تحریر: عامرظفر قاسمی
عید کادن نشاط وسرور فرحت وخوشی کادن ہے، جو سال میں دو مرتبہ حاصل ہوتا ہے پہلی خوشی اس کی یہ ہے کہ رمضان شریف کا مبارک مہینہ آیا اس میں خدا تعالیٰ کی رحمتوں اور نعمتوں کی بارش ہوئی تم نے جی لگا کر مہینہ بھر صبح سے شام تک اپنے آپ کو بھوکے پیاسے رکھا اور رات کو یادالٰہی میں بسر کیا ۔اس کی خوشی میں رمضان المبارک کے ختم ہوتے ہی یکم شوال کا دن تمہارے لئے فرحت وخوشی کادن مقرر کردیا گیا اور اس دن کو عید الفطر کہتے ہیںحدیث شریف میں آیا ہے کہ جب عیدالفطر کادن آتا ہے فرشتے راستوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور آواز لگاتے ہیں اے مسلمین کی جماعتوں اپنے رب کریم کی طرف چلو وہ تمہیں ایک اچھے کام کی توفیق دیتا ہے پھر اس پر ثواب عظیم عطا فرماتا ہے:
تمہیں رمضان المبارک کی راتوں میں نماز پڑھنے کا حکم دیا اور تم نے نماز پڑھی تمہیں دن میں روزہ رکھنے کا حکم دیا تم نے روزہ رکھا۔ تم نے اپنے رب کے حکم کی اطاعت کی اب اس کا انعام حاصل کروجب نمازِ عید ختم ہو جاتی ہے تو فرشتے آواز لگاتے ہیں خوش ہوجاؤ کہ تمہارے پروردگار عالم نے تمہاری مغفرت فرمادی اب تم خوشی خوشی اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ، اسی لئے اس دن کو انعام واکرام کادن کہتے ہیںجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے تو اہل مدینہ سال میں 2میلے کرتے تھے، جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا یہ کیا ہے؟
انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ زمانہ جاہلیت میں ہم ان ایام میں خوشی مناتے تھے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا خدا تعالیٰ نے ان کے عوض ان سے بہتر دن خوشی منانے کے لئے تمہیں عطا فرمائے۔ ایک عیدالفطر اور دوسرا عید الاضحٰی۔ عید کے دن دو رکعت نماز واجب ہے جن لوگوں پر جمعہ کی نماز فرض ہے انہیں پر عید کی نماز واجب ہے اور جو شرطیں جمعہ کی نماز کی ہیں وہی عید کی نماز کی ہیں، مگر عیدین میں نماز کا خطبہ نماز کے بعد پڑھا جاتا ہے اور خطبہ کاپڑھنا اور سننا سنن مؤکدہ ہے۔عید کی نماز کیلئے اذان اور تکبیر نہیں۔ بلکہ آفتاب بلند ہونے کے بعد سب مسلمان ایک جگہ جمع ہوں جب سب جمع ہوجائیں تو امام ان کو دورکعت نماز پڑھائے اور اور ہرایک رکعت میں تین زائد تکبیر یں کہے جائیں ان زائد تکبیروں کاکہنا امام اور مقتدی دونوں پر واجب ہےاس کے بعد امام ممبر پر کھڑے ہو کر خطبہ پڑھیں۔
صدقۂ فطر کس کو دینا چاہیے؟
صدقہ فطر ہر ضرورت مند و غیر صاحب نصاب مسلمان سمیت مفتی بہ قول کے مطابق غریب غیرمسلم کو بھی دیا جاسکتاہے،چناں چہ اپنے سے اوپر کے رشتے دار جیسے ماں باپ،دادا،دادی،نانا، نانی وغیرہ اور اپنے سے نیچے کے رشتے دار جیسے بیٹا، بیٹی،پوتا، پوتی ،نواسا، نواسی وغیرہ کو نہیں دے سکتے،البتہ جو برابر کے رشتے ہیں جیسے بھائی، بہن، خالہ، پھوپھی وغیرہ کو مستحق ہونے کی صورت میں صدقۂ فطر دینا دوہرے اجر کا باعث ہے۔اسی طرح مدارس کے طلبہ کو دینا بھی دوہرے اجر کا باعث ہے۔تاہم اولیٰ یہ ہے کہ ان سب ضرورت مندوں میں جو زیادہ مستحق ہو اسے صدقۂ فطر میں ترجیح دینی چاہیے۔
عید کی نماز ادا کرنے کا طریقہ
پہلے اس طرح نیت کرے کہ میں عیدالفطر کی دو رکعت واجب معہ چھ زائد تکبیروں کے اس امام کےپیچھے پڑھتاہوں۔ پھر تکبیر تحریمہ کہہ کر ہاتھ باندھ لے اور ثناء پڑھے، پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو کانوں تک اٹھائے اور ہاتھ چھوڑ دے، پھر دوسری مرتبہ اللہ اکبر کہتے ہوئے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائے اور ہاتھ چھوڑ دے، پھر تیسری بار اللہ اکبر کہتے ہوئے دونوں ہاتھ کانوں تک اُٹھائیں اور ہاتھ باندھ لے۔پھر امام اعوذباللہ اور بسم اللہ آہستہ اور سورۃ فاتحہ اور سورت آواز سے پڑھے۔ مقتدی سماعت کرے، پھر رکوع اور سجدے کرکے دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوں۔
