تحریر:ابھے کمار
روہت ویمولا کی شہادت کو چھ سال ہوگئے۔محض 26 سال کی عمر میں حیدرآباد سینٹرل یونیورسٹی کا یہ طالب علم اس دنیا کو چھوڑ کر چل بسا ۔ کہا تو یہ جاتا ہے کہ پی ایچ ڈی اسکالر روہت نے خود کشی کی تھی ۔ بعض تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کی خودکشی پر سیاست نہیں ہونی چاہیے ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ روہت مرا نہیں ، بلکہ اسے مرنے کے لیے مجبورکیا گیا تھا۔ زندگی جب ہر موڑپر امتیاز، تعصب اور ذلت کا سامنا کرنے لگتی ہے اور انصاف کے لیے کی گئی ساری فریادوں کو اَن سُنا کر دیا جاتا ہے، تب تھکی ہاری زندگی بعض اوقات موت کی پناہ لے لیتی ہے۔ شاید کچھ ایسی ہی دردناک داستان روہت کی بھی ہے۔
روہت کی پیدائش 30 جنوری 1989کو آندھرا پردیش کے گنٹور ضلع میں ہوئی۔ یہ علاقہ خلیج بنگال سے زیادہ دور نہیں ہے۔ ان کی والد ہ کا نام رادھیکا ویمولا ہے، جو کہ محکوم طبقہ سے آتی ہیں۔ روہت کی زندگی جدو جہد اور دشواریوں سے بھری پڑی ہے۔ لمبے سفر کے بعد اس نے اپنا داخلہ حیدرآباد سینٹرل یونیورسٹی میں لیا۔ پڑھائی کرنے کے ساتھ ساتھ وہ سماجی اور سیاسی مسائل پر کھل کر بولتا تھا۔ اس کا رشتہ امبیڈکر کے نظریہ کی حامل طلبہ تنظیم سے تھا۔ یہ سب باتیں انتظامیہ اور بھگواار باب اقتدار کو پسند نہیں تھی اور وہ روہت کو خاموش کرنے کے لیے طرح طرح سے پریشان کرنے لگے۔ روہت کی اسکالر شپ کو بھی روک دیا گیا اور ان کو ہر طرح سے اذیت دی گئی۔ حالانکہ ظلم اور زیادتی کے خلاف روہت نے بڑی لڑائی لڑی، مگر اس کا ساتھ دینے کے لیے تمام اداروں نے اپنے دروازہ بند کر لیے۔
در اصل روہت کی داستان صرف روہت کی نہیں ہے، بلکہ یہ بھارت کے کروڑوں محکوم طبقات کے طلبہ کی دردناک کہانی ہے۔ جو کوئی بھی طالب علم کالج اور یونیورسٹی میں داخلہ لینے، امتحان پاس کرنے ، ہاسٹل اور ٹیوشن فیس ادا کرنے کے لیے لڑتا ہے، وہ سب روہت کی کہانی میں کردار ہیں۔ جو کوئی بھی پڑھائی کو صرف کلاس روم تک ہی محدود نہیں رکھتا، بلکہ اسے اپنی زندگی میں عملی طور پر اتارنا بھی چاہتا ہے وہ سب روہت ویمولا کی کہانی میں شامل ہے۔ بھارت میں جمہوری نظام کو ہمارے ارباب اقتدار نے اپنا تو لیا ہے، مگر اسے انہوں نے اپنے دلوں میں تارا نہیں ہے۔ بھارت کے تعلیمی اداروں میں آج بھی مٹھی بھر بڑی ذات کا ہی قبضہ ہے ، جبکہ محکوم طبقات سے آنے والے طلبہ کو ہر روز روہت کی طرح ستایا جاتا ہے۔ ساری ناانصافی اور آئین مخالف کاموں کو میرٹ کے نام پر چھپا لیا جاتا ہے۔ بھارت میں انقلاب صرف پارلیمنٹ پر قبضہ جما لینے سے نہیں پورا ہونے والا ہے۔ دراصل سیاست کے ساتھ ساتھ سماجی اور تعلیمی حلقوں میں بھی کام کرنے کی ضرور ت ہے۔ مگر افسوس کہ یہ بات محکوم طبقات کے زیادہ تر سیاسی لیڈروں کو سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ کوئی بھی مثبت بدلاؤ بغیر سماج بدلے نہیں آ سکتا۔ سماج کو بدلے کے لیے یہ ضروری ہےکہ ہم اچھی سوچ کو پیدا کریں۔ اچھی سوچ کے لیے اچھے تعلیمی اداروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر بھارت کے زیادہ تر تعلیمی اداروں میں عالیٰ ذاتوں کا قبضہ بنا ہوا ہے، جو یہ نہیں چاہیے کہ جن کو انہوں نے صدیوں سے محکوم بنا کر رکھا ہے وہ علم کی شمع جلا کر بیدار ہو جائیں۔
