دلیپ کمار شرما
آسام اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے کانگریس اور مولانا بدرالدین اجمل کی پارٹی آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (اے آئی یو ڈی ایف) کے اتحاد کو شکست دے کر ایک نیا ریکارڈ بناتےہوئے اقتدار میں واپسی کی ہے۔در اصل بی جے پی آسام میں لگاتار دوسری بار حکومت بنانے والی پہلی غیر کانگریس پارٹی ہے۔
لیکن کیا صحیح میں اس بار آسام کا اسمبلی انتخاب ترقی کی سیاست کے آس پاس تھا ، یا پھر سامنے آئے انتخابی نتائج فرقہ وارانہ پولرائزیشن کی وجہ سے زیادہ متاثر ہوئے؟
اصلمیں اس بارکے آسام اسمبلی انتخابات میںاین آر سی ، شہریت ترمیمی ایکٹ، چائے کے مزدوروں کی مزدوری ، چھ قبائل سے لے بے روزگاری جیسے کئی اہم ایشوز تھے لیکنان سب سے بی جے پی کی کارکردگی پر کوئی فرق نہیں پڑا۔
کیا رہیں وجوہات ؟
ویسے تو ان انتخابی نتائج کو لے کر سیاسی نقاد کئی الگ الگ وجوہات بتا رہے ہیں ، لیکن ان میں سے بیشتر کا خیال ہے کہ کانگریس کے لئے مولانا بدرالدین اجمل کو ساتھ لینا بہت مہنگا پڑا۔
آسام کے سینئر صحافی ، بیکونٹھ ناتھ گوسوامی کے مطابق بی جے پی کو کانگریس-اے آئی یو ڈی ایف اتحاد کی مدد سے فرقہ وارانہ پولرائزیشن کرنے کا ایک اچھا موقع مل گیا۔
آسام میں بی جے پی کی اس جیت پر گوسوامی نے بتایا کہ اس بار کے انتخابات میں سی اے اے – این آر سی ، قبیلہ سازی ، چائے کے مزدوروں کی اجرت جیسے معاملات کو دیکھتے ہوئے ایسا لگ رہا تھاکہ بی جے پی کے لئے اس بار کا انتخاب بہت مشکل ہوگا ، لیکن کانگریس کی قیادت میں جو مہاگٹھ بندھن بنا، اس میں بدرالدین اجمل کی پارٹی کو ساتھ لینے سے بی جے پی کے لیے ہندو وٹروں کو اکٹھا کرنا آسان ہو گیا۔ ‘
بی جے پی لیڈروں نے اپنی انتخابی ریلیوں میں اس اتحاد کے بارے میں جارحانہ رویہ اپنایا۔ لوگوں سے کہا گیا اگر مہا گٹھ بندھن کی جیت ہوتی ہے تو بدرالدین اجمل ریاست کے وزیر اعلیٰ بن جائیں گے اور آسام میں دراندازوں کا بول بالا ہو جائے گا۔ ریاست میں ہر طرف مساجدتعمیر کی جائیں گی لہٰذا انتخابی ریلیوں میں آئے ووٹران خاص کر دیہی ووٹر ز سیاے اے جیسے ایشو بھول گئے۔‘
سامنے آئے انتخابی نتائج سے یہ بات اچھی طرح سمجھی جا سکتی ہے کہ اوپری آسام کی جن 60-62سیٹوں پر بی جے پی کو نقصان ہونے کا اندازہ لگایا جار ہا تھا وہاں پارٹی نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا کیونکہ سی اے اے کی سب سے زیادہ مخالفت اوپری آسام میں ہو ہوا تھی۔ لیکن اس کے بعد بھی وہاں لوگوں نے بی جے پی کو ہی ووٹ ڈالا۔
گوسوامی کہتے ہیں کہ ’ اس کے علاوہ اہم اپوزیشن پارٹی کے طور پر کانگریس یہاں کے ووٹرز کو یہ یقین دلانے میں ناکام رہی کہ ریاست میں وہ بی جے پی کا متبادل ہے۔ ریاستی کانگریسی لیڈران کے بیچ جو آپسی خلفشار تھا وہ عوام کے سامنے آگیا تھا۔