دوسری رکعت میں پہلے امام سورہ فاتحہ اور سورت پڑھے. پھر امام اور مقتدی اللہ اکبر کہتے ہوئے ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور ہاتھوں کو چھوڑ دیں۔ پھر دوسری دفعہ اللہ اکبر کہتے ہوئے ہاتھ اٹھائیں اور ہاتھوں کو چھوڑ دیں۔ پھر تیسری دفعہ اللہ اکبر کہتے ہوئے ہاتھ کانوں تک اُٹھائیں اور ہاتھوں کو چھوڑ دیں۔ پھر چوتھی مرتبہ بغیر ہاتھ اٹھائے اللہ اکبر کہہ کر رکوع میں جائیں اور طریقہ کے موافق دو رکعت نماز پوری کریں۔
عید کادن جہاں ہرلحاظ سے ہرکسی کےلئے یکساں خوشی اور مسرت کادن ہے وہیں رب العزت کی نعمتوں کےاظہارکابڑاسنہرادن ہے درحقیقت یوم عید الفطر رب کی اپنے بندوں پر بخششوں کادن ہے جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نےارشادفرمایا عید کے دن اللہ تبارک وتعالیٰ زمین پر کچھ فرشتوں کانزول کرتاہے جوندالگاتےہیں امت محمد چلواپنےاس پروردگار کی بارگاہ میں جولازوال بخشش والاہے جوتھوڑے سے تھوڑا نیک عمل بھی قبول فرماتا ہے اور بڑےسےبڑاگناہ معاف فرمادیتاہے پھر جب سب لوگ عید گاہ میں نماز کیلئے جمع ہو تے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ خوش ہو کر فرشتوں سے فرماتا ہے کہ اے فرشتو!تم نے دیکھا کہ امت محمد پر میں نے رمضان المبارک کے روزے فرض کئے تھے، انہوں نے مہینہ بھر کے روزے رکھے مسجد وں کو آباد کیا میرے کلام پاک کی تلاوت کی، اپنی خواہشات کوروکا ،اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کی ،اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا کی اور اب ادب سے اظہار تشکر کیلئے میری بارگاہ میں حاضر ہیں میں ان کوجنت میں ان کےان اعمال کابدلہ دوں گا ،پھر ارشاد فرماتا ہے ،اے امت محمد !جوچاہومانگو،عزت و جلال کی قسم !اس موقع پر مجھ سے جومانگوگے میں دوں گا اور تم عید گاہ سےپاک وصاف ہوکرنکلوگے تم مجھ سے خوش ہوجاؤاور میں تم سے راضی ،یہ ارشاد سن کر فرشتےخوش ہوتےہیں اور اس امت کو بشارت دیتے ہیں ۔
اب عید مبارک کواس نقطہ نظرسےہم دیکھتے ہیں کہ یہ چوں کہ اسلام کابڑاعظیم اور بڑاممتازتہوارہے اور یہ مسلم ہے کہ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے اس کے اصول عالمگیر ہیں اسی لئے یہ یکساں طورسےسارے عالم میں اسلام کی بھلائی کا خواہاں جس میں امیروغریب اور رنگ ونسل کی کوئی تمیز نہیں،اس نے عید کی خوشیوں سے لطف اندوز ہونے کی اجازت فقط محدود حلقے کیلئے نہیں دی بلکہ اپنے پیروکار وں میں سے صاحب زرافراد کویہ حکم دےرکھاہے کہ اس سے پہلے کہ تم عید کی خوشیاں مناؤ،اس بات کا جائزہ لےلواور اپنے مفلس ونادار مذہبی بھائیوں کامشاہدہ کرلوجواپنی ناداری کی وجہ سے عید کی خوشی میں شریک نہیں ہوسکتے،کیونکہ اگر ایسا نہیں کرتےتوتمہارایہ جشن عید ادھورارہے گا،اس لئے کہ ایساجشن اس وقت مکمل نہیں ہوسکتا جب تک کہ امیروغریب اور چھوٹے بڑے کی تخصیص کے بغیرہرشخص اس میں شرکت نہ کرے یاایسی شرکت کی اجازت نہ ہو ،یعنی جس جشن میں فرقتیں قربتوں میں نہ بدلیں وہ جشن نہیں ،بزم سوگ ہوتاہے ،اسی لئے مذہب اسلام نے عیدسعید کی صورت میں ایک ایسا بزم دیاہے جس کی نظیر کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتی۔
