تحریر:سدھارتھ بھاٹیہ
حالیہ برسوں میں ہندی فلموں نے حقیقی معنوں میں بھگوا جھنڈےکو بلند کیا ہے۔ قرون وسطیٰ کی کہانیاں، جو بعض دفعہ تخیل اور متھ پر مبنی ہوتی ہیں’ ان کو رزمیہ؍رزم گاہ میں تبدیل کردیا گیا ہے- جن میں ہندو راجہ پردہ سیمیں پروحشی اور بے رحم مسلمان لٹیروں کوشکست دیتے ہیں۔ہندو راجہ بار بار بہ آواز بلند اپنی ہندو پہچان کا اعلان کرتے ہیں اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ مذہبی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ موجودہ حکومت کے نئے ہائپر- نیشنلسٹ، ہندوتوا ایجنڈے کےساتھ بخوبی میل کھاتا ہے۔ لیکن اب ایک فلم وہاں تک گئی ہے، جہاں اب تک کسی اور فلم کی رسائی نہیں تھی۔
حال ہی میں ریلیز ہوئی فلم’سمراٹ پرتھوی راج‘ کاایک پرنٹ-ایڈ (اشتہار) فخریہ انداز میں اعلان کرتا ہے؛
آئیے ہندوستان کے آخری ہندوسمراٹ کا جشن منائیں۔
یہاں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ آج تک کسی نے کھلے عام اپنے پیغام کو اس طرح سے واضح لفظوں میں کسی خاص برادری تک میں محدود نہیں کیا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ ہندی فلمیں اپنی کامیابی کے لیے آبادی کے ہر حصے اور ہر مذہب کے ناظرین پر منحصرکرتی ہیں۔ یہاں ہمارے سامنے ایک ایسی فلم آئی ہے، جس کو صرف (کٹر؍شدت پسند) ہندو ناظرین ہی درکار ہیں۔
اگر آپ کو لگتا ہے کہ یہ محض ایک اشتہار کا معاملہ ہے، تو آپ کو اس کا ٹریلرضرور دیکھنا چاہیے۔ ماتھے پر تلک اور ‘ہری ہر’ کی گرج کے بیچ فلم کی منشا پر کوئی شک نہیں رہ جاتا۔یہ فلم ہمیں پرتھوی راج چوہان کی کہانی بتاتی ہے، جنہوں نے موجودہ راجستھان اور دہلی پر 12ویں صدی میں حکومت کی تھی۔ انہوں نےغوری کو کئی بار شکست دی، اور آخر میں غوری سے شکست کھا کر اس کاقیدی بن گیا۔پرتھوی راج، سنجوگتا کے لیے جن کی محبت کے بارے میں اسکولوں میں پڑھایا جاتا تھا، ان کو کئی بار فلموں اور ٹیلی ویژن پر دکھایا جاتا رہا ہے، لیکن ہندوستانی ‘راشٹر واد’کے پوسٹر بوائے اکشے کمار کی حالیہ فلم میں جس شان کے ساتھ انھیں پیش کیا گیا، ویسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔
یہاں کچھ باتیں اور ہیں، جو معمہ کے طور پر سامنے آتی ہیں- انہیں آخری ہندو سمراٹ کیوں کہا گیا ہے؟یقینی طور پراگلی چند صدیوں میں اور بھی بہت سے راجہ ہوئے، جنہیں ہندوتوا بریگیڈ مذہب کے محافظ کے طور پر پیش کرتی ہے (حالانکہ یہ بھی بہت متنازعہ ہے)۔ باجی راؤ، تانہاجی (دونوں 18ویں صدی) پر فلم بن چکی ہے۔ اور ہمیں خود کو قربان کرنے والی پدماوتی (14ویں صدی) کو نہیں بھولنا چاہیے، جنہوں نے اپنے آپ کو علاؤالدین خلجی کے حوالے کرنے کے بجائے جوہر کا ارتکاب کرنے کا انتخاب کیا، جس کی کہانی سپر ڈرامائی انداز میں ‘پدماوت‘ میں بیان کی گئی ہے۔
ان تمام فلموں میں مسلمانوں کو شیطان اور ولن کے طور پر پیش کیا گیا اور ہندوؤں کی عزت افزائی کی گئی، چاہے انہیں ایسا کرنے کے لیے ستی کی مدح سرائی ہی کیوں نہ کرنی پڑی ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری زندگی کے دو ہندوسمراٹ بال ٹھاکرے اور نریندر مودی پر بھی فلمیں بن چکی ہیں۔
