تحریر: مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی
امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ ملک وملت کا عظیم سرمایہ اور خاص طور پر ملی اثاثہ ہے۔ اس نے ہر موقع پر ملک وملت کی رہنمائی کی ہے اور اپنی خدمات کی وجہ سے ملک وبیرون ملک میں شہرت حاصل کی ہے۔ اس ادارہ کے قیام کو سوسال پورے ہوچکے ہیں، اس کا ایک دستور ہے، جو اس ادارہ کا محافظ ہے، اسی دستور کی رہنمائی میں اس نے سوسال مکمل کئے ہیں، آج بھی یہ دستور موجود ہے اور اس سے رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور امارت شرعیہ کوبحران سے بچایا جاسکتا ہے۔ مذکورہ بالاخیالات کا اظہار مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی نے کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ وجھارکھنڈ ایک ادارہ ہے، اس کا ایک نظام ہے، اس میں نائب امیرشریعت، قائم مقام ناظم، قاضی شریعت، مفتیان کرام اور دیگر ذمہ داران موجود ہیں، سبھوں کی رائے ایک تاریخ پر ہوگئی، پھر ادارہ کی جانب سے امیرشریعت کے لئے 10اکتوبر 2021ء کو انتخاب کا اعلان کردیا گیا، تو پھر اس کے خلاف تاریخ کا اعلان کرنادستور کے خلاف ہے، نیز اراکین شوریٰ یا کسی بھی ممبر کے لئے امارت شرعیہ کے لیٹر پیڈ اور مہرکا استعمال ،دستور اور قانون کے خلاف ہےاور غیرذمہ دارانہ کام ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دستور میں امیرشریعت کے اوصاف درج ہیں۔
(1) عالم باعمل ہو ،یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کے معانی اور حقائق کا معتدبہ علم رکھتا ہو، اغراض ومصالح شریعت اسلامیہ وفقہ اسلامی وغیرہ سے واقف ہو اور احکام شریعت پر عمل پیرا ہو۔
(2) سیاسیات ہند وسیاسیات عالم اسلامیہ سے واقفیت رکھتا ہو اور حتی الامکان تجربہ سے اکثر صاحب الرائے ثابت ہوچکا ہو۔
(3) ذاتی قابلیت ووجاہت کی وجہ سے عوام خواص کے اکثر طبقات کی ایک معتدبہ جماعت پر اس کا اثر ہو۔
(4) حق گو، حق شنو اور صاحب عزیمت ہو۔
(5) فقہی تعبیر میں اس کی ذات ایسی نہ ہو، جس سے امارت شرعیہ کا مقصد ختم ہوجائے۔
امیرشریعت کا انتخاب کا اختیار ارباب حل وعقد کو ہے، جیسا کہ امیر انتخاب کےدفعہ نمبر 12 میں درج ہےتو جب ارباب حل وعقد کا اجلاس ادارہ ہی کے ذمہ داروں کی طرف سے بلایا گیا ہے، تو اس کو قبول کرکے اس کو انا کا مسئلہ بنانا مناسب نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امیرشریعت کا منصب ایک شرعی عہدہ ہے، اس کے لئے اوصاف دستور میں درج ہیں، پھر ایسےبھی عہدہ کے طلب سے شریعت میں منع کیا گیا ہے، تو پھر امیر شریعت کے انتخاب کے لئے بالادستی کی لڑائی غیر مناسب ہے اور اس کے لئے کسی بھی طرح کی لابنگ یاکسی کے لئے لابنگ صحیح نہیںہے، ہونا تو یہی چاہئے کہ جو امارت شریعہ کےذمہ داران نے اختیار کیا ہے کہ تمام ارباب حل وعقد ایک جگہ جمع ہوکر اتفاق رائے سے دستور میں درج اوصاف سے متصف امیر کا انتخاب کرلیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ امارت شرعیہ کا دستور جامع ہے، اس کے مطابق امارت شریعہ کے تمام شعبہ جات کا اختیار امیرشریعت محترم کو حاصل ہوتا ہے۔ ناظم امارت شرعیہ بحال کرنے کا اختیار بھی امیرشریعت ہی کو حاصل ہے۔ سابق امیرشریعت مولانا محمد ولی رحمانی صاحبؒ نے قائم مقام ناظم کی حیثیت سے مولانا محمد شبلی قاسمی کو بحال کیا، دستور کے دفعہ24اختیارات امیر کے مطابق ناظم امارت شرعیہ کو تقرر اورمعزول کرنے کا اختیار امیرشریعت کو ہے۔ مولانا شبلی قاسمی کا قضیہ نامرضیہ بھی سابق امیرشریعت حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحبؒکے زمانہ میں ظاہر ہوا۔ تقریباً دو ماہ سے زیادہ عرصہ تک وہ بخیروعافیت رہے، مگر انہوں نے اس وقت کوئی کارروائی نہیں کی، پھر ان کو مرض لاحق ہوا اور وہ ہم لوگوں کے درمیان سے رخصت ہوگئے۔ اب کوئی امیرشریعت نہیں ہے، یہ عہدہ خالی ہے اور دستور کے دفعہ24شق 5 کے مطابق کسی بھی کلیدی عہدہ دار کو معزول یا برخاست کرنے کا اختیار امیرشریعت ہی کوہے، شوریٰ یا عاملہ کو نہیں ہے، تو پھر جبکہ امیرشریعت کا عہدہ خالی ہے، قائم مقام ناظم کے مسئلہ کو اٹھانا کسی طرح درست نہیں ہے۔ جب امیرشریعت منتخب ہوں گے تو وہ اس کو دیکھیں گے۔دفعہ24شق5 میں درج ہے۔ ’’امارت شرعیہ کے جملہ عہدیداران اور کارکنان کا تقرر اور ان کی برخاستگی نیز ان کے فرائض واختیارات کی تشخیص وتعیین ۔‘‘
آخر میں تمام مجلس ارباب حل وعقد کے ممبران سے اپیل ہے کہ امارت شرعیہ کے معاملہ کو خوش اسلوبی سے انجام دینے کی ضرورت ہے۔ امارت شرعیہ کے دفتر سے کارروائی کی جاچکی ہے، دعوت نامے بھیجے جاچکے ہیں، 10اکتوبر کو امیرشریعت کے انتخاب کا اعلان کیا جاچکا ہے، سب مل کردستور میں مذکور اوصاف کی روشنی میں امیرشریعت منتخب کریں، یہی ادارہ کے لئے مفید ہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)