تحریر:نازش ہما قاسمی
ملک میں تمام ہندو تنظیموں کی مکمل پلاننگ کے تحت مسلمانوں کا جینا دوبھر کیاجارہا ہے۔ بی جے پی جب پہلی بار برسراقتدار آئی اس وقت سے ماب لنچنگ سے شروع ہونے والا ظلم بڑھتے ہوئے، گھر واپسی، لوجہاد، سی اے اے، این آر سی، حجاب، حلال، لاوڈ اسپیکر سمیت دیگر مسائل کے ساتھ جاری ہے ۔ اب تک مسلمانوں کے خلاف ہونے والے ظلم میں حکومت یا تو خاموش تماشائی بنی رہی ہے یا پھر اس نے ظالموں کی پشت پناہی کی تھی؛ البتہ براہ راست حکومت کا عمل دخل نہیں تھا؛ لیکن اترپردیش کے یوگی کے بلڈوزر سے ہوتے ہوئے اب مدھیہ پردیش کے شیوراج چوہان سنگھ اور دہلی کی میونسپل کارپوریشن بھی بلڈوزروں کا سہارا لے کر غریب مسلمانوں کو بے سہارا کررہی ہے۔رمضان کے مقدس مہینے میں غریب مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلا کر ریاستی حکومتوں نے جو ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں وہ ہندوستانی تاریخ کے تاریک ترین دوروں میں لکھا جائے گا۔کہیں بغیر نوٹس دیئے اور کہیں بلا وجہ مسلمانوں کے سر الزام تھوپ کر جس طرح ریاستی حکومتوں نے ظلم کی نئی داستان رقم کی ہے؛ ممکن ہے اس سے کچھ شدت پسند عناصر کے حوصلے بڑھ جائیں اور ان پارٹیوں کا ووٹ بینک مضبوط ہوجائے؛ لیکن یہ عمل انسانیت پر ایسا بدنما داغ بن کر ان کی تاریخ سے چسپاں ہوگا جو کبھی بھی ختم نہیں کیا جاسکے گا۔
حال ہی میں رام نومی کے تیوہار کے بعد ملک کی آٹھ ریاستوں میں ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد نے یہ واضح کردیا ہے کہ اب مسلمانوں کو خاموشی سے مرنا ہوگا، کھرگون، جہانگیر پوری کی طرح دفاع میں کھڑے ہوئے تو املاک قرق اور گھر وں پر بلڈوزر چلے گا اور گرفتار کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیاجائے گا۔ جہاں کوئی پرسان حال نہیں ہوگا، رام نومی کے موقع پر شرپسند عناصر حکومت کی پشت پناہی سمیت پولس کی موجودگی میں مسلمانوں کی مساجد کے سامنے ناچنے گانے کے علاوہ دشنام طرازی اور دھمکیوں پر مبنی گانے بجارہے تھے؛ لیکن افسوس کہ جنہیں قانون کا رکھوالا اور عوام کے لئے وردی پہنائی گئی تھی وہ بھی بلوائیوں کے ساتھ مل کر اس کا مزہ لوٹ رہے تھے۔ اتراکھنڈ، کرناٹک، مدھیہ پردیش اور دہلی کی حالت ناقابل بیان ہے، مسلمانوں کے گھروں کو توڑا گیا، مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا اور مسلم عورتوں کو ڈرایا دھمکایا گیا اور سب کچھ پولس کی موجودگی میں ان کی حمایت سے کیا جارہا ہے۔ اب ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ ان شرپسندوں کو حکومت وقت کی مکمل حمایت مل گئی ہے اور وہ منمانی کرتے پھر رہے ہیں۔
