تحریر:محمد محفوظ قادری،رامپور
مکرمی!
اللہ رب العز ت کا کرم اور اس کا احسان عظیم ہے کہ اس نے ہمیں ایک بار پھر ماہ ذی الحجہ عطا فرمایا،یہ مہینہ اسلامی سال (سن ہجری)کا آخری مہینہ ہے ۔اوریہ ماہ مقدس بہت ہی عظمت و برکت والا ہے ۔اس کے پہلے عشرے کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما یا کہ اللہ کی عبادت کیلئے عشرئہ ذی الحجہ سے بہتر کو ئی زمانہ نہیں،اس (عشرہ)میں ایک دن کے روزہ کا ثواب ایک سال کے برابر اور ایک رات کی عبادت کرناشب قدر کی عبادت کے برابر ہے ۔اسی مہینے میں اسلام کے پانچویں رکن حج کو ادا کیا جاتا ہے،یعنی حج کا بین الاقوامی اجتماع اسی مہینے میں منعقد ہوتاہے ۔ اسی مہینے میں دس ذی الحجہ کو عیدالاضحی جیسا مقدس تہوار بھی منایا جاتا ہے ۔
عید الاضحی کے مقدس موقع پر مسلمان اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں اپنی قربانیاں(ذبیحہ) پیش کرتے ہیں ۔یہ واقعہ قربانی ہمارے لئے نصیحت ہے اور اس واقعہ کی ایک ایک بات ہمارے لئے ہدایت کا سامان ہے وہ یہ ہے کہ بندئہ مومن اللہ کی محبت میں اللہ کے ہر حکم کو پورا کرنے لئے تیار ہو جاتا ہے اور مال تو اس کی نظر میں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا ہے کہ مال کی قربانی اس کے لئے دشوار ہو بلکہ بندئہ مومن اپنے رب کے حکم کو پورا کرنے کیلئے اپنی لاڈلی اور پیاری اولاد کو بھی اس کے نام پر قربان کر نے کیلئے تیاررہتا ہے اس کو فکر ہو تی ہے کہ میرا رب مجھ سے راضی ہو جا ئے قربانی کا واقعہ در اصل اسی محبت خداوندی کا مظاہرہ ہے۔
بہر حال جس طرح حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام نے اللہ کی محبت کا حق ادا کرنے کی کو شش کی اسی طرح ہم کو بھی چاہئے کہ ہم بھی اپنے پالنہار اللہ رب العزت کی محبت میں اس کے تمام احکام کی اطاعت کیلئے تیار رہیں اور اس کیلئے ہر طرح کی قربا نی دیں یہ جذبہ ایمانی وہ چیز ہے کہ جس نے مذہب اسلام کو ہر دور میں زندہ رکھا ہے اور ساتھ ہی قوت بخشی ہے۔ یہی وہ مبارک جذبہ ہے جس نے ہر دور میں اسلام دشمن طاقتوں کوحیران وپریشان کیا ہے کہ اسلا م کی اس قدر مخالفت وسازشوں کے جال بچھائے جا نے کے با وجود مذہب اسلام آج نہ صرف زندہ ہے بلکہ دن بدن ترقی کی طرف گامزن ہے ۔ لہٰذا قربانی کرنے والوں کو چاہئے کہ اپنے اندر جذئبہ ابراہیمی پیدا کریں اور محبت خداوندی کے ساتھ اپنی قربانیاں اپنے رب کی بارگاہ میں پیش کریں،اپنے اس عمل کے ذریعہ اپنے رب کا قرب اور اس کی رضا حاصل کرنے کی کو شش کریں ۔یہ مبارک عمل ایک عجیب وغریب وقعہ کی یاد دلاتا ہے ہماری قربانیاں اُسی واقعہ کی نقل ہیں ۔اس واقعہ کا تعلق دومقدس و محترم شخصیتوں سے ہے ایک حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور دوسرے حضرت اسماعیل ذبیح اللہ علیہماالسلام سے ہے ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت:
آپ اللہ کے بہت ہی بر گزیدہ نبی ہیں کہ جنہوں نے اللہ کی محبت میں بہت زیادہ مصائب وآلام کا سامنا کیا اور صبر سے کام لیا ،اسی وجہ سے اللہ نے آپ کو بہت ہی بلند مقام عطا فرمایا ۔ قرآن پاک میں آپ کی جگہ جگہ تعریف بیان فرمائی اور ہمارے پیارے نبی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ ملت ابراہیمی کی اتباع کریں اور آپ کو ساری دنیائے انسانیت کا امام بنایا گیا ۔حضر ت ابراہیم کی ہی شخصیت ہے کہ جنہوں نے کعبتہ اللہ کی اللہ کے حکم سے تعمیر کی،حج کا اعلان کیااور حج جیسی مقدس عبادت کی تعلیم دی۔وہ آپ ہی کی ذات مبارک ہے کہ جس نے کفر وشرک کے ماحول میں آنکھیں کھولیں ، کفر وشرک کی مخالفت کی وجہ سے آپ کو بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈالا گیالیکن اللہ نے آپ کی مدد فرمائی اور اُس آگ کوٹھنڈک وسلامتی میں آپ کے واسطے تبدیل فرما دیا۔