دوسری طرف بی جے پی سرکار کی کچھ اہم اسکیموں میں مہیلا ووٹروں کو خاطر خواہ فائدہ پہنچایا گیا۔ اورونوڈوئی اسکیم میں خواتین کافی فائدہ اٹھانے والی تھیں ، وہ ووٹ بھی پارٹی کے حق میں گیا۔ اس کے علاوہ گزشتہ مرتبہ بوڈو لینڈ میں 12 سیٹیں جتنے والی بی پی ایف پارٹی بی جے پی سے الگ ہونے کے بعد مہا گٹھ بندھن میں تو شامل ہوئی لیکن اس کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے مہا گٹھ بندھن کو کوئی فائدہنہیں ہوا۔ بی پی ایف بوڈو لینڈ میں آدھی سیٹ بھی نہیں لاسکی۔
فرقہ وارانہ پولرائزیشن
آسام کی سیاست کو طویل عرصہ سے کوور کررہے سینئر صحافی نیو کمار ٹھاکریا بی جے پی کی جیت کے پیچھے فرقہ وارانہ پولرائزیشن کو سب سے بڑی وجہ مانتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ،’ کانگریس-اے آئی یو ڈی ایف کے ایک ساتھ آنے سےآسام کے نشیبی علاقوں کے مسلمان ووٹر ایک ساتھ آگئے ، ٹھیک اسی طرح اوپری آسام میں اس کےبرعکس ہندو ووٹر بھی متحد ہوگئے۔‘
اے آئی یو ڈی ایف کے ساتھ اتحاد کرکے کانگریس کو نہ صرف اس انتخاب میں نقصان اٹھایا ہے بلکہ مستقبل میں بھی پارٹی کو اس کا نقصان اٹھانا پڑے گا۔ کیوںکہ کانگریس میں اب اس بات کو لے کر کافی گھمسان ہونے والا ہے اور ہو سکتا ہے کہ پارٹی میں جو غیر مسلمان ایم ایل اے اور لیڈر ہیں وہ بی جے پی میں چلے جائیں۔‘
لیکن علاقائی پارٹی آسام گن پریشد (اے جی پی) کی اس عمدہ کارکردگی کے پیچھے کیا وجہ ہے؟
اس سوال کے جواب میں صحافی ٹھاکریا کہتے ہیں ،’آسام گن پریشد کی عمدہ کارکردگی کی وجہ بی جے پی کا اتحادی شریک ہونا ہے۔ آسام قوم پرستی اور راشٹر واد دونوں ساتھ میں ہے لہٰذا جو ووٹر علاقائی پارٹی کے لیے ووٹ ڈال رہا ہے وہ خود کو محفوظ محسوس کر رہاہے ۔ وہ کانگریس کے مہا گٹھ بندھن میں اس لئے نہیں گیا کیونکہ اس کے ووٹ کا فائدہ اجمل کی پارٹی کو ملے گا۔
ٹھاکریا کی بات مان لی جائے توسی اے اے کے احتجاج سے بنی نئی سیاستی پارٹیوں سے کانگریس مہا گٹھ بندھن کو کوئی خاص نقصان نہیں ہوا۔ کیونکہ آسام آندولن کے بعد جب 1985 میں اے جی پی نے سرکار بنائی تھی اس وقت بھی پارٹی نے 126 سیٹیں نہیں جیتی تھی۔
وہ کہتے ہیں ، ’کسی بھی پارٹی کے لئے لوگوں کا جذبات ہوتا ہے ، لیکن ایسا نہیں ہے کہ پوری اکثریت کسی ایک پارٹی کو ہی مل جائے۔ سی اے اے کی مخالفت کرنے والے جو ووٹر تھے وہ بھی تقسیم ضرور ہوگئے ہوں گے اور اس کا کچھ حصہ نئی پارٹیوں کو گیا ہوا۔
لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ 2021 کے اسمبلی انتخابات نے ریاست کی سیاست کو ایک طرح سے تبدیل کردیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اب ریاست میں اصل مقابلہ بی جے پی اور اے آئی یو ڈی ایف کے مابین ہوگا جو فرقہ وارانہ پولرائزیشن کے لئے لڑا جائے گا۔
(بشکریہ :بی بی سی ہندی)