تاہم، اشاروں میں بات کرنے کی روایت کو چھوڑ کر جس طرح سے یہ فلم بنا گھمائے پھرائے براہ راست اپنی بات کہتی ہے، وہ ہندی سنیما کے لحاظ سے سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور جہاں ایک طرف یہ مستقبل میں مزید بیہودہ اشتہارات کی راہ ہموار کرتی ہے، وہیں دوسری طرف یہ ہندی سنیما (اور ہندوستانی فہم و ادراک) کے لیے ماضی تک جانے والے راستے کو مضبوطی سے بند کر دیتی ہے، جو پہلے ہی فکشن جیسی لگتی ہے۔
کیا واقعی میں کوئی ایسا وقت تھا جب ہندوستان سیکولرازم میں یقین رکھتا تھا اور ہندوستانی حکومت اس کی حوصلہ افزائی کرتی تھی؟ہندی فلموں میں ان اقدارکی جھلک ملتی تھی اور ہندو مسلم ہم آہنگی ایک مستقل موضوع تھا۔ مسلمان کردار عام طور پر یا تو ایک مہربان چچا یا وفادار دوست یا ایک خوبصورت عورت کا ہوتا تھا۔ لیکن یہ کبھی بھی ولن اور اس سے بھی بڑھ کر کبھی بھی غدار نہیں ہوتاتھا۔
یہ بھی اتنا ہی مسخ شدہ نقطہ نظر تھا، اس کے باوجود یہ کسی کو نقصان پہنچانے والا نہیں تھا اور ان اقدار کو پیش کرتا تھا، جو ہمارے وجود میں سرایت کر چکی تھی — یا کم از کم ہمیں ایسا محسوس ہوتا تھا۔ڈیڑھ دہائی کے وقفہ کی دو فلموں سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان کیسا تھا اور کس طرح پاپولر کلچر نے اس کی عکاسی کی۔
پہلی فلم ہے دھرم پتر (1961)، جس کی ہدایت کاری نوجوان یش چوپڑا نے کی تھی، جن کے بیٹے کی کمپنی یش راج فلمز نے اب’سمراٹ پرتھوی راج‘ کو پروڈیوس کیا ہے۔چوپڑہ نے صرف دو سال قبل فلم ’دھول کا پھول ‘سے اپنی ہدایت کاری کی شروعات کی تھی، جس کا گانا تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا زبان زد خاص و عام ہوگیا تھا۔
’دھرم پتر‘میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ایک لڑکا شدت پسند ہندو کے طور پر بڑا ہوتا ہے، اورمسلمانوں کے خون کا پیاسا ہے۔ لیکن بعد میں اسے یہ جان کر دھچکا لگتا ہے کہ وہ خود بھی کسی مسلمان کا بچہ ہوسکتاہے۔ ہندی کمرشل فلموں کے لیے یہ ایک غیر معمولی موضوع تھا، لیکن یہ اپنے وقت کے قومی شعور سے ہم آہنگ تھا۔سال 1977 میں مسالہ فلموں کے بادشاہ منموہن دیسائی نے’امر اکبر انتھنی‘ بنائی۔ یہ دیسائی کی دیگر فلموں کی طرح ہی کمائی کرنے کے لیے بنائی گئی معمولی فلم تھی، جس میں ان کےگھسے پٹے فارمولے کی کثرت تھی – بچپن کے بچھڑے ہوئےبھائی،غیر متوقع اتفاقات،بھگوان کی مدد اور مقبول گانے۔
اپنے وقت کے ایک نہیں بلکہ چوٹی کے کئی ستاروں کی موجودگی نے اس فلم میں سونے پر سہاگے کا کام کیا۔ اس فلم کا کریڈٹ ایک تین جوان ہوچکے بھائیوں کے ایک تسلسل پر چلتا ہے، جس میں وہ کار کے نیچے آچکی ایک نابینا عورت کو خون دے رہے ہیں – اور غیر متوقع اتفاق یہ ہے کہ وہ عورت اور کوئی نہیں ، ان تینوں کی ماں ہے۔فلم کے ٹائٹل کارڈ میں ان میں سے ہر ایک کو دکھایا گیا ہے، جو مختلف مذاہب کی پیروی کرتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں، لیکن جیسا کہ فلم ہمیں یاد دلاتی ہے، وہ آپس میں بھائی ہیں۔ فلم دیکھنے والے ہر فرد تک یہ پیغام پہنچے بغیر نہیں رہتا۔
دیسائی کوئی آرٹ فلم میکر نہیں تھے، لیکن یہ بات اعتماد کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اپنی فلم کے سیکولر پیغام کے ذریعے، وہ ناقدین کو پسند آنے والی کسی آرٹ فلمساز کی کسی سنجیدہ فلم کے مقابلے کہیں زیادہ لوگوں تک پہنچ پائے۔
