نئی دہلی :(ایجنسی)
اسٹاک مارکیٹ میں فیس بُک کے شیئرز کی تجارت کو شروع ہوئے لگ بھگ دس سال بیت گئے ہیں۔ ڈیجیٹل امور کی ماہرہ کیرولینا میلانسی کا کہنا ہے کہ شروعات میں فیس بک کو نوجوانوں کے لیے حدیں چھونے والا اور سماجی رابطہ کاری کو ایک نئی روح بخشنے والے پلیٹ فارم کے طور دیکھا جاتا تھا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اب زیادہ تر لوگوں کو فیس بک سیاسی ہیرا پھیری اور اشتہارات کا مرکز لگتا ہے۔ فیس بک کو ‘ڈیٹا کی بھوکی‘ کمپنی بھی سمجھا جاتا ہے۔
کئی تنازعات کی زد میں آنے کے بعد فیس بک کا نام میٹا رکھ دیا گیا۔ اسے ایک ایسے پلیٹ فارم کے طور پر دیکھا جانے لگا جس نے صارف کی رازداری اور یہاں تک کہ معاشرے کی بھلائی کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔
دریں اثنا TikTok، LinkedIn، Pinterest، Twitter اور یہاں تک کہ ایپل بھی اب میٹا کے ساتھ آن لائن توجہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ فیس بک کو اب بوڑھے لوگوں کے لیے ایک جگہ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
قریب 2.94 بلین ماہانہ صارفین کے ساتھ، فیس بک اب بھی سوشل میڈیا کا سب سے بڑا پلیٹ فارم ہے۔ عوام کو اس کی عادت ہے۔ ڈیجیٹل امور کے ماہر ڈیوڈ بیچری نے کہا، ’’فیس بک اتنا آگے ہے کہ اسے فتح کرنا مشکل ہے۔‘‘
میٹا نے بدلتے وقت کے ساتھ خود کو ڈھالا ہے۔ اس نے بھی وہی کیا، جو اس کے حریفوں کو مقبول بنا رہا ہے، جیسے TikTok کے رجحان کے جواب میں Reels کی شکل میں مختصر ویڈیوز لانچ کرنا۔
میٹا یا فیس بک، انسٹاگرام، واٹس ایپ، میسنجر اور ایک ورچوئل رئیلٹی یونٹ کا مالک ہے، جس میں اوکولس بھی شامل ہے۔ مارکیٹنگ اسٹریٹجی فرم SociallyIN کے بانی اور چیف ایگزیکیٹو کیتھ کاکاڈیا نے کہا کہ میٹا اب بھی کسی بھی اشتہاری مہم کا ایک قیمتی حصہ ہے۔ ’’فیس بک پر بہت زیادہ ڈیٹا ہے، جو ہمیں واضح ہدف بنانے کی اجازت دیتا ہے۔ ہم جس سے آگے نکلنا چاہیں نکل سکتے ہیں اور اس سے ہمارے گاہکوں کو فائدہ ہوتا ہے۔‘‘
میٹا اب ایک پاور ہاؤس بن چکا ہے جبکہ فیس بک اسمارٹ فونز کو خطرناک حد تک لوگوں کی زندگیوں کا مرکز بنا رہا تھا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ میٹاورس میں فیس بک کے صارفین یہ دیکھنے کی بجائے کہ ان کے دوستوں نے چھٹیوں پر کیا کیا، خریداری کو ترجیح دیں گے۔ ڈیوڈ بیچری نے کہا، ’’تمام برانڈز میٹاورس پر آنا چاہتے ہیں، سبھی کو خوف ہے کہ وہ پیچھے نہ رہ جائیں۔‘‘