مگر جب روہت جیسے بہادر طالب علم تمام مشکلوں کو پار کر کے یونورسٹی میں پہنچے ہیں تو ان کو پریشان کرنے کے کیے ارباب اقتدار کی لابی ہر کوشش کرتی ہے۔ ان کو طرح طرح سے سسٹم چھوڑ کر بھاگ جانے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔مرنے سے پہلے جو خط روہت نے چھوڑا اس میں انہوں نے ذات پر مبنی بھیدبھاو ٴ کا ذکر کیا ہے اور کہا کہ کہ کس طرح سے انسان کو اس کی ذات ،نسل، مذہب اور دیگر تشخص تک لا کر محدود کر دیا جاتا ہے۔ کبھی انسان کی صلاحیت اور اس کی قابلیت کو کھلے من سے تسلیم نہیں کیا جاتا۔ ذات برادری کے اس نظام میں ترقی اس بات سے نہیں ملتی کہ فلاں نے کیا کام انجام دیا ہے ، بلکہ پزیرائی اس بات سےہوتی ہے کہ کہنے والے کی ذات اور دھرم کیا ہے۔
ناانصافی دیکھیے کہ آج کی تاریخ میں بھی تعلیمی اداروں اور سرکاری نوکریوں میں دلت ، آدی واسی اور پچھڑہ کو حق نہیں مل پایا ہے۔ مثال کے طور پر مرکزی یونیورسٹی میں پچھڑے سماج کے پروفیسر ندارد ہیں۔ اعلیٰ ذات کی لابی ایک کے بعد ایک سازش رچ کر محکوموں کو اُن کے آئینی حقوق سے محروم رکھنے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔ اعلیٰ ذات ن نجکاری کی پالیسی اپنا کرسرکاری اداروں کو اپنے ایجنٹوں کو بیچ رہی ہے۔ نجی کاری کی وجہ سے ریزرویشن پر بڑی مار پڑتی ہے کیونکہ پرائیویٹ اداروں میں ریزرویشن نافذ نہیں ہوتا ہے۔ جو سرکاری اداریں بچے ہیں، وہاں بھی زیادتاں ترنوکریاں ٹھیکا پر دی جا رہی ہے، جہاں ریزرویشن نہیں ہے۔ تعلیمی اداروں میں فیس بڑھا کر محکوم طبقات کو باہر کا راستہ دکھایا جاتا ہے کیونکہ زیادہ تر غریب لوگ دلت، آدی واسی، پچھڑا اور مسلمان ہیں۔ پھر انٹرویو کے دوران محکوم طبقات کے امیدواروں کو دانستہ طور پر بہت ہی کم نمبر دیا جاتا ہے۔ اتنا ہی نہیں جنرل کیٹیگری کی تمام سیٹوں کو،جن پر سب کا حق ہے، صرف اعلیٰ ذاتوں کی جاگیر بنا دی گئی ہے۔ کئی بار دلت ، آدی واسی امیدوار جنرل کیٹیگری میں انٹرویو دینے جاتا ہے تو اس کو انٹریو دینے سے پہلے کئی اعتراضات سے گزرنا پڑتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے شعبہ میں مسلمانوں کی حالت تو سب سے زیادہ خراب ہے۔ اگر مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی کو او بی سی ریزرویشن میں شامل نہیں کی جاتی اور اے ایم یو اور جامعه ملیہ اسلامیہ جیسے تعلیمی ادارے نہیں ہوتے تو آج کالج اور یونیورسٹی میں مسلمان چراغ لے کر ڈھونڈھنے سےبھی نہیں ملتے بھید بھاؤ صرف ریاستی یونیورسٹی میں نہیں ہو رہا ہے، بلکہ ملک کے معزز اور موقر کالج، یونیورسٹی اور تحقیقی اداروں میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ حال کے دونوں میں دہلی میں واقع جے این یو میں محکوم طبقات کے طلبہ کو پی ایچ ڈی انٹرویو کے دوران بہت ہی کم نمبر دے کر داخلہ پانے سے روک دیا گیا، جبکہ پریاگ راج میں واقع جی بی پنت انسٹی ٹویٹ میں جنرل کیٹیگری کے امیدوار کو منتخب کر لیا گیا، جبکہ او بی سی امیدوار کو ساری ڈگری اور لیاقت کے باوجود بھی نا اہل قرار دے دیا گیا۔
اس ظلمت کے دور میں روہت کی لڑائی اور قربانی ہمیں راستہ دکھا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب تک ہندوستان کے تعلیمی اداروں میں غیر برابری ، ناانصافی اور تعصب کا گورکھ دھندا چلتا رہےگا، تب تک روہت کو یاد کیا جائے گا۔ جب تک ذات پر مبنی بھید بھاؤ کا شیطانی راج قائم رہےگا، تب تک مظاہرین کے زبانوں پر روہت ویمولا زندہ باد کے نعرے میں گونجتے رہیں گے۔
(مضمون نگار جے این یو سے تاریخ میں پی ایچ ڈی ہیں)