مسلمانوں نے آزادی کے بعد سے اب تک صرف صبر ہی کیا ہے اور اس صبر کا نتیجہ انہیں یہ ملا ہے کہ اب ان کی جان ومال کچھ بھی محفوظ نہیں۔ وہ خود کو ٹھگا ہوا محسوس کررہے ہیں؛ بلکہ حکومت، انتظامیہ، عدلیہ، میڈیا کے استحصال اور پروپیگنڈے نے انہیں خود کی ہی نظر میں مجرم بنادیاہے جب بھی وہ اپنے گریبان میں جھانکتے ہیں تو اپنے آپ کو مجرم تصور کرتے ہیں، مسلمانوں کی اکثریت دین سے دور ہوچکی ہے اسی مجرمانہ تاثر کا نتیجہ ہے کہ اگر ہم داڑھی ٹوپی، کرتا پاجامہ میں رہے تو مجرم بن جائیں گے ، اپنے مذہبی اعمال سے دور ہوکر یہ قوم خوف ودہشت میں مبتلا ہوگئی ہے ۔ مال کی کثرت اور اولاد کی محبت نے موت سے خوفزدہ کردیا ہے ۔ ہندوستانی مسلمانوں کے پاس اب کوئی سہارا نہیں ہے، ملک کے بیشتر میڈیا ہاوس زرخرید غلام ہی نہیں؛ بلکہ کھلے عام مسلم مخالف ماحول میں ڈھل چکے ہیں۔ صبح سے شام تک ان کا مقصد مسلمانوں کو ذہنی طور پر مفلوج کرنا اور دوسرے طبقہ میں زہر گھولنا رہ گیا ہے۔ جس میڈیا کو سچ بتانے کا کام سونپا گیا تھا آج وہ جھوٹ بولنے کی فیکٹری بن چکا ہے۔
جمہوریت میں گنگا جمنی تہذیب کےلیے کوششیں کرنا اچھی بات ہے؛ لیکن سیکولر ازم کا جنازہ صرف اکیلے اُٹھانا یہ اچھی بات نہیں، انہوں نے واضح کردیا ہے کہ انہیں گنگا جمنی تہذیب، سیکولر ازم اور امن وآشتی سے کوئی سروکار نہیں وہ تمہاری بیٹیوں کو اُٹھانے کی باتیں سرعام کرتے ہیں، وہ تمہاری مسجدوں کے سامنے تلواریں لہراتے ہوئے ملے کاٹے جائیں گے، رام رام چلائیں گے کے نعرے لگارہے ہیں، وہ دن دہاڑے تمہاری مسجدوں پر بھگوا جھنڈے لگا رہے ہیں، وہ تمہارے اکابرین کے مزارات کو نذرآتش اور ان پر قبضہ کرکے مورتیاں نصب کررہے ہیں۔ ان سب کے باوجود سیکولر ازم کی خوبصورتی کے تحت تم مسلمانوں کو ہی مجرم سمجھا جارہا ہے، عدالت سے فیصلہ ہونے سے قبل ہی تمہیں کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے اقدام کئے جاتے ہیں، تم پر الزام لگا کر تمہیں پابند سلاسل کیاجارہا ہے، تمہیں مارا جارہا، پولس، عدلیہ، انتظامیہ سبھی مسلمانوں کے خلاف نظر آرہے ہیں۔ دفاع جمہوری حق ہے؛ لیکن اب اس دفاع پر تمہیں مجرم مانا جارہا ہے، پھر کیسے ان فرقہ پرستوں اور ہندو دہشت گردوں سے خود کو بچائیں گے، اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہم آئین پر اب بھی یقین رکھتے ہیں،آئین میں دی گئی آزادی کےلیے ہمیں متحد ہوکر اُٹھ کھڑا ہونا ہوگا؛ ورنہ یہ فرقہ پرست دہشت گرد ملک کو توڑنے کی ٹھان چکے ہیں اور ملک نفرت سے ہی ٹوٹے گا، اور نفرت کی کھیتی کشمیر سے لے کر کنیا کماری تک بوئی جاچکی ہے جس کی فصل پک گئی اور اب کاٹی جارہی ہے ہمیں اس کاٹے جانے کے سلسلے کو روکنا ہے اس کےلیے جلد ہی اقدام کریں، اور موثر اقدام کریں؛ ورنہ نسلیں ہمیں کوسیں گی۔مسلمانوں نے ہمیشہ اس ملک کی جمہوریت کو بچانے اور اس کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے؛ لیکن اب مسلمانوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ پھر بھی ہمیں یقین ہے کہ آج بھی کچھ برادران وطن ہیں جن میں انسانیت باقی ہے؛ لیکن وہ شرپسندوں کے خوف سے خاموش ہیں انہیں بولنا ہوگا، ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ہوگا، انہیں سڑکوں پر اترنا ہوگا، تب کہیں ممکن ہے کہ اس ظلم و ستم کا راستہ روکا جائے؛ ورنہ یہ نفرت کی آگ مسلمانوں کے گھروں کو خاکستر کرتے ہوئے کتنے لوگوں کے گھروں کو برباد کرے گی اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)