تحریر قاسم سید
کارپوریٹ جرنلزم کا ترجمان’ انقلاب ‘بلاشبہ شمالی ہند میں اس وقت اردو کا سب سے بڑا ملٹی ایڈیشن روزنامہ ہے، حال ہی میں مدیر کی تبدیلی پر انقلاب کی درازی عمر اور مقبولیت کی خصوصی دعائیں کی گئی تھیں ، یہ کہا جاسکتا ہے کہ نئے مدیر کی آمد سے اخبار کے وزن اور اہمیت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ مدیر موصوف صحافت کے سمندر کے پرانے غواص ہیں کئی دہائیوں کا طویل تجربہ ہے حالات کی نبض پر گہری گرفت ہے ۔ آسمان صحافت کے آفتاب و مہتاب ہیں ان کے قلم سے ہمیشہ گوہرنایاب نکلتے ہیں اور اب تو چشم بددور اور نکھار آگیا ہے ۔اللہ مزید درجات بلند کرے ۔ آمین
مدیر انقلاب کی تحریریںسنبھال کر رکھنے کی ہوتی ہیں، حالیہ دنوں میں لکھی گئی تحریروں نے اپنی طرف توجہ مبذول کرائی جن میں موصوف لگاتا ر ایک بات پر زور دیتے ہوئے نظر آتے ہیں جس کا یقینی طور پر نوٹس لیا گیا ہوگا۔ حالانکہ ان کا کہنا ہے کہ وہ 2014 سے یہ بات کہہ رہے ہیں ان کی ایک نہ سنی گئی مگر انھوں نے تنبیہ کی ہے کہ یہ وقت ایسا نازک کہ ان کی بات پر عمل نہ کیا گیا تو مسلم قیادت کے بارے میں عالمی سطح پر غلط پیغام جائے گا ۔کیونکہ انھیں مسلم قیادت کے وقار تحفظ اور اس کی سلامتی بڑی عزیز ہے ۔
مدیر محترم نے 2022کی پہلی تاریخ یکم جنوری کو اوکھلا میںدانشوروں کی میٹنگ میں پر مغز کلیدی خطاب میں یہ سمجھایا کہ یہ سیاسی محاذ آرائی کا وقت نہیں ہے ، پھر’ ایسے جنگ نہیں لڑی جاتی‘،میں اس موقف کا اعادہ کیا ۔بعد ازاں اسی بات کو اخبار کے صبح اول پر خصوصی تحریر ’ملنا ضروری ہے‘ میں سیاسی محاذ آرائی سے گریز کے مشورے کو سہ مکرر ارشاد کے طور پر دہرایا اور سیاسی محاذ آرائی سے گریز کی شکل یہ بتائی کہ فوری طور پر بلا تاخیر وزیر اعظم سے ملاقات کی جائے، مسلمانوں کے خلاف ماب لنچنگ سے لے کر دھرم سنسد میں ہیٹ اسپیچ کے تناظر میں گفتگو کریں اور ان سے معلوم کریں کہ آخر مسلمانوں کا قصور کیا ہے ۔ ہم نے کسی کا کیا بگاڑا ہے ،مشورے میں کہا گیا ہے جب وزیراعظم سے قائدین ملیں گے تو عالمی سطح پر اس کا پیغام جائے گااور ڈرے سہمے مسلمانوں کی ہمت بندھے گی …. لہٰذا مسلم قائدین و دانشوروں کو چاہیے کہ وہ بلا تاخیر مختلف ممبران پارلیمنٹ کو ساتھ لے کر وزیر اعظم سے ملنے کا وقت مانگیں اور اس انتظار میں نہ رہیں کہ وزیراعظم انھیں بلائیں گے یا کوئی انھیں وزیر اعظم سے ملوائے گا۔انھوں نے یہ بتایا کہ موجود ہ حکومت 2024تک ہے اس وقت تک کیا شر انگیزوں کے خلاف پہل نہیںکی جائے گی ۔ تو گویا سیاسی محاذ آرائی سے گریز کا جو نسخہ بتایا وہ وزیر اعظم سے ملاقات ہے ۔ اور یہ شافی امراض ہے ،ملاقات کے مشورے کی ٹائمنگ کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے ۔