تحریر:کلیم الحفیظ -نئی دہلی
رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہونے والا ہے۔اس مہینے کی فضیلتیں قرآن اور احادیث میں بے شمار ہیں ۔لیکن اس کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ اس مہینے میں قرآن پاک نازل ہوا۔یہ مہینہ ہمیں روحانی اور اخلاقی بلندی پر پہنچانے کے لیے ہے۔اس مہینے میں ہمدردی اور غم خواری کے جذبات اور احساسات پیدا ہوتے ہیں۔یہ مہینہ ہمیں ایک بڑے مقصد کے لیے تیار کرتا ہے۔لیکن افسوس یہ ہے کہ یہ مقدس مہینہ ہر سال آتا ہے اور چلاجاتا ہے ۔ ہماری زندگی میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ہماری اخلاقی حالت میں مزید گراوٹ آتی ہے۔ہماری سماجی اور سیاسی پسماندگی مزید بڑھ جاتی ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم شعوری طور پراس سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔اسلام کی دوسری عبادات کے ساتھ ہم نے جوحال کیا ہے وہی حال ہم نے رمضان کے ساتھ بھی کیا ہے۔جو روزہ نہیں رکھتے ان کا تو ذکر ہی کیا کرنالیکن جو لوگ روزہ رکھتے ہیںان کو تو کم از کم روزے کے مقاصد پر نگاہ رکھنا چاہئے تاکہ وہ بھوک پیاس کی جس تکلیف کو برداشت کررہے ہیںاس کا فائدہ انھیں پہنچے۔رمضان کا استقبال کیجیے اور عہد کیجیے کہ اس بار پورے شعور کے ساتھ روزہ رکھیں گے۔
رمضان ماہ قرآن ہے ۔اس لیے کہ اسی مہینے میں قرآن نازل ہوا۔قرآن پاک کے نزول کی وجہ سے ہی اس مہینے کو تمام فضیلتیں حاصل ہیں۔اسی کے باعث رمضان کو باقی 11مہینوں پر سرداری حاصل ہے۔اس کا مطلب ہے کہ قرآن کی وجہ سے عروج حاصل ہوتا ہے۔یہی بات اللہ کے نبی ؐ نے فرمائی ہے کہ اسی کتاب کی بدولت اقوام کو بلندی ملتی ہے اور اسی کی وجہ سے وہ پستی کی دل دل میں چلی جاتی ہیں۔مگر ہم نے کیا کیا ۔وہ قرآن جو ہمیں حق و باطل کی تمیز بتانے آیا تھا،جو اس لیے دیا گیا تھا کہ ہم اس کو سمجھیں اور عمل کریں،جس میں ہماری زندگی کے ہر پہلو پر رہنمائی ہے،اسی قرآن کو تعویذ گنڈوں کی کتاب بنا کر کھ دیا،جو ہمیں حکومت اور سربلندی دلانے آیا تھا اس سے ہم جن اور بھوت بھگانے کا کام لینے لگے ،اب ناظرہ پڑھنے والے بھی کم ہوگئے،جو لوگ پڑھنا جانتے ہیں وہ بھی بس رمضان میں دور کرلیتے ہیں۔سمجھ کر پڑھنے والوں کا اوسط شاید ایک لاکھ میں ایک ہو۔ مسلمانوں کی پوری پوری بستیاں ایسی ہیں جہاں کوئی ایک بھی سمجھ کر نہیں پڑھتا۔یہی ہماری پسماندگی کا سبب ہے ۔آج کے ترقی یافتہ زمانے میں سمجھنا آسان ہوگیا ہے ،آپ کے موبائل پر علماء اور مفسرین کی تفسیریں موجود ہیں ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