حضرت ابراہیم نے کفر وشرک کی آلود گی سے نہ صرف اپنے آپ کو بچایا بلکہ بے شمار لوگوں کو اس سے محفوظ بھی رکھا۔اور نعرئہ توحید بلند کرتے ہوئے پورے معاشرے کو چیلنج بھی کیا ۔حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ولادت:۔جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے وطن(عراق)سے ملک شام کی طرف ہجرت فرمائی تو آپ کے ساتھ آپ کی بیوی حضرت سارہ اور آپ کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام تھے ۔درمیانی منزل مصر میں قیام فرمایا تو وہاں کے باد شاہ نے بد نیتی سے حضرت سارہ کی طرف دست درازی کی تو اللہ نے اسی وقت اس کے ہاتھ شل کر دئے اور یہ واقعہ تین مرتبہ ہوا ۔حضرت سارہ کی یہ کرامت دیکھ کر باد شاہ بہت زیادہ متائثر ہوا،اور ہاجرہ نامی ایک باندی (جو اصل میں ایک قبطی النسل شاہ زادی تھیں )حضرت سارہ کی خدمت کیلئے بطور ہدیہ پیش کیں ، حضرت سارہ نے وہ باندی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ہبہ فرمادی۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت ہاجرہ سے نکاح کرلیا۔پھر ملک شام میں جاکر سکونت اختیار فرمائی ۔مگر ایک طویل زمانہ تک حضرت ابراہیم کے یہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ آپ کی عمر تقریباً چھیاسی برس کی ہو گئی تھی،تو اللہ تعالیٰ سے آپ نے اولاد کیلئے دعا کی ’’رب ھبلی من الصالحین‘‘(قرآن)اے میرے پرور دگار مجھے صالحین میں سے (ایک بیٹا)عطا فرما۔اللہ رب العزت نے آپ کی یہ دعا قبو ل فرمائی اور آپ کو ایک بردبار بیٹے کی خوشخبری دی اور فرمایا’’فبشرناہ بغلام حلیم‘‘(قرآن)ہم نے انہیں بردباربیٹے(اسماعیل)کی بشارت دی۔جب آپ نے یہ دعافرمائی توآپ کی عمر ایک روایت کے مطابق چھیاسی برس تھی،دوسری روایت کے مطابق آپ کی عمر پچیاسی برس تھی۔جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ سے اولاد کیلئے دعا کی تو یہ نذر بھی مانی کہ اگر اللہ نے مجھے بیٹا عطافرمایاتو میں اس کو اللہ کی بارگاہ میں قربان کروں گاجب حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے تو آپ کو اپنی نذر یاد نہ رہی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خواب :
حضرت اسماعیل علیہ السلام حضرت ہاجرہ علیہ السلام کے ساتھ مکہ مکرمہ کے بیابان جنگل میں زندگی بسر کر ہے تھے،آپ بڑھتے بڑھتے اس قابل ہو گئے کہ کچھ کام کرسکیں جیسا کہ قرآن نے بیان کیا’’فلما بلغ معہ السعی ‘‘(قرآن)اسماعیل علیہ السلام ایسی عمر کو پہنچے کہ ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ چلنے پھرنے لگیں۔توحضرت ابراہیم علیہ السلام نے ملک شام میں (جہاں سکونت تھی)وہا ں خواب دیکھاکہ کہنے والا کہہ رہا ہے اے ابراہیم !اپنی نذرکو پورا کرو (یعنی اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کرو)یہ خواب آپ نے ذی الحجہ کی آٹھ تاریخ کو دیکھا۔جب صبح نمودار ہوئی تو آپ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ میں نے یہ کیا خواب دیکھا ہے ؟