نئی دہلی :(ایجنسی)
مغربی اترپردیش میں اسمبلی انتخابات کے لیے ووٹنگ ہوئی ہے اور بی جے پی کو نقصان ہونے کی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔
مانا جا رہا ہے کہ یہاں جاٹ اور مسلم ووٹر مل کر بی جے پی کے لیے چیلنج بن سکتے ہیں۔ انگریزی اخبار اکنامکس ٹائمس نے اپنی ایک رپورٹ میں اس کی تحقیقات کی ہیں۔ آج کے پریس ریویو تک اس رپورٹ کو پڑھیں۔
وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ایک ماہ قبل اترپردیش اسمبلی انتخابات کو لے کر 80 بمقابلہ 20 کا متنازع بیان دیا تھا۔ لیکن میرٹھ میں کرانے کی دکان چلانے والے 40 سالہ محمد شمیم کہتے ہیں کہ میرٹھ میں یہ لڑائی 60-40 کی ہے۔
ووٹنگ سے ایک دن پہلے یعنی 9 فروری کو شمیم نے کہا، ’شہر میں تقریباً 40 فیصد مسلم آبادی ہے اور ان سبھی نے سماج وادی پارٹی اور راشٹریہ لوک دل کے اتحاد کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ بی جے پی کے پاس یہاں کوئی موقع نہیں ہے۔‘
میرٹھ میں، بی جے پی نے نوجوان لیڈر کمل دت شرما کو موقع دیا ہے، جن کا سامنا موجودہ ایس پی ایم ایل اے رفیق انصاری سے ہے۔ میرٹھ ضلع میں سات اسمبلی حلقے ہیں۔ جس میں میرٹھ، میرٹھ کینٹ، میرٹھ ساؤتھ، سیوال خاص ، سردھنا، ہستنا پور اور کٹھوڑ ہیں۔ یہاں 10 فروری کو ووٹنگ ہوئی اور یوپی میں پہلے مرحلے میں کل 60.1 فیصد ووٹنگ ہوئی ۔
مغربی یوپی میں پرانے وفادار ووٹروں کو اپنے پالےمیں کرنے کےلیے نئے سیاسی فارمولیشن دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ اکھلیش یادو کی قیادت والی سماج وادی پارٹی نے یہاں جینت چودھری کی آر ایل ڈی کے ساتھ اتحاد کیا ہے تاکہ جاٹوں کی حمایت حاصل کی جا سکے جو زرعی قوانین کو واپس لینے پر بی جے پی سے ناراض ہیں۔
دریں اثنا، بی جے پی بھی گھر گھر مہم، سماج وادی پارٹی پر غنڈہ راج چلانے کے الزام لگانے، جاٹ ووٹروں تک پہنچنے کی کوشش کررہی تھی۔
لیکن یوپی کے اس اہم علاقے کے ووٹروں کی رائے منقسم ہے۔ گھنٹہ گھر کے قریب مٹی کے برتنوں کی دکان چلانے والے پی ایل آہوجا کہتے ہیں، ’میرٹھ میں بی جے پی امیدوار شرما جیتیں گے۔ شرما کی شبیہ صاف ہے۔ اس کے ساتھ ہی اب غنڈہ گردی بھی کم ہوئی ہے اور غریبوں کو مہینے میں دو بار مفت راشن ملتا ہے۔ ان سب کے علاوہ،آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین اوربہوجن سماج پارٹی مسلم امیدواروں کو کھڑ کررہےہیں،جس سے مسلمانوں کا ووٹ تقسیم ہوجائےگا۔
لاک ڈاؤن کے دوران محمد انصاری کو اپنی کھیل کے سامان کی دکان بند کرنی پڑی تھی۔ انصاری جو یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ اس شہر میں سائیکل (ایس پی کا انتخابی نشان) ہی چلے گی۔ وہ پوچھتے ہیں، ’میں بے روزگار ہوں، کیا یہ کافی نہیں ہے؟‘
ای ٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جاٹ-مسلم اتحاد، جو 2013 کے مظفر نگر فسادات کے بعد ٹوٹ گیا تھا، اب ایک بار پھر اکٹھا ہو گیا ہے لیکن ٹکڑوں میں۔
مظفر نگر میں ہوا کس سمت چل رہی ہے؟ اس سوال پر علاقے کی چرتھاول اسمبلی سیٹ کے نارا گاؤں کے رہنے والے ویر چند کہتے ہیں، ’جاٹ ووٹر 60 فیصد ایس پی اور آر ایل ڈی کے حق میں ہیں، جبکہ 40 فیصد بی جے پی کے حق میں ہیں۔ تاہم شہری علاقوں میں یہ تناسب 50-50 ہے۔ بی جے پی کے خلاف اب بھی کچھ غصہ ہے لیکن ہمارا ووٹ اسی کو جائے گا۔موجودہ اقتدار میں ہماری بیٹیاں آزاد گھوم پھر سکتی ہیں۔اور ہندوؤں کی آواز اٹھاتی ہیں۔اس کے علاوہ ہمیں گنے کا بقایا جات بھی وقت سے ملتاہے ۔ تیاگی کا کہنا ہے کہ حکومت مخالف لہر کی وجہ سے جیت کا فرق کم ہو سکتا ہے، لیکن بالآخر بی جے پی اتر پردیش میں حکومت بنائے گی۔
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
