تحریر:| افتخار گیلانی
سن 1978میں جب جموں و کشمیر اسمبلی کے انتخابات منعقد ہو رہے تھے، ایک وضع دار کشمیری پنڈت دینا ناتھ کول خطے کے پولیس سربراہ تھے۔ اردو شاعری کے مداح اور خاص طور پر اقبال کے ا شعار ان کو ازبر تھے۔ 2008 میں ان کا انتقال ہوا۔وہ اقبال کا شعر، تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے، تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ، کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں، اکثر گنگنایا کرتے تھے۔
خیر پولیس سربراہ کی حیثیت سے ان کا کام صاف و شفاف انتخابات کا انعقادیقینی بنانا بھی تھا۔ ووٹنگ کے دن و ہ سرینگر کے مختلف پولنگ بوتھوں کا معائنہ کرنے کے دوران جب اپنے محلہ میں پہنچے تو ان کو ووٹ کاسٹ کرنے کا خیال آیا۔ پولنگ افسر سے انہوں نے بیلٹ پیپر مانگا تو نیشنل کانفرنس کے ایک مقامی عہدیدار، جو پولنگ بوتھ کے اندر ہی موجود تھا،نے ان کو بتایا کہ ”آپ نے تو خواہ مخواہ آنے کی تکلیف اٹھائی۔ آپ کا ووٹ تو ہم نے صبح سویرے ہی ڈال دیاہے۔“
ان دنوں پیپر بیلٹ کا رواج تھا، اور پولنگ آفیسر پیپر پیلٹ دیتے وقت کاؤنٹر فائل پر ووٹر کے دستخط یا انگوٹھا لیتا تھاتاکہ ووٹ کاسٹ کرنے کا ثبوت ریکارڈ میں رہے۔ کول صاحب نے کاؤنٹر فائل دیکھنے کی گزارش کی۔ دیکھا کہ اس پر دستخط کے بجائے انگوٹھا ثبت تھا۔ ماتھے پر ہاتھ مار کر انہوں نے پولنگ عملہ اور نیشنل کانفرنس کے لیڈر سے مخاطب ہوکر کہا، کہ ”کم از کم دستخط کرنے والے شخص سے ہی ووٹ ڈلوایا ہوتا۔ عمر بھر میرے چہرے پر کالک مل کر رکھ دی، کہ پولیس کا سربراہ اپنے دستخط بھی نہیں کرپاتا ہے۔“
اسی طرح90کی دہائی میں مجھے جھارکھنڈ کے قبائلی علاقہ ڈالٹن گنج (جو اان دنوں بہار کا حصہ تھا)میں الیکشن کور کرنے کا موقع ملا۔ دیکھا کہ ایک امیدوار، جس کا انتخابی نشان تالہ چابی تھا، نے پولنگ بوتھ سے آدھا کلومیٹر دور ایک بڑے ڈرم میں دیسی شراب کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ معصوم، اپنے حقوق سے نابلد قبائلی مرد و وعورتیں جنگلوں سے نمودار ہوکر اس ڈرم کے سامنے قطار باندھے ہوئے کھڑے تھے اور امیدوار کے حامی شراب دےکر ان کو تالا چابی کا ورد کرواتے تھے۔ پینے کے بعد نیم ہوش و حواس میں وہ بھی تالہ چابی کا وظیفہ جاپتے ہوئے، ایک طرح سے جاگنگ کرتے ہوئے پولنگ بوتھ کی طرف روانہ ہوجاتے تھے اور پولنگ افسر سے تالہ چاپی پر مہر لگوانے کے لیے کہتے تھے، واپسی پر ان کو ایک اور گلاس شراب کا ملتا تھا۔
چونکہ آجکل پاکستان میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین(ای وی ایم)متعارف کروانے اور دیگر انتخابی اصلاحات نافذ کروانے پر گرما گرم بحث جاری ہے، میں نے دیکھا ہے کہ صاف و شفاف انتخابات کا تعلق مقامی انتظامیہ کی صوابدید پر منحصر ہوتا ہے، چاہے ووٹنگ پیپر بیلٹ سے ہو یا کسی اور طریقے سے۔
بھارت میں اس مقامی انتظامیہ کو کسی حد تک غیر جانبدار بنانے میں اور ان میں احتساب کا خوف طاری کرنے میں بڑی حد تک 1990سے 1996تک رہے چیف الیکشن کمشنر ٹی این سیشن کا اہم رول رہا ہے۔ سیاسی لیڈران جو پولنگ بوتھوں پر قبضہ کرتے تھے، کو سبق سکھانے کے لیےیا جہاں کمزور طبقات کو ووٹ دینے سے روکا جاتا تھا، انہوں نے کئی انتخابات رد کروادئے۔ انہوں نے انتخابات منعقد کروانے کے جو پیمانے مقرر کیے، بڑی حد تک ان کے بعد آنے والے الیکشن کمشنروں نے ان کو نہ صرف برقرار رکھا، بلکہ ان میں مزید بہتری کی۔