اس مہینے میں روزہ رکھ کر جو مقصد حاصل کرنا ہے اسے قرآن کی زبان میں تقویٰ کہا گیا ہے۔جس کو ہم پرہیزگاری کہتے ہیں۔اللہ سے ڈرنے کی صفت کو بھی تقویٰ کہا جاتا ہے۔روزہ ہمارے اندر اللہ کے وجود ،اس کے حاضر و ناظر ہونے کا احساس دلاتا ہے ۔ہم روزے کی حالت میں اسی لیے کوئی ایسا کام نہیں کرتے جو روزے کو توڑنے والا ہو ،چھپ کر بھی نہیں کرتے ،کیوں کہ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے اور وہ ہر وقت دیکھ رہا ہے۔روزے کی حالت میں ہم کسی کی برائی نہیں کرتے ،لڑائی نہیں کرتے،جھوٹ نہیں بولتے اس لیے کہ ہمیں معلوم ہے کہ ایسا کرنے سے ہمارے روزے میں کمی آجائے گی اور یہ روزہ نہ ہوکر فاقہ ہوجائے گا۔مسلسل ایک مہینے تک کی یہ تربیت ہماری روح کو پاک کرنے کے لیے کافی ہے ،لیکن ہماری روح جیسی رمضان سے پہلے ہوتی ہے ویسی ہی عید کے بعد رہتی ہے۔ ہم ان اخلاقی برائیوں سے روزہ کی حالت میں بھی نہیں رکتے جن سے رکنا چاہئے ۔ بیشتر روزے دار جھوٹ بولنا،گالیاں دینا،غیبت کرنا نہیں چھوڑ تے۔یہ رویہ مناسب نہیں ہے ۔رمضان ہماری اخلاقی تربیت کا مہینہ ہے۔ہمیں اپنے اخلاق کو نکھارنا چاہئے۔
بھوک پیاس کی شدت ہمیں انسانوں سے محبت کرنا سکھاتی ہے۔ہمارے اندر ہمدردی اور غم خواری کا احساس پیدا کرتی ہے۔یہی احساس ہمیں ان کی مدد پر ابھارتا ہے۔برصغیر کے مسلمان اپنی زکاۃ بھی اسی مہینے میں نکالتے ہیں،اس طرح پورا مسلم معاشرہ ہمدردی اور تعاون کی فضامیں ڈوب جاتا ہے ۔لیکن میں دیکھتا ہوں کہ اس کے باجود مسلمانوں کی غربت میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے۔ہمدردی اور غم خواری کا احساس رمضان ختم ہوتے ہی ہوا ہوجاتا ہے ،کیوں کہ وہی ہاتھ جو رمضان میں کسی کی مدد کے لیے بڑھتے ہیں ،رمضان کے بعد وہی کسی کو مارنے اور جان لینے کے اٹھتے ہیں۔
غربت میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ زکاۃ کی غیر منصوبہ بند تقسیم ہے۔ ہزاروں کروڑ کی زکاۃ خرچ ہونے کے بعد بھی معاشی حالت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی ۔اس لیے ضروری ہے کہ جو لوگ زکاۃ دینے والے ہیں وہ اس کا خیال رکھیں کہ ان کی زکاۃ سے ملت کی معاشی حالت مستحکم ہو۔لینے والاکوئی ایک ہاتھ ہی سہی دینے والا ہاتھ بن جائے۔پیشہ ور فقراء سے بچنے کی ضرورت ہے۔ان کی بڑی تعداد ہے،اس موقع پر غیر مسلم بھی بڑی تعداد میں مسلمانوں کے لباس میں آنے لگے ہیں۔بہتر ہوگا کہ ایک محلے یا ایک بستی کے لوگ اپنی بستی کی منصوبہ بندی کرلیں اور اس کے بعد ان کی ضرورت کے مطابق مدد کریں۔