یہ میرے رب کی طرف سے ہے یا شیطان کی جانب سے ہے ؟اسی وجہ سے آٹھ ذی الحجہ کو یوم الترویہ (غورو فکر کا دن)کہا جا تا ہے ۔اسی طرح آپ نے پھر نویں ذالحجہ کو خواب دیکھا ،جب صبح کو آپ بیدار ہوئے تو آپ سمجھ گئے کہ یہ خواب اب میرے رب کی جانب سے ہے ،اسی لئے نویں ذی الحجہ کو یوم عرفہ (پہچاننے کا دن )کہا جا تا ہے ۔اسی طرح دس ذی الحجہ کی را ت کو بھی آپ نے یہی خواب دیکھا ، دس ذی الحجہ کی صبح کو آپ نے ارادا کر لیا کہ اپنے لخت جگر اسماعیل کو اللہ کی بار گاہ میں قربان کروں اسی وجہ سے دس ذی الحجہ کو (یوم النحر)قربانی کا دن کہا جاتا ہے ۔حالت خواب میں قربانی کا حکم ملنا یہ اللہ کی طرف سے وحی تھی ۔جیسا کہ ہمارے نبی نے ارشاد فرمایا کہ نبی کا خواب وحی الٰہی ہوتا ہے۔
حضرت ابراہیم نے اس خواب کی تعبیر نکالتے ہوئے پہلی دو راتوں کی صبح کو کچھ اونٹ اپنے رب کی بار گاہ میں پیش کئے مگر جب تیسری رات آپ نے پھر یہی خواب دیکھا تو آپ سمجھ گئے کہ اللہ مجھ سے میرے بیٹے اسماعیل کی قربا نی لینا چاہتا ہے۔ آپ نے اپنے بیٹے اسماعیل سے فرمایا’’ یٰبنی انی اریٰ فی المنام انی اذبحک فانظر ماذاتریٰ‘‘ (قرآن)اے میرے بیٹے (اسماعیل )میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، بتا تیری کیا رائے ہے ؟یہ الفاظ سنتے ہی والد محترم کی زبان سے حضرت اسماعیل ذبیح اللہ نے فوراًارشاد فرمایا’’ قال یٰابت افعل ما تئومر ستجد نی ان شاء اللہ من الصابرین‘‘(قرآن)اسما عیل علیہ السلام نے ارشاد فرمایاکہ اے ابّاجان جو آپ کو حکم ہوا ہے وہ آپ پوراکیجئے،انشا ء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والو ں میں پا ئیں گے۔
ذبح کی تیاری اور حضرت ہاجرہ سے رخصتی :
حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام نے اللہ کے حکم کو پورا کرنے کی تیا ری شروع کی اورحضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل علیہما السلام گھر سے نکلے تو شیطان کو بہت زیادہ فکر ہونے لگی اوروہ اس پرو گرام کو ختم کرنے کی تیاری کرنے لگا،ایک روایت میں آتا ہے شیطان نے کہا کہ میں نے آج اگر اس موقع پر ان کے درمیان فتنہ پیدا نہیں کیا تو کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔سب سے پہلے شیطان حضرت ہاجرہ کے پاس گیا یہ سوچ کر کہ عورت ناقص العقل ہوتی ہے بہت جلد بہکاوے میں آجاتی ہے کہا کہ تم کو معلوم ہے کہ حضرت ابراہیم اسماعیل کو کہاں لیکر گئے ہیں ؟حضرت ہاجرہ نے فرمایا کہ کہیں اپنی ضرورت سے لیکر گئے ہونگیں،کہنے لگا نہیں وہ اپنے بچے کو ذبح کرنے کیلئے لیکر گئے ہیں،حضرت ہاجرہ نے جواب دیا کیا کوئی باپ اپنے بیٹے کو ذبح کرسکتا ہے؟شیطان کہنے لگا ان کو خدا کا یہی حکم ہے حضرت ہاجرہ نے فرمایا اگر خدا کا یہی حکم ہے تو میں راضی ہوں ،جب شیطان حضرت ہاجرہ کے پاس ناکام ہوگیاتو پھر حضرت ابراہیم کو بہکانے کی کوشش کی اور کہا کہ آپ اپنے بیٹے کو کہا ں لیکر جا رہے ہو ؟آپ نے فرمایا کہ کام سے جا رہا ہوں ،شیطان کہنے لگا نہیں آپ تو ذبح کرنے کیلئے جا رہے ہو بیٹے کو ۔حضرت ابراہیم نے (اسی کی زبان سے سچ نکلوانے کیلئے فرمایا کہ )میں اپنے بچے کو کیوں ذبح کرونگا؟شیطان کہنے لگا کہ اللہ کا آ پ کو یہی حکم ہے،حضرت ابراہیم نے شیطان کا یہ جواب سن کر فرمایا کہ مجھے خدا کا یہ حکم ہے تو مجھے یہ ضرور کرنا چاہئے۔