اس دوران سماجی انصاف کے علمبرداروں اور نچلے طبقات کو بھی حکومتی گلیاروں میں آنے کا موقع ملا اور ہندوستان میں کسی حد تک پہلی بار اونچی ذاتوں کے ہاتھوں سے اقتدار پھسلتا ہو ا دکھائی دیا۔
ای وی ایم کا استعمال ہندوستان میں 1998سے مرحلہ وار متعارف ہونا شروع ہوا۔ کئی افراد کا کہنا ہے کہ اس کو سماجی انصاف کو ریورس کرنے اور اقتدار دوبارہ بتدریج اونچی ذاتوں کے ہاتھوں میں دینے کے لیے استعمال کیا گیا۔ جب موجودہ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)اپوزیشن میں تھی تو اس کے ایک لیڈر جی وی ایل نرسمہا راؤنے تو باضابطہ ایک کتاب تصنیف کرکے ای وی ایم کی مخالفت کی۔
اس وقت بھی اپوزیشن پارٹیوں کو ای وی ایم کے کام کرنے کے طریقہ پر شکوک وشبہات ہیں۔ یہ سچ ہے کہ اس دوران اپوزیشن نے بھی کئی اسمبلیوں و ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی، مگر ان کا کہنا ہے کہ اہم انتخابات کے موقع پر ای وی ایم، بی جے پی کو بچانے آتی ہے۔ ای وی ایم کی مدد سے پارلیمانی نشست کا نتیجہ محض پانچ گھنٹے میں سامنے آ جاتا ہے۔ اس سے پہلے ووٹوں کی گنتی میں چالیس گھنٹے تک لگ جاتے تھے۔
جمہوریتوں میں سے صرف آٹھ ممالک میں ہی الیکٹرانک ووٹنگ کا طریقہ رائج ہے جبکہ نو ممالک جن میں جرمنی، آئرلینڈ، ہالینڈ اور ناروے جیسے ملک شامل ہیں‘ نے الیکٹرانک ووٹنگ شروع کر نے کے بعد ترک کر دی۔
اسی لیے سپریم کورٹ کی ہدایت پر 2019 میں ای وی ایم کے ساتھVoter Verified Paper Auditمشین بھی منسلک کی گئی۔ یعنی جب ووٹر بٹن دبا کر ووٹ کاسٹ کرتا ہے، تو پیپر پر بھی اس کا ووٹ درج ہوتا ہے اور وہ چند سیکنڈ تک اس پیپر کو دیکھ بھی سکتا ہے، جس کے بعد یہ پیپر نیچے ایک سر بہ مہر ٹرالی میں گر جاتا ہے۔اس سے ووٹر کو تسلی ہوجاتی ہے کہ ووٹ اس کے پسند کے امیدوار کے حق میں کاسٹ ہوا ہے۔ مگر گنتی کے وقت سپریم کورٹ نے شرط رکھی کہ صرف دو فیصد پیپر بیلٹ ہی گنے جائیں گے، یعنی اسمبلیوں کے لیےپانچ پولنگ بوتھوں اور پارلیمنٹ کے لیے دس پولنگ بوتھوں کے پیپر بیلٹ ای وی ایم کے نتیجوں کے ساتھ میچ کیے جائیں گے۔
اس الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے دو حصے ہوتے ہیں۔ ایک حصہ بیلٹنگ یونٹ کا ہے جو ووٹروں کے لیے ہوتا ہے۔ دوسرا کنٹرول یونٹ ہے جو پولنگ افسروں کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔ای وی ایم کے دونوں حصے ایک پانچ میٹر لمبے تار سے منسلک رہتے ہیں۔ بیلٹ یونٹ ایسے مقام پر رکھی جاتی ہے جہاں رائے دہندہ کو ووٹ ڈالتے وقت کوئی بھی دیکھ نہ سکے۔حساس علاقے کے پولنگ مراکز پر ووٹنگ کا عمل براہ راست نشر کیا جاتا ہے جسے کسی بھی مقام سے دیکھا جا سکتا ہے۔اس مشین پر زیادہ سے زیادہ 64 امیدواروں کے علامتی نشان دکھائے جا سکتے ہیں۔
اگر کسی انتخابی حلقے میں 64 سے زیادہ امیدوار میدان میں ہوں تو پھر انتخابی کمیشن کاغذ کے بیلٹ کا استعمال کرنے کے لیے پابند ہے۔ایک ای وی ایم زیادہ سے زیادہ 3840 ووٹ درج کر سکتی ہے۔ عام طور پر کسی بھی پولنگ مرکز پر 1500 سے زیادہ ووٹر نہیں ہوتے۔
اتر پردیش میں 2017 کے اسمبلی انتخابات نے ای وی ایم کو شکوک شبہات کے گھیرے میں مزید دھکیل دیا۔ چونکہ انتخابات وزیر اعظم نریندر مودی کے نوٹ بندی کے اعلان کے بعد منعقد کیے گئے تھے اور ہر جگہ عوام اس پر خار کھائے ہوئے تھے، اس لیے ان انتخابات میں بی جے پی کی بھاری جیت کسی کو ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ گراؤنڈ پر کوئی ایسے اشارے نہیں مل رہے تھےکہ بی جے پی کو اس قدر پذیرائی حاصل ہوگی۔