کل ملاکر انھوں نے وزیر اعظم سے ملنے کی تجویز ہی پیش نہیں کی بلکہ اس بات پر زور دیا کہ فورا ً ملیں تاخیر نہ کریں ورنہ بہت دیر ہوجائے گی اور مسلمانوں پر قیادت ٹوٹ پڑے گی ۔ یہ مطالبہ ،مشورہ یا خواہش کچھ بھی ہو دونوں باتوں کو ملا کر دیکھاجائے تو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ انقلاب جیسے اخبار کے پلیٹ فارم سے اس کے مدیر کے ذریعہ یہ میسیج دیا جارہا ہے جو جاگرن گروپ کا ذیلی اخبار ہے۔جاگرن پڑھنے والے اس کی زہریلی نفرت آمیز، اشتعال انگیز خبروں اور اسلامو فوبیا پھیلانے کی مہم سے اچھی طرح واقف ہیں یہ پالیسی بیانیہ ہے اور وہ بھی الیکشن کے موقع پر ۔صفحہ اول پر مدیر اسی وقت لکھتا ہے جب کوئی غیر معمولی ہنگامی صورتحال ہو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ معاملہ جاگرن گروپ کے لیے کتنا اہم اور ضروری ہے۔ جاگرن گروپ کی ہمدرددیاں ،تعاون کن کے ساتھ ہے یہ کھلا راز ہے ۔کارپوریٹ کی اپنی ترجیحات بھی ہوتی ہے ۔ان مشوروں پر سناٹا چھایا ہوا ہے خاموشی اختیار کرنے والوں کی مجبوریوں کو سمجھا جا سکتا ہے ، اس لیے کی خبروں اور بیانوں کی اشاعت کابہت حد تک دارو مدار مدیر کی پسند اور نا پسند پر بھی ہوتا ہے ۔گزشتہ دنوں میں اس کے اثرات ضرور محسوس کیے گئے ہوں گے ۔
کیا یہ پوچھا جا سکتا ہے یا یہ سوال کرنے کی اجازت ہے کہ مسلمان کہاں سیاسی محاذ آرائی کر رہے ہیں ۔مسلمانوں کی دینی ،مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے سرکار یا حکمراں محاذ سے کہاں اور کس معاملے پر پنجہ لڑایا ہے ۔ہاں ایک’ غلطی ‘ضرور نوجوانوں کی نئی نسل سے ہوئی کہ اس نے شاہین باغ تحریک چلانے کی جرأت کی اس کا خمیازہ بھی بھگتا آج بھی ایک تعداد جیلوں میں سڑ رہی ہے اس وقت بھی ہمارے بڑے گھروں سے نہ نکلے اس تحریک نے ہندوستانی مسلمانوںکا حوصلہ بڑھایا خاص طور سے ہماری خواتین نے جرأت و ہمت کی تاریخ میں نیا باب رقم کیا اور وزیر اعظم کو رام لیلا میدان میں یہ بیان دینے پر مجبور کیا کہ سرکار پر یہ الزام ہے کہ وہ سی اےاے؍این آر سی لا رہی ہے ۔ یہ الزام سراسر غلط ہے ایسا کچھ نہیںہونے جارہا ہے۔2014سے اب تک اس’ سنگین غلطی ‘کے علاوہ اور کوئی چارج شیٹ نہیں ہے ۔یوپی میں 22مسلم نوجوانوں کی سینوں میں گولیاں اتار دیں اور بقول مدیر ’ڈرے سہمے مسلمان‘ گھر سے نکلنے کی ہمت نہ کر سکے ۔ تین طلاق بل پاس ہوا کیا سڑکوں پر نکلے ؟نہیں ۔بابری مسجد اکثریتی فرقے کے حوالے کر دی گئی کیا اس نے شور مچایا؟ہنگامہ آرائی کی؟محاذ آرائی کا کوئی ثبوت دیا؟ نہیں۔اس ناانصافی کو بھی دل سے مان لیا ۔ماب لنچنگ کا سیلاب آگیا کیا جوابی لنچنگ کی ؟ہیٹ اسپیچ کا طوفان برپا ہے کیا اس کی طرف سے کوئی جواب آیا؟