جب حضرت ابراہیم کے پاس بھی شیطان ناکام ہو گیا تو اس نے آگے کی تیاری شروع کی اور حضرت اسماعیل کو بہکانے کی کوشش کرنے لگا جب حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل منیٰ کی وادی کے پاس پہنچے تو شیطان مردود حضرت اسماعیل کے پاس آیااور کہنے لگا تم کو معلوم ہے تمہارے والد تم کو کہاں لیکر جا رہے ہیں ؟حضرت اسماعیل نے فرمایا اپنے رب کے حکم کو پورا کرنے کیلئے اللہ کی بار گاہ میں قربان کرنے واسطے لیکر جا رہے ہیں،شیطان نے کہا کہ وہ کسی جانور کی نہیں بلکہ وہ تمہاری قربانی کریں گے،حضرت اسماعیل نے فرمایا جب ذبح کا حکم اللہ کی طرف سے ہے تو میں اس کام کی کیسے مخالفت کر سکتا ہوں؟یہ سن کر شیطا ن یہاں سے بھی ناکام ہو اور اس کے سارے ارمان پانی میں بہہ گئے۔ شیطان سمجھ گیا کہ اس گھر کا بچہ بچہ عشق الٰہی میں سر شار ہے اور یہ اپنی جانیں بھی اللہ کے نام پر قربان کرنے کو تیار ہیں ۔
حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی رمئی جمار:
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ذبح کا حکم دیا گیا تو شیطان سعی کے وقت حاضر ہوا اور حضرت ابراہیم سے آگے بڑہا پس حضرت ابراہیم علیہ السلام اس سے آگے نکل گئے ۔پھر حضرت جبریل علیہ السلام آپ کو جمرتہ العقبہ کی طرف لے گئے تو شیطان وہا ں بھی حاضر ہوا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کو سات کنکریاں ماریں ،وہ(شیطان) چلا گیا پھر جمرتہ الوسطیٰ کے پاس ظاہر ہوا ۔توآپ نے پھر سات کنکریاں اس کو ماریں تو وہ پھر دفع ہوگیا ۔اس کے بعد پھر وہ جمرتہ الاخریٰ کے پاس ظاہر ہوا تو آپ نے پھر سات کنکریاں اس کو ماریں وہ بھاگ گیا۔شیطان اللہ کا دشمن ہے اس کو دفع کرنے کیلئے تدبیر در اصل اللہ کی محبت و عظمت کا تقاضہ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کو حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل علیہماالسلام کی یہ ادا اس قدرپسند آئی کہ اس کو حاجیوں کیلئے مشروع(واجب)کر دیا۔ ان حضرات کا یہ عمل قیامت تک کیلئے زندئہ جاوید بنادیا گیا۔
باپ بیٹے کی گفتگو:
جب دونوں مقدس ہستیاں اللہ کے حکم کو پورا کرنے کی تیاری کرلگیں ،حضرت اسما عیل علیہ السلام نے اپنے والد سے عرض کی کہ میرے ہاتھ پیر مضبوطی سے باندھ دیں کہیں ذبح کے وقت میرے تڑپنے سے آپ کے کپڑوں پر خون کے چھینٹے نہ پڑ جائیں ، میرا منھ زمین کی طرف کردیں تاکہ آپ کی نظر مجھ پر اور میری نظر آپ پر نہ پڑے ۔ایک روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ آپ اپنے کپڑوں کو بچاکر رکھنا کہ ان پر خون نہ لگ جائے میری والدہ اس کو دیکھ کر غمگین ہوجائیں گی،اور کہا کہ میری والدہ کو میرا سلام کہہ دینا۔جب پوری طرح حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام تیارہو گئے جیسا کہ قرآن نے بیان کیا’’ فلما اسلما‘‘(قرآن)پھر وہ دونوں رضائے الٰہی کے سامنے جھک گئے(تیار ہوگئے)۔تو حضرت ابراہیم نے حضرت اسماعیل کو پیشانی کے بل لٹایاجیسا کہ قرآن نے بیان کیا ’’وتلہ للجبین‘‘(قرآن)ان کو پیشانی کے بل لٹا دیا ۔پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام تیز دھار دارچھری حضرت اسماعیل علیہ السلا م کی گردن پر چلانے لگے،لیکن تعجب کے طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دیکھا کہ جس چھری سے روزانہ میں اپنی ضرورت کی چیزیں کاٹتا ہوں آج وہی چھری کند(کھٹل)ہوگئی ہے اور کچھ کاٹنے کو تیار نہیں ہے۔جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دیکھا کہ یہ چھری خدا کے حکم کو پورا کرنے میں رکاوٹ بن رہی ہے تو آپ کو غصہ آیا ،آپ نے چھری کو زمین پر پھینک دیا زور سے،اللہ نے چھری کو بولنے کی طاقت عطا فرمائی چھری نے عرض کی ’’اے ابراہیم !میں دو حکموں کے درمیان ہو ں ایک طرف خلیل کا حکم کہ میں کاٹوں اور دوسری طرف جلیل کا حکم ہے کہ میں ہر گز نہ کاٹوں ،میں جلیل کے حکم کی پیروی کروں گی نہ کہ خلیل کے حکم کی‘‘اسی وقت اِک دم حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ کی طرف سے غیبی آواز دی گئی جیسا کہ قرآن نے بیان کیا’’ونادیناہ ان یابراہیم‘‘(قرآن)اور ہم نے اسے ندادی کہ اے ابراہیم ’قد صدقت الرء ویا‘‘(قرآن)واقعی تم نے خواب کو سچ کردکھایا۔اُسی وقت اللہ رب العزت نے حضرت جبریل علیہ السلام کو جنت سے ایک مینڈھا لیکر بھیجا اور حکم دیا کہ اسماعیل کی جگہ اس مینڈھے کو رکھدیں اور ہمارے خلیل ابراہیم سے کہیں کہ اس کو ذبح کریں جیسا کہ قرآن نے بیان کیا’’وفد یناہ بذ بح عظیم ‘‘(قرآن)ہم نے فدیہ دیا انکا ذبح عظیم سے۔
تکبرات تشریق کی ابتدا:
یہ سارا واقعہ دیکھ کر حضرت جبریل علیہ السلام کی زبان سے نکلا’’اللہ اکبر اللہ اکبر‘‘یہ سن کر حضرت اسماعیل ذبیح اللہ نے فرمایا’’لا الہ الااللہ واللہ اکبر‘‘اور حضرت ابراہیم نے فرمایا ’’اللہ اکبر وللہ الحمد‘‘یہ تکبیرات تشریق ہیں جو ایام تشریق میں سنت قرار پائیں،اور آج تک باقی ہیں۔یہ واقعہ قربانی محبت خداوندی کا مظاہرہ ہے ،لہٰذا قربانی کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ جذئبہ ابراہیمی اور محبت خداوندی کے ساتھ اپنی قربانیاں اپنے رب کی بارگاہ پیش کریں،جیسا کہ اللہ رب العزت کلام عظیم میں ارشاد فرماتا ہے’’کہ ہماری بار گاہ میں تمہاری قربانیوں کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا ہے بلکہ تمہارا تقویٰ ہماری بار گاہ میں قبول ہو جاتا ہے ‘‘اسی قربانی کے متعلق صحابہ کرام عرض کرتے ہیں یارسول اللہ! یہ قربانی کیا ہے ؟آپ نے ارشاد فرمایا یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم کی سنت ہے ،پھر عرض کرتے ہیں اے اللہ کے رسول !اس میں ثواب کتنا ہے ؟آپ نے ارشاد فرمایا ہر ہر بال کے بدلے خداایک ایک نیکی عطافرماتا ہے ،پھر عرض کرتے ہیں یارسول اللہ !بھیڑ بکری وغیرہ کی اون یعنی ان کے بالوں کے بارے میں کیا ارشاد ہے ؟آپ نے پھریہی فرمایا کہ ان کے بدلے بھی اللہ اپنے بندے کو ایک ایک نیکی عطا فرماتا ہے۔(حدیث)قربانی کے دن کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے عظیم دن قربانی کا دن ہے‘‘(حدیث) دوسری روایت میں آتا ہے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قربانی کے دن بنی آدم کا کوئی بھی عمل اللہ کی بارگاہ میں (قربانی کی نیت سے)جانور کا خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے،اور یہ(قربانی کا)جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں،بالوں اور کھروں سمیت آئے گا یقینا(قربانی جانور کا خون)زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کی بارگا میں قبول ہو جاتی ہے،(اے اہل ایمان)تم خوش دلی کے ساتھ اپنی قربانیاں اپنے رب کی بار گاہ میں پیش کرو۔