تحریر: خدیجہ عارف
’میری دلی خواہش تھی کہ میں اپنی سب سے پسندیدہ کتاب یعنی قرآن کی خطاطی کروں اور جتنی جلد ہو سکے اس کام کو انجام دوں‘۔
’گزشتہ برس میں نے قرآن کے ایک پارے کی خطاطی کی اور اپنے گھر والوں اور دوستوں کو دکھایا اور ساتھ یہ خواہش بھی ظاہر کی کہ میں پورے قرآن کی خطاطی کرنا چاہتی ہوں۔ میرے والدین کو یہ سن کر خوشی تو بہت ہوئی لیکن ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا سوچ لو، محنت بہت کرنی ہوگی‘۔
یہ کہنا ہے بے حد کم گو، شرمیلی، اور بیڈمنٹن کی فین، فاطمہ صہبا کا جنھوں نے کیلی گرافی یعنی خطاطی کے اپنے شوق کو جنون میں تبدیل کیا اور ایک سال دو ماہ کے اندر قرآن کی خطاطی کر کے نہ صرف اپنے خاندان والوں بلکہ متعدد انجان لوگوں کا بھی دل جیت لیا ہے۔
جنوبی ہندوستان کی ریاست کیرل کے شہر کنور سے تعلق رکھنے والی 19 سالہ فاطمہ کو بچپن سے خطاطی کا شوق تھا اور وہ کبھی کبھی قرآن کی آیات کی خطاطی کر کے اپنے والدین کو دکھاتی تھیں اور وہ بہت خوش ہو جاتے تھے۔
فاطمہ نویں جماعت میں تھیں جب انھوں نے دیگر آرٹ کے ساتھ اپنی خطاطی کی صلاحیت کو بہتر کرنا شروع کیا۔ اس وقت فاطمہ اپنے خاندان کے ساتھ اومان میں رہائش پزير تھیں اور اسکول سے آنے کے بعد اکثر خطاطی کرتی تھیں۔
فاطمہ کا کہنا ہے کہ انہیں قرآن بہت خوبصورت لگتا ہے اور ان کی خواہش تھی کی وہ ایک دن پورے قرآن کی خطاطی کریں۔
وہ بتاتی ہیں ’ابتدا میں، میں نے ایک دو سورتوں کی خطاطی کرنا شروع کی۔ میرے امی ابو نے ہمیشہ کی طرح میری بہت حوصلہ افزائی کی۔ میں کبھی کبھی بعض آیات کی خطاطی کرتی تھی اور ان کو فریم کرواتی تھی، تو مجھے میرے رشتہ داروں اور دوستوں نے آرڈر دینا شروع کر دیے۔ اس سے مجھے یہ احساس ہوا کہ میرے ہاتھ میں صفائی ہے اور میں اس کو جاری رکھوں‘۔
دسویں جماعت مکمل کرنے کے بعد فاطمہ اپنے والدین اور دونوں چھوٹے بھائی بہنوں کے ساتھ واپس ہندوستان آگئی تھیں اور ان کے والد نے اپنے کنور ضلع کے کوڈاپارمبا شہر میں رہنے کا فیصلہ کیا۔
اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد فاطمہ آرٹ کے شعبے میں کچھ کرنا چاہتی تھیں اس لیے انہوں نے انٹیریر ڈیزائنگ کا کورس کرنے کا فیصلہ کیا۔
فاطمہ اب اپنے ضلع کنور کے مقامی کالج میں زیر تعلیم ہیں اور وہاں سے انٹیریر ڈیزائننگ کا کورس کر رہی ہیں۔
فاطمہ کا کہنا ہے کہ وہ عمان کی زندگی اور وہاں اپنے دوستوں کو بے حد مِس کرتی ہیں لیکن انہیں کنور میں نئے دوست بنانے میں کوئی زیادہ مشکل نہیں ہوئی۔ ان کا کہنا ہے ’میں اسکول سے آکر تھوڑی دیر آرام کرتی ہوں، اور مغرب کے بعد کچھ وقت خطاطی کرنے میں گزارتی ہوں‘۔