صدقہ فطرکےواجب ہونے کی یہی حکمت ہے کہ عید کادن امیرحضرات کیلئے بڑافراخی کادن ہوتاہے جبکہ غریب مسلمانوں کیلئے معمولی کھانےکا انتظام کرنابھی مشکل ہوجاتاہے معاشرہ کی اس ناہمواری کوختم کرنےکیلئے اللہ تعالیٰ نے اپنے صاحب ثروت بندوں پر صدقہ فطرکوواجب قرار دیا تاکہ اس کے غریب بندے عید کے دن احساس کمتری کے شکار نہ ہوجائیں ۔ اور رب کی نعمتوں سے ناامید نہ ہوجائیں ۔
ان تمام خوبیوں کے باوجود یوم عید الفطر کو دنیا کی سب سے نرالی اور بےنظیرتقریب سعید ہونے کا شرف حاصل ہے اسلام نے عالم انسانیت کیلئے قرآن مجید کی شکل میں جو انوکھے اور عالمگیر ضابطے بتائےہیں،ان میں ایک ضابطہ رمضان بھی ہے چنانچہ یہ ضابطہ دراصل طہارت قلب تزکیہ نفس جنوں کی تربیت ہے تاکہ فرزندان توحید کے دل و دماغ پاکیزگی کا گہوارہ بن جایئں اور یوم عیدالفطر کوبڑی عاجزی اورادائے بندگی کے ساتھ خدا کی ان نعمتوں کا فراخ دلانہ شکراداکریں جو اس نے رمضان المبارک اور عید مبارک کے دن عطا کیاسی لئےعید مبارک اسلامی تعلیمات کی برکتوں کے صدقےایک عالمی درس اتحاد کا پیغام دیتا نظرآتاہے اور ایک لاجواب اجتماعیت کامنظر ہرجگہ نمایاں ہوتا ہے اسی اتحاد واجتماعیت سے مسلمانوں کے دل ودماغ کومنور کرنےکیلئے مذہب اسلام ہزاروں افراد کے اجتماع کی یہ سالانہ تقریب مسلمانوں کو عطا کی ہے،جہاں سبھی فرزندان توحید ایک امام کی آواز پر جھک جاتے ،اٹھ پڑتے اور بیٹھ جاتے ہیں چند منٹوں کےاتحاد کا نظارہ اور یہ دلکش منظر توکسی دوسرے مذہب میں کبھی نہیں دیکھا جاسکتا ۔
عیدکے مستحبات
1-غسل اور مسواک کرنا۔
2 – اپنے پاس جو کپڑے موجود ہوں ان میں سے اچھے کپڑے پہننا۔
3 -خوشبو لگانا۔
4 -عیدگاہ میں عید کی نماز پڑھنا۔
5 -عیدگاہ پیدل جانا۔
6 -ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا۔
7 -عید کی نماز سے پہلے گھر میں یا عیدگاہ میں نفل نماز نہ پڑھنا اور عید کی نماز کے بعد عیدگاہ میں نفل نہ پڑھنا۔
8 -نماز عید الفطر سے پہلے کھجور یاکوئی میٹھی چیز کھانا۔
9 -اگر صدقہ فطر واجب ہو تو اس کو نماز سے پہلے ادا کرنا۔
10 -عیدالاضحیٰ میں نماز عید کے بعد اپنی قربانی کا گوشت کھانا۔
عیدالفطر کی نماز کوجاتے ہوئے راستے میں آہستہ آہستہ تکبیر کہنا مستحب ہےاور عیدالاضحیٰ میں ذرا بلند آواز سے تکبیر کہتے ہوئے جانا مستحب ہے۔
عیدیاوعید
رمضان المبارک کے بعد یاتو ہمارے لئے عید ہوگی یاوعید ہوگی۔ہم دونوں میں سے ایک حال میں ہوںگے۔ عید کے بارے میں تو آپ جانتے ہیں کہ خوشی کوکہتے ہیں۔ اور وعید سزا کوکہتے ہیں، جن لوگوں کی رمضان المبارک میں مغفرت ہوگی ان کی اس رمضان المبارک کے بعد عیدہوگی اور جن کی رمضان المبارک میں مغفرت نہ ہوسکی ان کے لئے رمضان کے بعد وعید ہوگی۔ ایک مرتبہ عید قریب تھی۔ ایک بزرگ سے کسی نے پوچھا کہ حضرت عید کب ہوگی؟ وہ فرمانے لگے،جب دید ہوگی تب عید ہوگی۔ مطلب یہ ہے کہ جب محبوب کی دید ہوگی تب ہماری عید ہوگی۔
کیونکہ عاشق کا تویہی کام ہوتا ہے کہ اس کے لئے تو محبوب کا وصل ہی اصل عیدہوتی ہے، اس لئے ان راتوں میں یہ دعائیں مانگیں کہ اے اللہ ہمیں اپنا قرب عطا فرما کہ ہماری عید صحیح معنوں میں عید بن سکے۔
شوال کے چھ روزے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’جو شخص رمضان کے روزے رکھ کر عید کے بعد چھ روزے ماہ شوال کے رکھے، وہ ہمیشہ روزہ رکھنے کا ثواب پائے گا۔ (مسلم، ترمذی، ابن ماجہ)حدیث میں ہے مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمّ أتْبَعہ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ کے الفاظ ہیں۔ یعنی رمضان شریف کے روزوں کے بعد شوال کے چھ روزے اس کے پیچھے لگائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عید کے بعد ماہ شوال میں کسی بھی چھ دن روزے رکھ لے۔