بی جے پی نے 2017 میں مظفر نگر کی تمام چھ سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔
چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ کے شعبہ سیاسیات کے پروفیسر راجندر کمار پانڈے کہتے ہیں، ’یہ کہنا کہ جاٹوں میں بی جے پی کے خلاف غصہ ہے، غلط ہو گا۔ بی جے پی نے زرعی قوانین واپس لیے جانے کےبعد کسانوںکا کھویا ہوا اعتماد واپس پا لیاہے ۔‘
سی ایس ڈی ایس کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر سنجے کمار کا کہنا ہے کہ ’میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ مسلمان اور جاٹ اپنے فاصلے مٹادیں گے لیکن اس بار ان دونوں کا دشمن ایک ہی ہے۔ ا ن کے من میں یہ بات آگئی ہے کہ اگربی جے پی کو ہرانا ہے تو انہیں ایک ہونا پڑے گا۔‘
ایس پی – آر ایل ڈی میں رسہ کشی
کچھ سیٹوں پر ایس پی اور آر ایل ڈی کے درمیان رسہ کشی صاف دیکھنے کو مل رہی ہے۔ سیوال خاص سیٹ پر اتحاد نے ایس پی کے سابق ایم ایل اے غلام محمد کو آر ایل ڈی کے انتخابی نشان پر ٹکٹ دیا ہے جس کی وجہ سے جاٹوں میں ناراضگی ہے۔
اس علاقے میں آر ایل ڈی کے ایک رہنما کا کہنا ہے، ’’جب بی جے پی ایک آپشن ہے تو جاٹ مسلمان امیدوار کو ووٹ کیوں دیں گے؟‘‘ کچھ جاٹ آر ایل ڈی کے جینت چودھری سے ناراض ہیں کیونکہ انہوں نے ایس پی امیدواروں کو اپنے نشان پر لڑنے کی اجازت دی ہے۔ایس پی امیدوار کے لیے اپنی دعویداری چھوڑنے کا دعویٰ کرنے والے ایک آر ایل ڈی امیداور کہتے ہیں ’ اگروہ ہارے توسارا الزام آر ایل ڈی کو جائےگا، اگر وہ جیتے توسارا کریڈٹ ایس پی کے کھاتے میںجائےگا۔‘
روایتی ووٹ تقسیم؟
جہاں تک بی جے پی کا تعلق ہے، اس کا روایتی ووٹ بینک لودھ، برہمن، گوجر اور غیر جاٹو- دلت کئی حصوں میں تقسیم رہے ہیں۔ گزشتہ الیکشن میں بی جے پی نے بلند شہر کی تمام ساتوں سیٹیں جیتی تھیں،لیکن اس بار اقتدار مخالف لہر کو دیکھتے ہوئے بی جے پی حورجہ ، دیبائی،بلندشہر اورسکند ر آباد جیسی چاروں سیٹوں پر نئے امیدواروںکو ٹکٹ دیاہے ۔
ساتھ ہی بی ایس پی کے مضبوط ووٹر مانے جانے والے جاٹو اس بار دوسرے آپشنز پر بھی غور کر رہے ہیں۔ سکندرآباد کے جاٹو گاؤں منسکھ گڑھی میں رہنے والے ایک کسان اشوک کمار جاٹو کہتے ہیں، ’ بی ایس پی کو ووٹ دینا بیکار ہے کیونکہ مایاوتی کسی دباؤ میں نظر آتی ہیں۔ ہم جذباتی طور پر بہن جی کے ساتھ ہیں لیکن بی جے پی کو روکنے کے لیےہم بھیا (اکھلیش یادو) کو ووٹ دیں گے۔
کئی مقامی لوگوں کا ماننا تھا کہ اس بار بی جے پی کے لیے سکندرآباد، سیانہ اور خورجہ سیٹیں جیتنا مشکل ہوگا۔
تاہم، اس بار مایاوتی نے کچھ سیٹوں پر مسلم امیدوار کھڑے کیے ہیں، جس سے بی جے پی کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ سید پور کلاں گاؤں کے محمد قربان کہتے ہیں، ’بی جے پی امیدوار آسانی سے جیت جائیں گے کیونکہ مسلم ووٹ ایس پی، بی ایس پی اور اے آئی ایم آئی ایم کے درمیان تقسیم ہوگا۔‘
ایس پی کے ایک لیڈر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا،’بی ایس پی نے مغربی یوپی میں کئی مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا ہے۔ اس سے ہمارے ووٹوں کی تقسیم کا امکان ہے۔‘
2017 میں بی ایس پی 58 سیٹوں پر دوسرے نمبر پر رہی تھی۔ اس بار اے آئی ایم آئی ایم نے بھی ان 58 میں سے 12 سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ ان میں میرٹھ، چرتھاول اور لونی شامل ہیں، اس سے ایس پی – آر ایل ڈی کے ووٹ کٹ سکتے ہیں۔
انوپ شہر کے راج پور گاؤں کے ایک جاٹ کسان پون کمار کہتے ہیں۔ ’سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہاں بی جے پی کی کوئی لہر نہیں ہے۔ بی جے پی اور ایس پی-آر ایل ڈی اتحاد کے درمیان قریبی مقابلہ ہے۔‘