تحریر: شکیل رشید
ایک لمحہ کےلئے دل کی دھڑکن رک سی گئی تھی۔
این ڈی ٹی وی کے ’باکمال‘ جرنلسٹ کمال خان کی موت کی خبر اس یقین کے باوجود کہ ایک دن ہر ایک کو جانا ہے، ناقابل یقین تھی۔ جمعرات کے روز کمال خان کی موت سے ایک دن قبل مغرب کے بعد میں اپنے موبائل پر جب خبریں دیکھ رہا تھا رپورٹنگ کرنے والی آواز سن کر، میرے ساتھی’ممبئی اردو نیوز ‘کے ایگزیکٹیو ایڈیٹر عبدالرحمان صدیقی نے اپنی کرسی گھماکر پوچھا تھا کہ کیا کمال خان ہیں؟ میں نے ہاں کہا تھا۔یہ کمال خان کا کمال ہی تھا کہ ان کی آواز ہر ایک کواپنے سحر میں لے لیتی تھی۔
آہستہ آہستہ بولنے کا انداز ہر ایک کا دل موہ لیتا تھا۔ آج، جب جرنلزم بالخصوص ٹی وی جرنلزم ایک شور شرابے میں ڈھل گیا ہے اور ہر جرنلسٹ اپنی آواز تیز کرنے کو ہی اپنی خوبی اور کامیابی سمجھتا ہے، آج جب روبیکا لیاقت ، انجنا اوم کشیپ ، رومانہ خان، شویتا سنگھ اور ارنب گوسوامی جیسے جرنلسٹ تیز آواز اور لہجے میں اپنے سامنے بیٹھے ’مہمانوں‘ پر رعب جمانے کی کوشش کرتے ہیں، کمال خان کا دھیما اور میٹھا لہجہ جرنلزم کی دنیا کا ایک منفرد انداز تھا۔ اس آواز کو، اس لہجے اور انداز کو کبھی بھی بھلایا نہیں جاسکے گا۔ یہ کمال خان کا باکمال انداز ہی تھا جس نے مجھے مجبور کیا تھا کہ میں ان کی خبریں سنوں، حالانکہ میں ٹی وی خبروں سے بہت دور بھاگتا ہوں، بہت بچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اب جب یہ آواز خاموش ہوگئی تو یہ سوال سامنے آکھڑا ہوا ہے کہ اب کس کی خبریں سنوں گا؟ اس سوال کی وجہ صرف کمال خان کی آواز، لہجہ، انداز ، یا ان کی رپورٹنگ میں پائی جانے والی ادبی چاشنی ہی نہیں ہے، اس کی وجہ وہ غیر جانبداری بھی ہے جو مرحوم کی رپورٹنگ میں پائی جاتی تھی۔ آج جانبداری صحافت کا بنیادی عنصر بن گئی ہے، لیکن کمال خان رات کو رات ہی کہتے تھے، دن نہیں کہتے تھے چاہے جس قدر بھی دبائو پڑتا۔ اب کتنے جرنلسٹ غیر جانبدار رہ گئے ہیں؟ بس چند ہی ہیں، انہیں انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔ لیکن ان میں بھی کمال خان جیسی بات نہیں ہے۔ غیر جانبداری اگر ہے تو وہ آواز، لہجہ اور انداز نہیں ہے جس کےلیے مرحوم جانے اور پہچانے جاتے تھے۔ کمال خان کی شخصیت کا، ان کی شرافت کا یہ کمال تھا کہ انہیں ’تعزیت‘ پیش کرنے والوں میں وہ بھی شا مل تھے جو کمال خان کی غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کو شاید اپنے اور اپنے نظریات کےلیے ’منفی‘ یا ’نقصان دہ‘ سمجھتے رہے ہوں۔ مثلاً یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ۔ یوگی نے تعزیت پیش کی اور تعزیتی الفاظ میں ان کی غیر جانبداری کا بطور خاص تذکرہ کیا۔ کمال خان کے ایصال ثواب کےلیے مسلمانوںنے تو دعائیں کی ہی ہیں دوسروں نے بھی دعائیں کی ہیں، ان کے لیے پراتھنائیں کی گئیں اور وارانسی میں گنگا کی آرتی تک ان کے نام کی گئی ۔
آج جب کہ فرقہ پرستی بالخصوص مسلم دشمنی عروج پر ہے، کسی مسلمان جرنلسٹ کی موت پر ہندوئوں کی آنکھوں سے بہتے آنسو دیکھ کر یہ خوب پتہ چلتا ہے کہ شرافت، نیکی، غیر جانبداری، دھیما لہجہ اور انداز لوگوں کا دل جیتنے کےلیے کافی ہیں۔ یہ جرنلسٹ جو جانبداری برتتے ہیں اور شوروغل مچاتے پھرتے ہیں انہیں کبھی کمال خان جیسا پیار نہیں مل سکے گا۔ اللہ رب العزت کمال خان کی مغفرت فرمائے۔ آمین۔