وہ بتاتی ہیں عمان میں زندگی بہت الگ تھی۔ وہاں کا کلچر الگ ہے۔ وہاں ہم بہت مزے کرتے تھے۔ لیکن ہندوستان میں ہمارے سارے خاندان والے ہیں، اس لیے یہاں بھی زندگی اچھی ہے‘۔
فاطمہ کا کہنا ہے کہ ہر ایک شخص کو، اگر موقع ملے تو، اپنی پسند کے پروفیشن کا انتخاب کرنا چاہیے اور اس کے لیے محنت کرنی چاہیے۔
پورے قرآن کی خطاطی شروع کرنے سے پہلے فاطمہ کے والدین نے ایک اسلامی تعلیم دینے والے استاد سے رجوع کیا اور معلوم کیا کہ فاطمہ قرآن کی خطاطی کرسکتی ہے یا نہیں۔
فاطمہ بتاتی ہیں کہ ’ان کی اجازت کے بعد میں نے اس کام کا آغاز کیا‘۔
وہ بتاتی ہیں ’میں نے اپنے والد سے کہا کہ مجھے بلیک بال پین اور آرٹ بکس چاہیے۔ وہ قریب کی دکان سے سارا سامان لے آئے۔ میں روازنہ اسکول سے آکر کچھ دیر آرام کرنے اور مغرب کی نماز پڑھنے کے بعد خطاطی کرنے بیٹھتی تھی۔ میں نے گزشتہ برس جولائی میں یہ کام شروع کیا تھا اور اس برس ستمبر میں مکمل کیا ہے‘۔
ان کا کہنا ہے ’میری ایک چھوٹی بہن ہے اور نو سال کا بھائی۔ میرے والدین تو سمجھتے ہیں کہ میں ایک سنجیدہ کام کر رہی ہوں، لیکن میرے چھوٹے بہن بھائیوں نے بھی میرا پورا ساتھ دیا‘۔
’مجھے یہ فکر تھی کہ کہیں مجھ سے کوئی غلطی نہ ہو جائے تو میری امی میرے ساتھ بیٹھتی تھیں اور میرے کام پر نظر رکھتی تھیں۔ میں پہلے پنسل سے خطاطی کرتی تھی اور اس کے بعد جب ایک بار پورا صفحہ بغیر کسی غلطی کے لکھ لیتی تھی تو پھر اس کو پین سے لکھتی تھی۔
’کبھی کبھی غلطیاں بھی ہوتی تھیں لیکن میں ان میں اصلاح کر لیتی تھی۔ بعض اوقات میں خطاطی کر رہی ہوتی اور غلطی ہوجاتی تھی، مجھے پتہ نہیں چلتا تھا تو میری امی مجھے اسے صحیح کرنے کا کہہ دیتی تھیں‘۔
فاطمہ کا مزید کہنا تھا ’مجھے شروع میں ایسا لگتا تھا کہ ’جس کام کی شروعات کی ہے کیا میں اسے مکمل کر سکوں گی یا نہیں۔ لیکن میں نے ہر دن مزے سے اس کام کو انجام دیا۔ میرا اپنا کمرہ ہے میں وہاں بیٹھ کر گھنٹوں خطاطی کرتی تھی‘۔
فاطمہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے کل 604 صفحات پر خطاطی کی ہے۔ ’مجھے لگتا ہے کہ شروع کے صفحات بہت صاف اور اچھے ہیں لیکن جیسے جیسے میں خطاطی کرتی رہی، ہر صفحہ مزید بہتر ہوتا چلا گیا‘۔
فاطمہ کے والدین کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی نہ صرف ان کا بلکہ ‘سب کا دل خوش کر دیا ہے۔ ان کی والدہ نادیہ رؤف کا کہنا ہے ’صرف اللہ کی مدد سے فاطمہ نے یہ کام مکمل کیا ہے۔ مجھے اپنی بیٹی پر بہت فخر ہے۔ فاطمہ بہت محنتی ہے۔ وہ جو بھی کام کرتی ہے اسے پوری محنت اور لگن سے انجام دیتی ہے۔‘ فاطمہ کے والد عبدالرؤف کا کہنا ہے ’مجھے فاطمہ پر بہت فخر ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ اللہ نے مجھے اتنی نیک، اور دین و ایمان سے محبت کرنے والی بیٹی دی ہے۔‘