(حدیث) قربانی کرنے والے کو چاہئے کہ قربانی کے وقت اپنے جانور کے پا حاضر رہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایااپنی لخت جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہ ’’قربانی کے وقت اپنی قربانی کے پاس حاضر رہو‘‘جانور کے خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے تمہارے گناہ بخش دیئے جائیں گے،جن کا تم نے ارتکاب کیا ہے ۔اور یہ الفاظ کہو قربانی کے وقت’’ان صلاتی ونسکی و محیای ومماتی للہ رب العالمین‘‘(قرآن )بیشک میری نماز اورمیری قربانی میری زندگی اور میری موت اللہ کیلئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ خوبصورت اورطاقتور جانور کی قربانی کرو یہ جانور قیامت کے دن تمہاری سواریا ں بنیں گے ۔
دوسرے مقام پر تنبیہ کرتے ہوئے حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایاکہ جس شخص کے پاس قربانی کی وسعت ہو پھر وہ قربانی کے دنوں میں قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے ۔قربانی کس پروا جب ہے :۔قربانی اسلام کا عظیم شعار اور بندے کی طرف سے مالی عبادت ہے جو ہر اُس عاقل و بالغ مقیم مسلمان پرواجب ہے جو عیدالاضحی کے ایام (۱۰،۱۱،۱۲ ,ذی الحجہ)میں نصاب کا مالک ہو یا اس کی ملکیت میں ضرورت اصلیہ سے زائد اتنا سامان ہوجس کی مالیت نصاب کے برابر ہو،اور نصاب شرعی سے مرادکسی شخص کا ساڑے باون تولہ چاندی یا ساڑے سات تولہ سونا یا اس کی رائج الوقت بازاری قیمت کے برابر مال کا مالک ہونا ہے۔قربانی کے وجوب کیلئے صرف مالک نصاب ہونا کافی ہے ،زکوٰۃ کی طرح نصاب پر پوراسال گزرنا شرط نہیں ہے۔یا اِس کو یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ قرنی کے واجب ہو نے کا نصاب وہی ہے جو نصاب صدقہ فطر کے واجب ہونے کا ہے۔
قربانی کے جانورکی عمر:
چھوٹے جانوروں میں بکرا،بکری بھیڑایک سال سے کم کے نہ ہوں البتہ وہ دنبہ جو دیکھنے میں ایک سال کا لگتا ہو اس کی قربانی بھی جائز ہے جیسا کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قربانی کیلئے عمر والا جانور ذبح کرو ،ہاں اگر ایسا جانور میسر نہ ہو تو پھر چھ ماہ کا دنبہ ذبح کرو جو دیکھنے میں سال کا لگتا ہو۔(مسلم شریف) یہ جانور ایک ہی انسان کی طرف سے کافی ہونگیں۔بڑے جانوروں میں اونٹ ،اونٹنی یہ پانچ سال سے کم کے نہ ہوں ۔ان میں سات آدمی شامل ہو سکتے ہیں اور کم بھی ۔اسی طرح بھینس،بھینسا وغیرہ دو سال سے کم کے نہ ہوں ان میں بھی سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں اور کم بھی جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ احرام باندھ کر نکلے تو آپ نے حکم دیا کہ ہم اونٹ اور گائے میں سات آدمی شریک ہو جائیں ۔
اسی طرح دوسری روایت میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے حدیبیہ والے سال حضور علیہ السلام کے ساتھ قربانی کی چنانچہ اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے اور گائے بھی سات آدمیوں کی طرف سے قربان کی (صحیح مسلم )قربانی کے جانورکا عیب سے پاک ہونا لازمی ہے :۔ جانور میں کسی بھی طرح کا عیب نہیں ہونا چاہئے جیسے اندھاہونا، کانا ہونا،ایسا لنگڑا ہو کہ ذبح کی جگہ تک نہ جا سکے،آدھے سے زیادہ کان کا کٹا ہوا ہونایا پیدائشی طور پرایک یا دونوں کا نوں کانہ ہونا ،دم کا کٹا ہوا ہونا،جڑسے سینگ کا اکھڑاہونا(ہاں اگر سینگ اُپر سے ٹوٹ گیا ہے تو اس کی قربانی جائز ہے )،سب دانت گر گئے ہوں یا ٹوٹ گئے ہوں جس سے وہ چارہ نہ کھا سکے ،بہت زیادہ کمزور ہو ،ظاہری طور پر بیمار ہوان تمام عیبوں سے قربانی کیلئے جانور کا پاک و صاف ہونا لازمی و ضروری ہے۔