امر اکبر انتھنی بین الاقوامی فلم فیسٹیول میں جانے والی فلم نہیں تھی اور نہ ہی دیسائی کو اس میں دلچسپی رہی ہوگی۔ وہ شبانہ اعظمی سے اکثر کہا کرتے تھے کہ وہ اپنی اداکاری میں زیادہ ڈرامائیٹ پیدا کریں۔ ان کی دلیل تھی کہ ان کی فلمیں ستیہ جیت رے کی فلمیں نہیں ہیں۔ لیکن یہ ہندوستانی ناظرین کے لیے بالکل موزوں تھی اورآج بھی لوگ اس فلم کو پسند کرتے ہیں۔
کیا ان دونوں میں سے کوئی بھی فلم آج بنائی جا سکتی ہے اور کیا ہندوتوا کے نام نہاد محافظ انہیں بننے دیں گے؟اس بات کی بہت کم گنجائش ہے – بے لگام ہندوتوا کے جنونی افرادکو ان میں بہت کچھ قابل اعتراض لگتا ہے۔ پہلی فلم دھرم پتر، صرف ہندوتوا کے دائیں بازو کو ہی مشتعل نہیں کرتی، بلکہ کسی بھی فلمساز میں ایسی فلم کو ہاتھ لگانے کی جرأت نہیں ہوتی،جس کی وجہ سے بھگوا گروپوں کے غصے کا شکار ہونا طے تھا۔ایک بنیاد پرست مسلم مخالف دائیں بازو کودکھانا، جو بعد میں مسلمان نکلتا ہے، حدوں کو پار کرنے والا اور اشتعال انگیز قرار دیا جاتا۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس مرکزی کردار کو ہیرو کے طور پر، ایک دھرم کے راستے پر چلنے والے جنگجو کے طور پردکھایا جاتا، جو صحیح کام کر رہا ہے۔
ایک بنیاد پرست مسلم مخالف دائیں بازو کودکھانا، جو بعد میں مسلمان نکلتا ہے، حدوں کو پار کرنے والا اور اشتعال انگیز قرار دیا جاتا۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس مرکزی کردار کو ہیرو کے طور پر، ایک دھرم کے راستے پر چلنے والے جنگجو کے طور پردکھایا جاتا، جو صحیح کام کر رہا ہے۔جہاں تک دوسری فلم کا تعلق ہے تو اس کو بھی منع کر دیا جاتا۔ ہندو مسلم عیسائی کےبیچ بھائی چارہ؟ آج کے ہندوستان کے لیے یہ بہت زیاہ خطرناک ہے۔اور کچھ نہیں تو فلموں کو سینسر کرنے والی مشتعل ہجوم فلمساز کو آخر میں ہندو مذہب اختیار کرتے ہوئے دکھانے کومجبور کر دیتی، جبکہ منموہن دیسائی نے چالاکی سے اس کو سوال بنا کر چھوڑ دیا۔ فلم میں ہندو ہیرو ایک محب وطن ہوتا، مسلمان قریب قریب ایک دہشت گرد، عیسائی لوگوں کا مذہب تبدیل کرنے والا ۔ ورنہ مذہبی محافظوں کا ہجوم اس فلم کی نمائش نہیں ہونے دیتا۔ان حالات میں کون سا غیرت مند ہدایت کار فلم بنانا چاہے گا؟
کوئی چاہے تویہ استدلال کرسکتا ہے کہ سمراٹ پرتھوی راج ایک محاورے کو گڑھنے کے لیے اقدار کو اپنی گرفت میں لیتے ہیں، لیکن کیا یہ واقعی قومی اقدار ہیں یا صرف اقتدار اور سرکاری مشنری کی حمایت یافتہ پرتشدد اور شور مچانے والی بھیڑ کی قدریں ہیں، جن کا مقصد ان کے ہندوتوا کو نہ ماننے والوں پر اپنی خواہش کو تھوپنا ہے۔ہندوستانیوں کی ایک بڑی تعدادعقیدت مند ہندو ہونے کے باوجود ان کے ہندوتوا پر یقین نہیں رکھتی۔ یہ لوگ الگ خیال کے حامی افراد کی لنچنگ نہیں کرتے اور نہ ہی اونچی آواز میں بول کر دوسروں کو چپ کراتے ہیں۔
تو، ہو سکتا ہے کہ سمراٹ پرتھوی راج کے پروڈیوسر اور اس میں پیسہ لگانے والوں کو صدمہ پہنچے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ سمجھیں کہ وہ صرف کٹر ہندوتوادیوں کے بھروسے ایک بہت بڑے بجٹ کی فلم سے منافع نہیں کما سکتے۔ ان میں سے ہر کوئی تھیٹر کے باہر قطار میں کھڑا نہیں ہونے والا۔اگر باکس آفس کے اعداد و شمار توقع کے مطابق نہیں آئے تو سنیما کی ہندو لہر ختم ہو جائے گی، جیسا کہ ہندی سنیما کے متعدد دوسرے پسندیدہ موضوعات کے ساتھ ہوچکا ہے۔
(بشکریہ: دی وائر ہندی)