تحریر: عبد السلام عاصم
”۔۔۔اگر آخری لمحے میں کوئی دھوکے کی چال کامیاب نہیں ہوئی تو یوپی میں اِس بار فلاں پارٹی کہ حکومت کا بننا طے ہے“۔آج کل کچھ سیاسی نشستوں میں اِس طرح کی باتیں اکثر سنائی دیتی ہیں۔نام نہاد انتخابی پنڈتوں کی ایسی پیش قیاسیوں پر غور کرنے سے بس یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر یہ دعویٰ ہے تو اِس میں کوئی دم نہیں ہے اور اگر دفاعی لائن ہے تو انتہائی غیر مربوط اور کمزور۔ ایسی ہوائی باتوں سے البتہ یہ اندازہ ضرور ہو جاتا ہے کہ بظاہر مذہبی غلبے والی سیاست کے زیر اثر ماحول میں ایک دو آزمائشی مرحلے سے کامیاب گزرنے کے باوجود مجموعی طور پر ملک کی جمہوری سیاست انتہائی خستہ حالت میں ہے۔ اور اس کیلئے حکمراں اور اپوزیشن پارٹیاں دونوں کم و بیش مساوی طور پر ذمہ دار ہیں۔
پچھلی چند دہائیوں کے الیکشن رُخی سیاسی اعمال صاف بتاتے ہیں کہ اب حکومتوں کو بس اقتدار بچانے سے اور اپوزیشن پارٹیوں کو اپنی باری کا اصرار منوانے سے دلچسپی باقی رہ گئی ہے۔ دونوں کو اقتدار کی دہلیز تک اپنے اس مشن کا سفر ووٹروں کے کندھوں پر سوار ہو کر طے کرنا ہے اور راستے میں ایک دوسرے سے لنگڑی بازی کا گھناونا سیاسی کھیل بھی کھیلنا ہے۔ اس بے ہنگم مشق میں جن کندھوں کو آزمایا جا رہا ہے وہ اب دن بہ دن کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔ لیکن دونوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ بیشتر اخبارات کی کمائی بھی اب چونکہ اخبار خریدنے والے عوام سے نہیں بلکہ اشتہار بیچنے والے خواص سے ہوتی ہے۔ اس لئے وہ رات دن انہی کی مزاج پرسی میں لگے رہتے ہیں۔ عام قاری کیلئے اخبارات نے مختلف دلچسپیوں کے دن مقرر کر رکھے ہیں جن سے وہ بیچارے کم از کم ابھی تو باہر نکلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
یہ منظر بدلے گا تو ضرور مگر کب بدلے گا اس بابت قطعیت سے سر دست کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
غرض پسند سیاست دانوں کا پیٹ سیاسی، سماجی اور اقتصادی بدعنوانی سے تو ہمیشہ بھرتا رہا ہے لیکن جی نہ بھرنے کی وجہ سے وہ اس کاروبار کے نت نئے محاذ کھولتے رہتے ہیں۔ نیا محاذ ہندو اور ہندوتو کے فرق کی سیاسی تشریح و تعبیر سے کھولا گیا ہے۔ ووٹوں کیلئے اپنا ظاہری وضع قطع تک بدل کر گھومنے پھرنے کے بعد اب کانگریس کے رہنما راہل گاندھی یہ کہنے لگے ہیں کہ ہندستان ہندوؤں کا ملک ہے ہندوتوادیوں کا نہیں۔ اُن کے اِس اعلان پر کسی حلقے کی جانب سے لبیک کا اعلان تو ابھی تک اخباری سُرخیوں کی زینت نہیں بن سکا ہے لیکن کچھ لوگ غیر ہندوؤں کو اپنے مفاد کیلئے یہ کہہ کر گمراہ ضرور کرنے لگے ہیں کہ دیکھا! سیکولر بندہ کیسا اصل رنگ میں آ گیا۔ مخالف کیمپ نے بھی ان کے اس موقف کا نوٹس لیا ہے اور مغربی بنگال بی جے پی کے صدر ایس مجمدار نے یہاں تک کہہ دیا کہ یہ ہماری کامیابی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ہندو کہہ رہے ہیں لیکن یہ سلسلہ صرف انتخابات تک ہی چلے گا۔ اس دوران وہ جنیو بھی پہنیں گے اورمندربھی جائیں گے لیکن جب انتخابات ختم ہو جائیں گے تو پھر وہ سیاحتی ساحلوں پر نظر آئیں گے۔