فاطمہ کا کہنا ہے کہ ’ابو اور امی نے ہمیشہ میری حوصلہ افضائی کی ہے لیکن انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ جب میں یہ کام پورا کروں گی تو انہیں مبارکباد کے اتنے فون آئیں گے۔ ابو بہت خوش ہوتے ہیں جب لوگ ان سے کہتے ہیں کہ ان کی بیٹی نے بہت زبردست کام کیا ہے‘۔
فاطمہ مزید بتاتی ہیں ’میرے والد بہت کم بولتے ہیں لیکن جب لوگ ان کو فون کر کے میری تعریف کرتے ہیں تو وہ بہت خوش ہوتے ہیں‘۔ فاطمہ نے بتایا کہ شروع میں انہوں نے اپنے والدین اور صرف بہت قریبی دوستوں کو بتایا تھا کہ وہ پورے قرآن کی خطاطی کر رہی ہیں ’اس کی وجہ یہ تھی کہ میں چاہتی تھی کہ ایک بار میں یہ کام مکمل کرلوں تب ہی سب کو بتاؤں گی اور کوئی وجہ نہیں تھی‘۔
فاطمہ کا کہنا ہے کہ انھیں اپنے گھر اور اپنے ارد گرد چيزوں کو سجانے کا بہت شوق ہے اور ان کی خواہش ہے کہ وہ مستقبل میں لوگوں کو خطاطی سکھائیں۔
ان کا خیال ہے کہ انسان کو اگر کسی چيز کو سیکھنے کا شوق ہے اور اپنے فن سے محبت ہے تو وہ کسی بھی طرح اس کو پورا کرلیتا ہے۔
فاطمہ جب چھوٹی تھیں تب اپنے بہنوں اور سہلیوں کے ہاتھوں پر مہندی لگاتی تھیں اور ’لوگ کہتے تھے کہ میرے ہاتھ میں بے حد صفائی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے بچپن سے ڈیزائن بنانے کا بہت شوق ہے۔ اسی وجہ سے میرا دھیان کیلی گرافی کی طرف گیا۔ عربی زبان میں اتنے ڈیزائن ہیں کہ کسی بھی فن کار کے لیے خطاطی کرنا ایک بے حد مزے کا تجربہ ہوسکتا ہے‘۔
فاطمہ کا کہنا ہے کہ وہ ہمیشہ خطاطی کرتی رہیں گی کیونکہ یہ ایک کام ہے جسے کرتے ہوئے وہ اپنے آس پاس جو ہو رہا ہوتا ہے اسے بھول جاتی ہیں۔
فاطمہ بہت محنتی اور بے حد لگن سے اپنی تعلیم اور شوق کو انجام دے رہی ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ جب وہ فری ہوتی ہیں تو انہیں اپنے دوستوں کے ساتھ باہر جانا، مزے کرنا بہت پسند ہے۔ وہ بے شک کم گو ہیں لیکن ‘مجھے اپنے دوستوں سے باتیں کر کے بہت خوشی حاصل ہوتی ہے‘۔
فاطمہ کا کہنا ہے کہ ‘میں بہت شرمیلی ہوں لیکن پورے قرآن کی خطاطی مکمل کرنے کے بعد میڈیا اور متعدد لوگوں نے مجھ سے بات کی، مجھے بہت اچھا لگا۔ یہ احساس ہوا کہ میری محنت رنگ لائی ہے۔ لوگ جب تعریف کرتے ہیں تو اچھا لگتا ہے‘۔
(بشکریہ : بی بی سی )