مولانا عبدالحمید نعمانی
اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شروع ہی سے مختلف طرح کی طاقتیں اور عناصر متحرک رہے ہیں، افغانستان کی تاریخ میں ایسے بہت سے حوالے اور نمونے ملتے ہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد مبارک میں مسلم مجاہدین افغانستان میں داخل ہو گئے تھے تاہم پیش رفت حضرت عثمان غنی رضی اللہ کے عہد میں اور تکمیل فتح حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ہوئی تھی۔ افغانستان کی آبادی اور قبائلی نظام خاصا پیچیدہ ہے، اس کو سمجھے بغیر حضرت عمر فاروق رضی اللہ سے لے کر حضرت عثمان غنی رضی اللہ، امیر معاویہ رضی اللہ اور بعد کے حکمرانوں، عرب مجاہدین، مسلم مشائخ، صوفیا ء، کی خدمات ومجاہدے کی اہمیت و معنویت کا صحیح اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ہے، بنیادی ماخذ، تاریخ اسلام امام ذہبی رح، الکامل لابن اثیر رح، تاریخ اسلام، شاہ معین الدین ندوی رح، مسعودی کی مروج الذھب، انشائیکلو پیڈیا ، دریائے کابل سے دریائے یرموک تک، از مولانا علی میاں ندوی رح ،ظفر حسن ایبک کی آپ بیتی، سیر افغانستان، از علامہ سید سلیمان ندوی رح، وی اے اسمتھ،کی قدیم تاریخ ہند، خواجہ نعمت اللہ ہروی کی تاریخ خان جہانی و مخزن افغانی اور تاریخ افغانستان وغیرھم سے افغانستان کا منظر نامہ سامنے آ جاتا ہے۔
وہاں کے لوگوں کی کوئی ایک تصویر نہیں ہے، ان گنت تصاویر ہیں، اچھائیوں کی طرف لپکنے اور برائیوں کو اختیار کرنے دونوں کے نمونے اور حوالے ملتے ہیں، حضرت حسن بصری ؒ کی دعوت خیر کی طرف بڑھنے اوراستاد سیس جیسے فتنہ گر، نبوت کا دعویٰ کرنے والے کے ساتھ ہو جانے کی دونوں باتیں ہیں۔ ابو مسلم کے قتل کے بعد عرب و عجم کا جو مسئلہ پیدا ہوا تھا اس کا اثر افغانستان پر بھی پڑا تھا، وہاں کے اشتعال انگیز حالات میں ہرات کا ایک مجوسی سند باد، علم بغاوت بلند کرتے ہوئے سامنے آ گیا تھا، اس کے ساتھ ہرات اور ایران کے مجوسی قبائل کی ایک بڑی تعداد لسانی عصبیت کے زیر اثر ہو گئی تھی، سند باد نے بڑی چالاکی سے رفتہ رفتہ اس لسانی عصبیت کا رخ اسلام اور مسلمانوں کی طرف کر دیا اور اعلان کیا کہ ہم کعبہ کو ڈھا دیں گے اور مسلم عورتوں کو باندی بنائیں گے۔
اس کے ساتھ ہی 137 ھجری مطابق 754 ء میں اس نے خراسان کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا، لیکن خالق قدیر نے سند باد کی ہوا جلد ہی نکال دی، منصور عباسی سے اس کا علاج کرا دیا، عباسی جرنیل جمہور بن مرار عجلی نے اپنے دس ہزار سپاہیوں کے ساتھ ہمدان اور رے کے درمیان ایک گھمسان کی لڑائی میں مجوسیوں کو شکست فاش دی اور سند باد فرار ہوتے ہوئے مارا گیا، استاد سیس کا انجام بھی کچھ ایسا ہی ہوا، جب اس نے دعویٰ نبوت کیا تو، ہزاروں افراد اس کے ساتھ ہو گئے، ہرات، باد غیس اور جنوبی افغانستان کے بہت سے جاہل اس کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے، ان کی مدد سے سیس نے افغانستان کے بڑے علاقے پر اپنا تسلط قائم کرتے ہوئے، مرو کے حاکم اجشم کو شکست فاش دے دی، اس کا بھی انجام بد منصور کے ہاتھوں ہوا، اس کے بہادر جرنیلوں نے سخت لڑائی کے بعد استاد سیس کو گرفتار کر کے منصور کے پاس بھیج دیا جہاں اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
ایک سال بعد آذرویہ نامی مجوسی نے کچھ عصبیت پسند قبائل کو ساتھ لے کر عباسی حاکم یزید کو میدان جنگ میں ہرا دیا، زرنج کے حاکم معن بن زائدہ پر حملہ کر کے اس کا پیٹ چاک کر دیا، اس طرح کی شورشوں میں غیر مسلم آبادیوں کا بڑا تعاون و اشتراک ہوتا تھا، تاہم ہارون رشید نے اقتدار سنبھالتے ہی فضل بن یحی برمکی کو افغانستان بھیج کر تمام شورشوں پر قابو پا لیا، فضل نے نہ صرف شورشوں کو دبا دیا بلکہ امن و امان بھی قائم کر دیا، اسی دور میں بودھ مت ماننے والے قبائل پر بھی کنٹرول حاصل کر کے حالات کو صحیح سمت میں موڑ دیا اور اسلام قبول کر چکے قبائل کو عملی انتشار کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے فقہ حنفی کو قانونی طور پر جاری کرا دیا، اس سے یکسوئی پیدا ہو گئی، اس کے اثرات اکثریت پر آج تک پائے جاتے ہیں۔
( سلیم و شاہین اور شیام کے نام ،9؍نومبر 2019)