قربانی کے آداب :
قربانی کے جانور کو چندروز پہلے خریدنا اور اس کو اپنے ہاتھوں سے پالنا افضل ہے ،اسی طرح خصی جانور کی قربانی کرنا جائز وافضل ہے ،قربانی کے جانور کا دودھ نکالنا یا اس کے بال کاٹنا جائز نہیں ہے اگر کسی نے ایسا کیا تو اس دودھ کو اور بال یا ان کی قیمت کو صدقہ کرنا واجب ہے،قربانی سے پہلے چھری کو خوب تیز کرلیں اور یہ عمل جانور کے سامنے نہ کریں جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ نے ہر چیز میں احسان کو ضروری قرار دیا ہے لہٰذا اگر تم قتل کرتو اچھی طرح قتل کرو اور ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو(ذبح کرتے وقت زیادہ دیر نہیں لگانا چاہئے تیزی کے ساتھ فوراً ذبح کردیں)،ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح نہ کریں ،جانور کے پیر پکڑ کر ذبح کرنے کی جگہ تک کھینچ کر لیکر جانا جس سے جانور کو تکلیف پہنچے یا اور کوئی عمل تکلیف کا جانور کے ساتھ کرنا ان باتوں سے بچنا ضروری ہے ۔
قربانی کے گوشت کا استعمال :
جس جانور میں کئی حصہ دار ہوں توگوشت کو وزن کرکے تقسیم کریں اندازہ سے تقسیم نہ کریں۔پھر ان میں سے ہر ایک کیلئے بہتر طریقہ یہ ہے کہ اس گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے ایک حصہ غرباء ،فقراء اور مسا کین کو دے دیا جائے۔دوسرا حصہ اعزو اقرباء دوست احباب کو دیا جائے۔تیسرا حصہ اپنے استعمال میں خود لے لے ،اگر اہل وعیال تعددا میں زیادہ ہوں تو کل گوشت کا استعمال خود بھی کر سکتا ہے ۔لیکن فروخت کرنے کی سخت ممانعت ہے۔
قربانی کے جانور کی کھال کا حکم :
قربانی کی کھال کو باقی رکھتے ہوئے نشانی کے طور پرمثلاًمصلیٰ بنالیا جائے یا چمڑے کی کوئی چیز ڈول ،مشکیزہ وغیرہ بنوالیا جائے اس صورت میں قربانی کی کھال کو اپنے استعمال میں لینا جائز ہے ۔کھال کو فروخت کرکے قیمت کو اپنے خرچ میں لینا جائزنہیں ہے،اُ س قیمت کو فوراً صدقہ کردینا چاہئے۔اسی طرح قصاب کو ذبح کرنے کی اجرت میں دینا بھی جائزنہیں ہے۔
قربانی کا وقت :
قربانی کا وقت شہر والوں کیلئے عید کی نماز ادا کرنے کے بعد ،اور دیہات والوں کیلئے جن پرجمعہ فرض نہیں ہے صبح صادق سے شروع ہوجاتا ہے لیکن سورج طلوع ہونے کے بعد ذ بح کرنابہتر ہے۔جیسا کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا آپ نے فرما کہ اِس عید کے دن میں سب سے پہلا کام یہ ہے کہ ہم نماز پڑھیں پھر واپس آکر قربانی کریں جس نے ہمارے اس طریقہ پر عمل کیا یعنی عید (کی نماز کے بعد) قربانی کی تو اس نے ہمارے طریقہ کے مطابق درست کا م کیا ،اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کردی تو وہ ایک گوشت ہے جو اس نے اپنے گھر والوں کیلئے تیار کیا ہے اس کا قربانی سے کوئی تعلق نہیں۔(صحیح بخاری)
قربانی کرنے کا مسنون طریقہ ودعا :
