجازت حاصل کرلی۔ آج اس شہر میں 300 -ایکڑزمین پر الامین میڈیکل، ڈینٹل، فارمیسی اور نرسنگ کالج بھی قائم ہیں۔ بنگلور میں کننگھم روڈ پر الامین آسپتال کی بنیاد رکھی گئی۔ جوں جوں کارواں بڑھتا گیا نئے رفقاء ملتے گئے اور دور دراز کے اضلاع مثلاً بیدر اور اس کے نواح میں ہمنآباد میں کئی الامین اسکول اور کالج قائم ہوگئے۔
1977میں الامین گروپ نے امانت کوآپریٹیوبینک کی بنیاد رکھی جس نے پہلے 25برس بڑی کامیابی سے پورے کئے مگر اس کے بعد قرضوں کی عدم ادائیگی اور گروپ کے اراکین کے درمیان اختلافات کی بناء پر ریزروبینک آف انڈیا کے Moratorium کے لگنے سے اپنی ساکھ کھوبیٹھا۔ ایسا ہی کچھ معاملہ الامین فائنانشیئل انوسٹمنٹ کارپوریشن کا بھی ہوا جسے دس یا بارہ برسوں کے بعد تحلیل کرنا پڑا۔ ڈاکٹرممتاز نے اقرار کیا کہ ناتجربہ کاری کی وجہ سے فائنانس اور بینکنگ کے شعبوں میں ان کے اداروں کو نا کامیابی ہوئی۔
ڈاکٹرممتاز نے کئی شخصیات کی حوصلہ افزائی کی اور انہیں اعلی عہدوں تک پہنچایا۔ ان کی تحریک نے دیگر ریاستوں میں بھی اثرات مترتب کئے اور کلکتہ، گوہاٹی، منی پور، راجستھان، گجرات، پونے اور کوچی جیسے مقامات میں الامین نامی ادارے ان کی ہمت افزائی سے وجود میں آئے۔
ڈاکٹرممتاز اپنے آخری ایام میں تقربیاً 175اداروں کے بانی، ٹرسٹی، چیرمین یا سرپرست تھے۔ خودالامین کے تحت انجینئرنگ کالج، پالی ٹکنک، چارڈگری کالج، تقریباً 32ہائی اسکول، کئی پیشہ وارانہ تعلیم کے ادارے، دو درجن سے زائد پرائمری اسکول، کچھ مدارس، دو ITIs، دو اساتذہ کی تربیت کے کالج چلتے ہیں۔اپنے ابتدائی برسوں میں ڈاکٹرصاحب نے گلیوں کی خاک چھانی، لوگوں سے فقرے سنے، تضحیک بھی جھیلی اور اپنی موروثی اثاثوں کو دائوں پر لگادیا۔ آج ان پونے دوسو اداروں میں تقریباً ڈھائی لاکھ طلبہ تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ الامین کالج کے ایک سابق طالب علم ایران کے وزیرخارجہ بھی رہ چکے ہیں۔ کئی ایک نے خلیجی ممالک میں اونچے عہدے پائے۔ حکومت کرناٹک نے 1989میں بومئی کی وزارت کے دوران ان کو قانون ساز کاونسل کی رکنیت آفر کی مگر ڈاکٹرصاحب کی تعلیم کے تئیں ذہنی یکسوئی دیکھئے کہ آپ نے اس عہدے کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔
1970کے دہے کے درمیان الامین تحریک نے بمبئی میں کرناٹک کے حجاج کے قیام کی خاطر کرناٹکا بیت الحجاج کی بنیاد ڈالی جو ریاست سے بحری سفر کے عازمین حج کو مفت قیام کی سہولت مہیا کرتا تھا۔ یہ آج بھی ریاست کے لوگوں کے لئے اپنے دروازے واکئے ہوئے ہے۔
ڈاکٹرممتاز نے ریاست کرناٹک اور خصوصاً بنگلور کے مسلمانوں پر جو احسانات کئے ہیں وہ سنہری حروف میں رقم کئے جانے کے لائق ہیں۔ ان کی تعلیمی تحریک نے عصری تعلیم کو ہرمسلم خاندان تک پہنچانے میں کلیدی رول اداکیا اور نئی نسل کے نوجوانوں کو ایسے ادارے قائم کرنے کی مہمیز بخشی۔ آج بنگلور میں مسلمانوں کے تقریباً 450ہائی اسکول ہیں جن میں 50اعلیٰ بین الاقوامی گریڈ کے اسکول ہیں جن میںنصف اور نصف سے زائد طلبہ غیرمسلم ہوتے ہیں اس طرح ان کی تحریک نے نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ دیگر اقوام کو بھی تعلیمی ترقی کے مواقع فراہم کئے۔ شہر سے قریب ہوسکوٹے میں 30ایکڑزمین پر آپ نے الامین ریذیڈنشیل اسکول قائم کیا اور اس کی مسجد کے قریب اپنی آخری آرام گاہ کی خواہش کی تھی۔ آج یعنی 28؍مئی2021 جمعہ کی نماز کے بعد وہیں ان کی تدفین عمل میں آئی۔
ڈاکٹرصاحب اکثر اپنی تقاریر میں کہا کرتے تھے کہ مسلمانوں کو ماضی کی طرف دیکھنے کی عادت ترک کردینی چاہئے۔ انہوں نے اس صحافی سے گفتگو میں کہا تھا ’’میں نے اپنی زندگی میں پانچ امور کو اپنے لئے رہ نما خطوط کے طور پر اختیار کیا: یہ ہیں۔ بے پناہ صبر، پختہ عزم، ثابت قدمی، حوصلہ مند لوگوں کی صحبت اور بزدلوں سے دوری اور غیرصحت مندانہ تنقیدسے بے توجہی۔‘‘ یہ ان کی زندگی میں بخوبی جاگزیں دیکھے جاسکتے تھے۔ دینی ماحول میں عصری تعلیم کے فروغ کے نکتہ کو انہوں نے بار بار گوش گزار کرنے کی سعی کی اور یہ آج بار آور ہوتی نظر آتی ہے۔ ان کے قائم کردہ تمام کیمپسوں میں مسجدوں کو مرکزیت حاصل ہے جہاں پر نماز کے بعد طلبہ و اساتذہ کو پانچ تادس منٹ تذکیرالٰہی و سیرت رسولؐ کی یاد دہانی پر صرف کئے جاتے ہیں۔
ان عبقری صلاحیتوں کے حامل ڈاکٹرممتاز آج ہمارے درمیان نہیں رہے۔ ان کی تعلیمات ہمارے لئے نقوش راہ ہوںگی۔ بارگاہِ الٰہی میں ان کی مساعی کی قبولیت کے لئے ہم سب دعاگو ہیں۔
ای میل:[email protected]