یہ مہینہ قرآن کے پیغام کو عام کرنے کا بہترین مہینہ ہے ۔آج بھارت میں اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ بعض فرقہ پرست عناصر کا جو رویہ ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان تک قرآن کا پیغام نہیں پہنچا۔وہ ہمارے عمل کو دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ یہی قرآن ہے ۔کاش ہمارا عمل قرآن کا آئینہ ہوتا۔لیکن جب تک ہم اپنے عمل کی اصلاح کریں اس وقت تک کے لیے ضروری ہے کہ اپنے غیرمسلم بھائیوں کو قرآن کا ترجمہ ان کی زبان میں پہنچائیں۔ان کو نماز کے مناظر دکھائیں۔ان کو افطار اور عید پر اپنے گھر دعوت دیں۔
یہ مہینہ طبی نقطۂ نظر سے بھی بہت اہم ہے۔روزہ ہمارے جسمانی امراض کے لیے بھی سود مند ہے۔اس سے کینسر کے خطرات کم ہوتے ہیں ۔کولیسٹرول کم کیا جاسکتا ہے ،بلڈ پریشر اور شگرکنٹرول کی جاسکتی ہے ،مگر یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم زبان کے چٹخارے پر کنٹرول رکھیں ۔اگر ہمارا حال یہی رہا جو اس وقت ہے تو روزے سے امراض گھٹنے کے بجائے بڑھ جائیں گے ۔ہمارے افطار کے دستر خوان کی زیادہ تر غذائیں جسم کو نقصان پہنچانے والی ہوتی ہیں۔گھر کی خواتین کے وقت کا ایک برا حصہ پکوان بنانے میں گزرجاتا ہے۔رمضان اس لیے نہیں ہے کہ آپ خوب کھائیں بلکہ یہ تو آپ کو کم کھانے کی تربیت دینے آیا ہے۔جس طرح ایک فوجی کو ڈرل کرائی جاتی ہے ،دوڑایا جاتا ہے اور بھوکا رکھاجاتا ہے تاکہ محاذ جنگ پر بھوکا رہ کر بھی دشمنوں کا مقابلہ کرسکے اسی طرح اللہ اپنے فوجی کی تربیت کرتا ہے ۔
یہ مہینہ ہمیں وقت کی اہمیت اوروقت کی پابندی کرناسکھاتا ہے ۔سحرو افطار میں ہم ایک ایک منٹ دیکھتے رہتے ہیں۔سارے کام اس طرح کرتے ہیں کہ وقت پر افطار کرسکیں۔وقت کی پابندی کی یہ عادت ہمیں اپنے باقی معاملات اور باقی ایام میں بھی اختیار کرنا چاہیے۔
یہ مہینہ ہماری ایمانی قوت میں اضافہ کرتا ہے ،ہمیں باطل سے لڑنے کی ٹریننگ دیتا ہے ،جس طرح ایک روزے دار خود کو برائیوں سے روکتا ہے اسی طرح اسے اپنے سماج اور معاشرے سے برائیوں کو دور کرنا ہے ،روزہ خیر اور شر میں تمیز کرنے کی صلاحیت کو پروان چڑھاتا ہے ۔وہ ہمیں خیر کے کام کرنے پر ابھارتا ہے اور برے کاموں کو روکنے کی ہمت دیتا ہے ۔آج ہمارے معاشرے میں قدم قدم پر برائیاں ہیں ،ملک میں نفرت اورعداوت ہر روز بڑھ رہی ہے ،شہریوں میں قوت برداشت کم ہورہی ہے ،روزہ ان برائیوں سے لڑنے کی قوت فراہم کرتا ہے۔وہ ہمارے اندر صبراور تحمل کی صفات پروان چڑھاتا ہے ۔مگر ہم غیر شعوری طور پر روزے کی رسم ادا کرکے سارے نتائج ختم کردیتے ہیں ۔اللہ نیک اعمال کا بدلہ دنیا میں بھی عطا کرتا ہے ۔اگر ہمارے نیک اعمال کا مثبت نتیجہ ہماری اپنی زندگی اور معاشرے پر مرتب نہیں ہوتا تو سمجھ لیجئے کہ یہ نیک اعمال بارگاہ ِرب العزت میں نامقبول قرار دے دئے گئے ہیں۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)