اپنی قربانی کو خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا افضل ہے جیسا کہ حدیث مبارک میں آ تا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے مبارک ہاتھوں سے قربانی فرمایا کرتے تھے۔ اگر کسی وجہ سے خود ذبح نہیں کرسکتا ہوتو دسرے سے بھی ذبح کرا سکتا ہے مگر وقت ذبح حاضر رہنا بہترعمل ہے ،اورقربانی کے جانور کو ذبح کرنے سے پہلے اس کو کعبہ کے رخ لٹا کریہ دعا پڑھیں ’’انی وجھت وجھی للذی فطرالسمٰوات والارض حنیفاوماانا من المشرکین۰ان صلاتی ونسکی و محیای ومماتی للہ رب العالمین۰لا شریک لہ وبذٰ لک امرت وانامن السلمین‘‘اور جانور کی گردن کے قریب پہلو پر اپنا سیدھا پائوں رکھکر’’اللہم لک ومنک بسم اللہ ،اللہ اکبر‘‘پڑھ کر تیز چھری سے جلد ذبح کردیں ،ذبح کرنے کے بعد قربانی اپنی طرف سے ہو تو یہ دعا پڑ ھیں’’اللہم تقبل منی کما تقبلت من خلیک ابراہیم علیہ السلام و حبیبک محمد صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ اگر دوسرے کی طرف سے قربانی کریں تو منی کے بجائے من کہہ کر اس کا نام لیجئے گا۔نیک نیتی اور خوش دلی کے ساتھ اپنی قربانی اللہ کی بارگا ہ میں پیش کریں ،ایسی قربانی خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کی بارگا میں قبو ل ہو جا تی ہے ۔
نماز عید کی نیت وطریقہ:
پہلے نیت کرنی چاہئے،نیت اصل میں دل کے ارادے کا نام ہے ۔زبان سے کہنا بہتر ہے،اگر کوئی زبان سے نہ کہہ سکا تو دل سے ارادا کر لینا ہی کافی ہوگا۔نیت اس طرح کرے ،نیت کی میں نے دو رکعت نماز عید الاضحی ساتھ زائد چھ تکبیروں کے،واسطے اللہ کے پیچھے اس امام کے منھ میرا کعبہ شریف کو اللہ اکبر،کہہ کر امام کے ساتھ نیت باندھ لے ناف کے نیچے۔نیت کے بعد ثنا پڑھے،پھر امام کی اقتدا میں تین تکبیریں کہے،شروع کی دو تکبیروں میں ہاتھ اٹھاکر امام کے ساتھ چھوڑ دے اور تیسری تکبیر کہہ کر ہاتھ باند ھ لے۔پھر خاموشی کے ساتھ امام کی قراء ت سنے ،قراء ت کے بعد رکوع اور سجدوں کے ساتھ ایک رکعت مکمل ہو جا ئے گی۔پھر دوسری رکعت میں امام کی قراء ت سماعت کرے،قراء ت کے بعد،رکوع سے پہلے،امام کی اقتداء میں تین تکبیریں کہے اور تینوں پر ہاتھ اٹھاکر چھوڑ دے،اور چوتھی تکبیر کہتے ہوئے رکوع میں آجائے ،رکوع ،سجدے،قعدہ مع سلام کے ساتھ نماز مکمل ہو جائے گی۔اس کے بعد خطبہ سنیں اور خطبہ کے بعد اجتماعی دعا میں شریک ہو کر تمام عالم انسانیت اور باالخصوص تمام عالم اسلام کیلئے امن و امان کی دعا کریں ۔
ہدایات:
جن جانوروں کی قربانی سے منع کیا گیا ہے ان سے اجتناب کریں ،قربانی کے وقت صفائی کا خاص خیال رکھیں ،خون کو نالیوں میں نہ بہائیں بلکہ گڈھے میں دفن کردیں،اور جانور کے وہ اعضاء جو کھانے کے قابل نہیں ہو تے ان کو کھلے میں نہ ڈالیں بلکہ کہیں دفنا دیں،اور قربانی کی کسی بھی طرح کی کوئی بھی ویڈیو وائرل نہ کریں جس سے برادران وطن کی دل آزاری ہو ۔اللہ نے ہمیں خیر امت بنا کر پیدا کیا ہے ہم اپنے ہر عمل سے یہ ثابت کریں کہ کسی کو کو ئی تکلیف نہ پہنچے اور ہمارے نبی نے جو ہمیں تعلیم دی ہے اس کے مطابق زندگی گزاریں ،اور جیسا کہ ہم اللہ سے قربانی کے وقت وعدہ کریں گے کہ میری نمازمیری قربانی اور میری زندگی اور موت سب اللہ کیلئے ہے ،جو تمام عالموں کا رب ہے اسی وعدے کے ساتھ اپنی زندگی گزاریں ۔جھوٹ ،مکروفریب ،حسد ،بغض، کینہ ،عداوت ونفرت اور چغل خوری سے دور رہیں ،سچائی و خیر خواہی کو اپنی عادت بنائیں ،غرباء ،فقراء اورمساکین کا خاص خیال رکھیں،اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ حجاج کرام کے حج کو تمام ارکان کی ادائیگی کے ساتھ حج مبرور بناکر قبول فرمائے اور امت مسلمہ کے تمام اعمال صالحہ و قربانیوں کو قبول فرماکرسکون کی زندگی عطا فرمائے اورساتھ ہی عید الاضحی کی خوشیاں بھی تمام عالم اسلام کو نصیب فرما ئے۔آمین
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)