کانگریس کی ویسے بھی 2019 کے عام انتخابات کے بعد کی سیاست پر سافٹ ہندوتوا کا الزام ہے۔ بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کانگریس نے اقلیت کے رُخ پر فرقہ وارانہ سیاست کا اپنا پرانا طریقہ بدل کر جو نیا اکثریت رُخی راستہ اپنایا ہے اُس پر وہ ازخود نہیں چل رہی ہے بلکہ اُسے چلایا بہ الفاظ دیگر پھنسایا جا رہا ہے۔یہ اندازہ کتنا صحیح اور کتنا غلط ہے، اس کا بھی اندازہ سنئیر کانگریسی رہنما سلمان خورشید سے منسوب ایک اخباری رپورٹ سے لگایا جا سکتاہے جس میں انہوں نے کانگریس پر پر سافٹ ہندوتوا کے الزام سے متعلق ایک سوال کار است جواب دینے کے بجائے ہندوتوا اور ہندو مذہب دونوں کو ایک پلڑے میں رکھا تھا۔
قارئین حیران نہ ہوں۔نام نہاد سیکولر اور غیر سیکولر لیڈروں کے حوالے سے یہ ساری باتیں بس محدود انتخابی مفادات رُخی باتیں ہیں۔ ویسے بھی تہذیب کے علمی ارتقا سے دور رہنے کی وجہ سے ہمارے یہاں اب قیادت کی سطح پر بیشتر حلقوں میں واقعاً نہ کوئی سیکولر بچاہے نہ کوئی دین دار۔صرف محدود مفادات کی سیاست کے تجار بچے ہیں جو انتخابی سیاست کے کاروبار میں کامیابی اور ناکامی دونوں سے نفع کشید کرتے ہیں۔ اس لئے ہارنے والا کبھی دھندہ نہیں بدلتا۔ البتہ منافع بخش کاروبار کا زیادہ /کم منافع دونوں میں بٹ جاتاہے۔ عوام الناس بشمول رائے دہندگان جب تک قطار سے کاونٹر تک پہنچتے ہیں انہیں پتہ چلتا ہے کہ قطار میں شامل کالابازاری کرنے والوں نے ساری خریداری کر لی۔ ان کیلئے لئے بس خالی کاونٹر کھلا پڑا ہے۔ اب جو خریدنا ہے وہ وفاداری بیچ کر خریدنا ہوگا اور احسانمند ہونے کا ثبوت دے کر گھر لوٹنا ہو گا۔
ابھی کچھ روز قبل کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ مذہب کے نام پر تشدد کرنے والے ڈھونگی ہوتے ہیں۔ وہ بنگلہ دیش میں مذہبی تشدد کے جواب میں تریپورہ میں مذہبی تشدد پر اظہار خیال کر رہے تھے۔اپنے مذمتی بیان میں وہ بہر حال یہ کہنا بھول گئے کہ اس ڈھونگ کا سہارا لینا ہی وہ موقع پرستانہ سیاست ہے جس سے ہمارے ہر عہد کی قومی اور علاقائی سیاست عبارت ہے اورسابقہ دور میں کانگریس نے ہی اس طرزِ سیاست کی بالواسطہ بنیاد رکھی تھی، موجودہ حکومت اس پر اپنے طریقے سے تعمیر کا کام کر رہی ہے۔
یہ منظر نامہ ہماری بدقسمتی سے ہمارے نام نہاد بزرگوں کا خلق کردہ ہے۔ کل تک ہمسائے کے یہاں اِس کی شدت دیکھ کر ہم افسوس تو کرتے تھے لیکن انسدادی رُخ پر کبھی ایسی کوئی مربوط کوشش نہیں کی گئی کہ جو ہمیں ماضی کے اپنے ہی غلطیوں سے سبق لے کر آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرتی۔ جاپان سے یورپ تک اپنی اصلاح آپ کرنے کی مثالیں موجود تھیں لیکن ہمارے بزرگوں نے اُنہیں اپنے بچوں کے نصابات کا حصہ نہیں بننے دیا۔ کہیں اُنہیں ماضی گرفتہ رکھا تو کہیں اُن کے اندر ماضی گزیدہ ہونے کے ا حساس کو اتنی تقویت دی کی ہر طرف اذہان کے کھیت میں بس نفرت کی کاشت ہونے لگی۔
اس پس منظر میں یوپی کا انتخابی میدان جس طرح تیار کیا جارہا ہے اُس میں اندیشوں کی کاٹ امکانات سے کرنے کے بجائے ہر طرف وسوسوں کابازار گرم کر رکھا گیا ہے۔ اور اُن سے نجات کیلئے وہی پرانا کھیل نئے فریم ورک میں کھیلا جا رہا ہے۔ گاوں دیہات میں پہلے غریب ووٹروں کو براہ راست کرنسی نوٹوں کے ذریعہ خریدا جاتا تھا اور اکا دکا گرفت دکھا کر باقی سب کے گناہ دھو دئیے جاتے تھے۔ اب سائنٹیفک، برقی، ڈیجیٹل آلات کی بھوک اور کشش دونوں کو کیش کیا جا رہا ہے۔نعروں اور ترقی کے خواب دکھا اگر کسی قوم کی قسمت کو بدلا جا سکتا تو حقیقی اور سائنسی علم کی ترقی یافتہ اقوام کو ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)