گالیاں اور دھمکیاں دی گئیں؟نہیں ۔(سوائے ہری دوار اور بریلی کے مگر یہ احتجاج بھی توڑ پھوڑ ،تشدد اور قانون ہاتھ میں لینے کے بجائے پر سکون اور پر امن رہا ۔) اس کی شریعت پر حملہ ،اس کی مسجد پر قبضہ ،اس کی جانوں پر آفت ،اس کی بیٹیوں کی عصمت پر لگاتارچھینٹا کشی ، پھر بھی وہ خاموش ہے ۔ بڑی بڑی مسلم جماعتیں خواہ مذہبی ہوں یا سیاسی پھونک پھونک کر قد رکھ رہی ہیں ۔ دودھ کے جلے چھاچھ بھی پینے سے ڈر رہے ہیں اگر ادھر ادھر سے کوئی آواز آرہی ہے تو اسے ایسی’ گستاخی‘ کی سزا ضرور دلوائی جائے یہ بھی ممکن ہے کی موصوف چونکہ 2014سے سیاسی محاذ آرائی سے گریز کا مشورہ دے رہے ہیں تو اسی مشورے پر عمل کیا جارہا ہو۔ بہر حال وزیر اعظم سے ملاقات کے مشورے میں جو در د ، بے قراری ، بے صبری ، عجلت ، جلد بازی نظر آرہی ہے اس کی سرجری کی ضرورت نہیں ہے ۔ خدا کرے ان ’کم فہموں‘ کو آپ کے مشورے کی گیرائی و گہرائی سمجھ میں آجائے، عقل پر پڑے پتھر ہٹ جائیں اور وزیراعظم سے بلا تاخیر آناً فاناً ملاقات کا پروگرام بنا لیں۔ بھلے ہی اترپر دیش سمیت پانچ ریاستوں میں الیکشن ہو رہے ہوں اور اس کا کوئی بھی مثبت یا منفی پیغام جائے ،باجود اس کے کہ محترم وزیر اعظم نے ملاقات تو دور بعض مسلم لیڈروں کی طرف سے بھیجے گئے خط کا جواب تک نہ دیا ہو۔ تمام تلخیوں کو بھلا کر وزیراعظم کی خدمت عالیہ میں سر بسجود ہونے کا اس سے بہتر مناسب موقع کوئی اور نہیں ہوسکتا ۔
اب آخری گزارش ہے کہ مدیر موصوف چاہتے کیا ہیں ؟پوری ملت نے خود کو سرکار کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے وہ اپنی مکھی تک نہیں اڑاتی مبادا سرکار کی نیند میں خلل نہ پڑ جائے۔ احتجاج تو بہت دور کی بات ہے سیاسی محاذ آرائی کی تو سو چ بھی نہیں سکتا تو کیا کریں۔ مسلمان اپنا گال زمین پر لگا دیں ؟سر مٹی میں ر گڑیں؟پاؤں پکڑ لیں ؟ کیا کریں سب کچھ تو داؤں پر لگا ہوا ہے۔ اب کھونے کو کیا رہ گیا ہے یہ صحیح ہے وزیراعظم سے ملاقات نہ کرنا ہمارے مسلم لیڈروں کا ناقابل فہم رویہ ہے اور اس کی کوئی بھی منطق قابل قبول نہیں ہے ۔ کیونکہ سرکار اور پارٹی میں فرق کرنا ضروری ہے پھر بھی کچھ لوگ جو خود کو قیادت کے منصب پر فائز سمجھتے ہیں ان سے ملے ہیںملتے رہے ہیں، انھیں ملوایا جاتا رہا ہے، ملوانے والے کون ہیں یہ بھی مدیر موصوف کو بخوبی معلوم ہے گستاخی معاف !حضور یہ ملاقات ایک ماہ بعد ہو جائے تو آسمان تو نہیں ٹوٹ پڑے گا، پیروں تلے سے زمین تو نہیں کھسک جائے گی ، یوپی کے الیکشن تک کا انتظار کر لیا جائے، اس میں کوئی حرج تو نہیں قوم اور قائدین کو اس کے بارے میں مشورہ دیا جائے تو بڑا احسان ہوگا۔ شکریہ اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