نئی دہلی :(ایجنسی)
غیر ملکی میڈیا نے ہری دوار میں ’دھرم سنسد‘ نامی پروگرام میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز تقریریں کرنے اور لوگوں کو تشدد پر اکسانے کے معاملے کی گونج بین الاقوامی میڈیا میں بھی سنا دی ہے ۔
امریکہ کے معروف اخبار نیویارک ٹائمز نے اس واقعے کی خبر اپنے صفحہ پر جگہ دی ہے، جس کا عنوان ہے ’ہندو انتہا پسند وںنے مسلمانوں کے قتل عام کی اپیل کی، بھارت کے رہنما خاموش‘
خبر میں لکھا گیا ہے کہ ’اس ہفتے سیکڑوں دائیں بازو کے ہندو کارکنوں اور سنتوں نے ایک سمیلن میں ایک آواز میں حلف لیا۔ وہ آئینی طور پر ایک سیکولر ملک کو ہندو راشٹرمیں تبدیل کر دیں گے، چاہے اس کے لیے مرنے اور مارنے کی ضرورت پڑے
۔‘
’ہندو مہاسبھا کی رہنما پوجا شکن پانڈے نے کہا، ’اگر ہم میں سے 100 ان 20 لاکھ لوگوں کومارنے کے لیے تیار ہیں تو ہم جتیں گے اور بھارت کو ایک ہندو راشٹر بنائیں گے۔‘ ان کااشارہ ملک کے مسلمانوں کی جانب تھا۔ انہوں نےکہاکہ مارنےکےلیے اورجیل جانےکے لیے تیار رہو۔‘
مزید برآں نیویارک ٹائمز اخبار لکھتا ہے کہ بھارت کی وہ پولیس جو عدم ثبوت کی بنیاد پر بھی انسانی حقوق کے کارکنوں اورمزاح نگاروںکو جیل بھیجنے کے لیے تیار رہتی ہے ،اس معاملے میںکارروائی کرنے میں سست روی کا مظاہرہ کررہی ہے ۔
اخبار نے پولیس کے بعد اپوزیشن سیاست دانوں کی خاموشی پر بھی لکھا ہے کہ ‘اس معاملے میں اپوزیشن کے سیاسی گروپوں کی خاموشی بھی برقرار ہے جودکھاتا ہے کہ مودی جی کے 2014 میں دفتر سنبھالنے کےبعد ملک کو دائیں بازو ہندو راشٹر وادی نے کتنا اپنی پکڑ میں لے لیا ہے ۔
نیویارک ٹائمز اخبار لکھتا ہے، ’اشتعال انگیز تبصرے اس وقت آ رہے ہیں جب مسٹر مودی کی بی جے پی کچھ ریاستی حکومتوں میں برسراقتدار ہے اور اتر پردیش اور اتراکھنڈ میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ مسٹر مودی اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کے لیے انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ جو ریاست کے وزیر اعلیٰ ہیں اور کئی بار مسلم مخالف نفرت کو ہوا دے چکے ہیں۔‘
’’انتخابی موسم میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں، جن میں مسلمانوں کے کاروبار کو نشانہ بنانے کی کوششیں بھی شامل ہیں۔‘‘
نیویارک ٹائمز لکھتا ہے کہ’ ‘دائیں بازو کے ہندو قوم پرست برسوں سے آن لائن تشدد کو فروغ دے رہے ہیں، لیکن حال ہی میں تشدد سڑکوں پر پہنچا ہے۔ ہندو خواتین کو پھنساکرتبدیلی مذہب کے الزام کے بعد سڑکوں پر مسلمان پھل فروش کو پیٹا گیا اور ان سے ان کی کمائی چھینی گئی ہے۔ مسلم کارکنانوں کو دہشت گردی قانون کے ذریعہ دھمکیاں دی گئی ہیں۔
قطر کے میڈیا گروپ الجزیرہ نے بھی اس واقعے سے متعلق خبریں اپنی ویب سائٹ پر شائع کی ہیں۔
الجزیرہ نے اپنی رپورٹ کا عنوان دیا ہے۔’’بھارت: مسلمانوں کے قتل عام کی اپیل کرنے والے ہندو سمیلن پر غم وغصہ۔‘
خبر میں لکھا گیا، ’ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بھارت میں ہندو مذہبی رہنما مسلمانوں کے خلاف نسل کشی کی اپیل کر رہے ہیں، جس پر غم و غصہ پھیل گیا اور کارروائی کی مانگ کی گئی ہے۔‘
امریکی میڈیا گروپ بلومبرگ نے بھی اس خبر کو اپنی ویب سائٹ پر شائع کیا ہے اور اس کا کیپشن دیا ہے ’’ ‘مذہبی تقریب میں مسلم مخالف تقریر پر پولیس کی جانچ۔‘‘
خبر میں لکھا گیا، ’ہندوستانی پولیس نے شمالی شہر ہری دوار میں ایک ہندو مذہبی کنونشن کی ویڈیو میں نفرت کو ہوا دینے پر مجرمانہ جانچ شروع کر دی ہے۔ سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی ویڈیوز میں بھگوا لباس میں ملبوس سنت نسلی کشی اور تشدد کی وکالت کررہے ہیں ۔‘
ساتھ ہی پاکستان کے انگریزی اخبار ‘’دی ایکسپریس ٹریبیون‘ نے بھی اس خبر کو اپنے صفحہ پر جگہ دی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کینتھ روتھ نے نیویارک ٹائمز کی خبر کو ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا، ’ہندو انتہا پسند مسلمانوں کے قتل کا مطالبہ کر رہے ہیں۔بھارت بھر میں بڑھتے ہوئے مسلم مخالف جذبات کی ایک زندہ مثال۔ بھارت کے رہنما خاموش۔‘‘
واشنگٹن میں عرب خلیجی ریاستوں کے انسٹی ٹیوٹ کے سینئر ریذیڈنٹ اسکالر حسین ابیش نے ٹویٹ کیا: ’مودی کی بنیاد کا اہم حصہ: ایک بھرے آڈیٹوریم میں جہاں دائیں بازو کے ہندو سنتوں نے دوسرے ہندوؤں کو ہتھیار اٹھانے اور مسلمانوں کو قتل کرنے کے لیے کہا، جن میں بااثر مذہبی لیڈر تھے جن کے مودی کی حکمراں پارٹی سےقریبی تعلقات ہیں اور کئی تو پارٹی کےممبر ہیں ۔‘‘
(بشکریہ: بی بی سی ہندی)