کئی تکنیکی ماہرین خدشات ظاہر کرتے آئے ہیں کہ ان مشینوں میں نتائج تبدیل کیے جاسکتے ہیں۔
ایک بار جرمنی کے ایک تکنیکی ماہر نے پریس کلب آف انڈیا میں اس کی پریزنٹیشن بھی دی۔ انہوں نے سافٹ ویئر کو چھیڑ کر پروگرام میں درج کیا کہ ہرتیسرا ووٹ کسی ایک مخصوص امیدوار کو ہی پڑنا چاہیے۔ پھر اس نے مشین ہمارے حوالے کرکے ایک فرضی الیکشن کروانے کی ہدایت دی۔ چاہے تیسرا ووٹ کسی کو بھی پڑے، مگر مشین ہدایت کے مطابق وہ ووٹ اسی امیدرا کے حق میں درج کردیتی تھی، جو اس تکنیکی ماہر نے درج کی تھی۔
اسی طرح اس نے پھر مشین کو ہر پانچواں اور پھر ہر دسواں ووٹ کسی ایک امیدوار کے حق میں درج کرنے کے لیے سیٹ کیا۔ یہ ماک الیکشن پریس کلب آف انڈیا کے ہال میں منعقد ہوا تھا۔ چند برس قبل امریکہ میں مقیم ایک ٹیکنالوجسٹ سید شجاع نے لندن میں ایک پریس کانفرنس میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ان ووٹنگ مشینوں کو ہیک کیا جا سکتا ہے۔
ای وی ایم مشینیں بیٹری سے چلتی ہیں اور ان کا سافٹ ویئر ایک سرکاری کمپنی کے انجینئرز نے تیار کیا تھا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ان مشینوں اور ان کے ڈیٹا تک ان لوگوں کے علاوہ کسی کو رسائی حاصل نہیں۔مگر بار بار استدعا کرنے کے باوجود الیکشن کمیشن اپنی مشین کسی غیر جانبدار ادارہ یا شخص کے حوالے کرنے پر تیار نہیں ہے۔ جن مشینوں پر ہیکنگ کے تجربے کیے گئے، وہ ان افراد نے دیگر ذرائع سے حاصل کی تھیں۔
الیکشن کمیشن نے اپنے دفتر میں 2017میں تمام سیاسی جماعتوں اور تکنیکی افراد کو ان کی مشینیں کو ہیک کرنے کا چیلنج دیا تھا۔ مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک الیکشن کمیشن یہ مشینیں ان کے حوالے نہیں کرتا ہے ان کے دفتر میں بس چند منٹ میں ہیک کرکے دکھانا ممکن نہیں ہے۔
الیکشن میں اسٹیک ہولڈر ووٹر اور سیاسی جماعتیں یا امیدوار ہوتے ہیں۔ الیکشن کمیشن تو بس ایک انتظامی ادارہ ہے۔ اگر اسٹیک ہولڈر ان مشینوں کے حوالے سے تذبذب یا شکوک و شبہات کے شکار ہوں تو اس کو استعمال کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔ بنگلہ دیش میں ہونے والے پچھلے کئی انتخابات میں ہندوستان کی ہی ای وی ایم استعمال ہوتی ہیں۔
ای وی ایم کے بغیر بھی برطانیہ کے قائم کردہ پارلیمانی نظام میں اصلاحات کی خاصی گنجائش موجود ہے۔ جس طرح ایک وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کے لیے لازم ہوتا ہے کہ اس کو ہاؤس میں50فیصد سے زیادہ اراکین پارلیامان کی حمایت درکار ہونی چاہیے، اسی طرح ایک ممبر پارلیامان یا اسمبلی ممبر کے لیے بھی لازم ہونا چاہیے کہ وہ بھی ہاؤ س کے باہر کم از کم 50فیصد رائے دہندگان کی حمایت حاصل کرے۔
کثیر الجہتی مقابلہ میں اگر یہ ممکن نہیں ہے تو ایسے حلقوں میں پہلے اور دوسرے نمبر پر آئے امیدراوں کے درمیان پولنگ کا دوسرا دور ہونا چاہیے۔ اس سے امیدوار زیادہ سے زیادہ ووٹروں تک پہنچ کر ذات برادی کے حدود سے باہر نکل کر حقیقی طور پر نمائند گی کا حق ادا کرےگا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومتوں، دانشوروں اور انتخابی اداروں کو انتخابات میں بے دریغ پیسہ خرچ کرنے پر لگام لگانے کے لیے کوئی سبیل ڈھونڈنکالنی ہوگی، تبھی صاف و شفاف اور برابری کی بنیاد پر انتخابات منعقد ہو سکیں گے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)